پبلک بس میں گنگنانا منع ہے
کینیڈا چاہے ترقی یافتہ ملک ہے مگر ذاتی گھر اور گاڑی رکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ ایک بڑی تعداد کرائے کے اپارٹمنٹس میں رہتی ہے اور شہر میں چلنے والی بس سروس ہی ان کیلئے آمد و رفت کا ذریعہ ہے۔
بس سروس کے کرائے ویسے تو ہر چھ ماہ یا سال بعد بڑھتے رہتے ہیں مگر ٹکٹ کے علاوہ ماہانہ یا پھر ہفتہ بھر کیلئے ’’پاس‘‘ بھی فروخت ہوتے ہیں۔ ’’پاس‘‘ حاصل کرنے(خریدنے) کا مطلب یہ ہے کہ آپ جب چاہیں، جہاں چاہیں اور جتنی دفعہ مرضی ہو بس میں سفر کر سکتے ہیں۔ سٹوڈنٹس اور سینئرز کیلئے رعایتی نرخوں کے بس پاس فروخت ہوتے ہیں جبکہ ’’فل بس پاس ‘‘ کی قیمت اب خاصی بڑھ چکی ہے۔
صبح کے اوقات میں جب لوگ اپنے کاموں پر دفاتر یا پھر سکول کالجز میں جا رہے ہوتے ہیں تو بس سروس ہر پندرہ منٹ بعد میسر ہوتی ہے اور پھر بتدریج اس کا دورانیہ آدھا گھنٹہ تک ہو جاتا ہے اور ویک اینڈ پر یہ دورانیہ یعنی انتظار کا وقت گھنٹہ بھی ہو سکتا ہے۔ لوگ اپنے موبائل فون سے بس سٹاپ پر کھڑے بس سروس کے فون سے بس کے آنے کا وقت بھی معلوم کر لیتے ہیں اور گھر سے سٹاپ پر اسی وقت آتے ہیں جب بس آنے کا وقت ہو رہا ہو۔ چند منٹ کی تاخیر سے آپ بس ’’مس‘‘ بھی کر سکتے ہیں کیونکہ سٹاپ پر کسی کا انتظار نہیں کیا جاتا۔
زیادہ تر بسوں میں سردیوں کے موسم میں ہیٹنگ سسٹم ہوتاہے مگر گرمیوں میں ائیر کنڈیشنگ موجود نہیں ہوتا۔ تازہ ہوا کیلئے کھڑکیاں کھولنا پڑتی ہیں۔ اب کچھ نئی بسوں میں گرمیوں کیلئے بھی ائیر کنڈیشنگ موجود ہیں۔
گزشتہ سال مقامی ٹرانزٹ کی بسوں میں کرایہ کی رقم جمع کرنے کیلئے نئی مشین نصب کی گئی ہے۔ جو آپ کے ڈالے ہوئے سکے گننے کے بعد بتاتی ہے کہ کرایہ کی رقم پوری ہے یا کم اس سے قبل لوگ مشین میں کم سکیّ ڈال دیتے تھے اور ڈرائیور کو پتہ نہیں چلتا تھا اور یوں بس سروس کو نقصان ہو رہا تھا۔ آپ نے بس میں سوار ہونے کے بعد ایک مرتبہ کرایہ کے سکے ادا کر دیئے تو مشین آپ کو ایک ’’ٹرانسفر‘‘ پرنٹ کرکے دیتی ہے جس پر وقت پرنٹ ہوتا ہے اور آپ وہ ٹرانسفر استعمال کرتے ہوئے ایک گھنٹہ کے اندر اندر کسی دوسری بس میں بھی بیٹھ سکتے ہیں۔
بس پاس آپ بس میں سوار ہونے پر ڈائیور کو دور سے دکھا دیں تو ٹھیک ہے آپ آگے چلے جائیں مگر کچھ لوگ پرانے بس پاس بھی کمال مہارت سے استعمال کر لیتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک شخص کو ڈرائیور نے دو ماہ پرانے بس پاس کو استعمال کرتے ہوئے پکڑ لیا اور بس پاس اپنے قبضہ میں لے لیا۔ ایسے ہی کچھ سٹوڈنٹس بس پاس کو استعمال کرتے ہیں جبکہ وہ سٹوڈنٹ ہوتے ہی نہیں۔ اپنے کسی بھائی بہن یا رشتہ دار کا بس پاس بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ کئی لوگ زبردستی کرایہ دیئے بغیر بس میں سوار ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس رقم ہوتی ہی نہیں ایسے افراد میں زیادہ تر مقامی باشندے ہوتے ہیں جنہیں یہاں’’نے ٹیو‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس طرح کے واقعات میں بعض ڈرائیور حضرات بغیر کرائے کے بیٹھنے والوں سے الجھ جاتے ہیں تو بات بڑھ جاتی ہے۔ بس میں کرایہ دیئے بغیر بیٹھنے والے بعض افراد نے شراب پی رکھی ہو تو پھر ڈرائیور حضرات سخت مزاحمت جس میں غلیظ گالیاں اور ہاتھا پائی شامل ہو سکتی ہے ۔
ایسے واقعات کی تعداد بڑھنے سے گزشتہ کئی سال سے ڈرائیورز کی یونین بس کے اندر سکیورٹی گارڈ فراہم کرنے پر مسلسل بضد ہے مگر شہری حکومت کا کہنا تھا کہ بس سروس میں انہیں پہلے ہی اچھی خاصی رقم خزانے سے دینا پڑ رہی ہے ، سکیورٹی گارڈ کیلئے وہ رقم فراہم نہیں کر سکتے۔ اب شاید بس کے اندر سکیورٹی گارڈ کی تعینات پر بھی معاملات طے کئے گئے ہیں لیکن ڈرائیور سے بدتمیزی اور بغیر ٹکٹ سفر کرنے کے واقعات پر قابو پانے میں شاید خاطر خواہ کامیابی نہ ہو سکے۔
کینیڈا میں تمام شہروں میں بس سروس بنیادی طور پر کمیونٹی سروس اور منافع بخش کاروبار نہیں ہے۔ شہریوں کو سہولت کیلئے گورنمنٹ نئی بسوں کی خرید اور ڈرائیورز کی تنخواہوں کی مد میں خطیر رقم خرچ کرتی ہے۔ بس کے اندر سکیورٹی کیمرہ، ساؤنڈ ریکارڈنگ سسٹم کے علاوہ آن لائن مانیٹرنگ سسٹم بھی نصب ہوتا ہے، ایک ڈرائیور دوسری بس کو لکھ کر پیغام بھی دے سکتا ہے کہ میری بس میں سے ایک مسافر تمہارے ساتھ بیٹھنا چاہتا ہے ۔اس کے لیے انتظار کرنا اور دوسری بس کا ڈرائیور ایک منٹ کیلئے انتظار کرتا ہے۔
بس میں رش کے اوقات میں عجیب منظر ہوتا ہے۔ ڈرائیورز کو سواریوں سے کہنا پڑتا ہے کہ مہربانی کرکے پیچھے پیچھے چلے جائیں اور دوسروں کو بھی بیٹھنے کا موقع دیں۔ شروع میں ڈرائیور کے اردگرد بزرگ اور معذور افراد کے آنے پر انہیں سیٹ چھوڑنا ہوتی ہے۔
زیادہ تر بس سوار خواتین و حضرات اپنے آپ میں مگن بیٹھے یا کھڑے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر نے اپنے موبائل فون کے ہیڈ سیٹ کانوں میں لگا رکھے ہوتے ہیں۔ کوئی کتاب پڑھ رہا ہے یا پھر اخبار دیکھا جا رہا ہے۔ کم لوگ آپس میں بات کرتے ہوتے ہیں۔ ہیڈ سیٹ لگائے نوجوان زیادہ تر میوزک سن رہے ہیں تو وہ اس کی دھن پر جسم کو ہلکی حرکت دیتے ہیں اور یہ خیال نہیں کرتے کہ ان کی حرکت کو اور لوگ بھی دیکھ رہے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ نوجوان سن رہے ہوتے ہیں۔ اسی گیت کو اونچی آواز میں گنگنانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس بارے میں شکایت کا نوٹس لیتے ہوئے حال ہی میں مقامی سٹی کونسل ایک قانون پاس کرنے جا رہی ہے کہ پبلک بس کے اندر گنگنانے کا مطلب ہے کہ آپ نے قانون توڑا ہے اور اس پر 100ڈالر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ اب دیکھیں بس کے اندر سفر کرنے والے خاص طور پر نوجوان میوزک سنتے ہوئے اپنا منہ بندھ رکھ پائیں گے یا نہیں۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا؟
(بلاگر تجربہ کار صحافی ہیں ۔کینیڈا ہجرت سے پہلے وہ پاکستان کے ایک نمایاں میڈیا ہاؤس سے وابستہ تھے۔ان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ejazgillani@gmail.com)
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔