”بیالوجی کا پریکٹیکل ختم ہوا تو نگران نے تمام لڑکیوں کو بھیج کر مجھے روک لیا اور پھر۔۔۔“ بحریہ کالج اسلام آباد کی طالبات کے پریکٹیکل کے پیپر لینے والے نگران نے لڑکیوں کیساتھ کیا کچھ کیا؟ ہوشربا انکشاف نے والدین کی نیندیں اڑا دیں

”بیالوجی کا پریکٹیکل ختم ہوا تو نگران نے تمام لڑکیوں کو بھیج کر مجھے روک لیا ...
”بیالوجی کا پریکٹیکل ختم ہوا تو نگران نے تمام لڑکیوں کو بھیج کر مجھے روک لیا اور پھر۔۔۔“ بحریہ کالج اسلام آباد کی طالبات کے پریکٹیکل کے پیپر لینے والے نگران نے لڑکیوں کیساتھ کیا کچھ کیا؟ ہوشربا انکشاف نے والدین کی نیندیں اڑا دیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) خواتین کو جنسی طورپر ہراساں کرنے والے واقعات تو ہوتے ہی تھے لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسے درندے بھی پائے جاتے ہیں جو سکول و کالج میں اساتذہ کا روپ دھار کر گھس جاتے ہیں اور وہاں زیر تعلیم طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ بحریہ کالج اسلام آباد کی طالبات کیساتھ بھی پیش آیا جہاں پریکٹیکل لینے والا نگران لڑکیوں کیساتھ انتہائی شرمناک سلوک کرتا رہا اور پھر جب طالبات نے کالج انتظامیہ کو بتایا تو ایسا کام ہو گیا کہ والدین کی راتوں کی نیندیں ہی اڑ جائیں گی۔

یہ بھی پڑھیں۔۔۔بالی ووڈ کا سب سے ”شرمناک عشق“ منظرعام پر آ گیا، کرن جوہر کس معروف ڈیزائنر کیساتھ۔۔۔ شرمناک ترین انکشاف نے سب کو پریشان کر دیا 
ویب سائٹ ”پڑھ لو“ کے مطابق بحریہ کالج میں پڑھنے والی ایک طالبہ نے لکھا ہے کہ ” ہم بحریہ کالج اسلام آباد کی طالبات ہیں جو کہ وفاقی دارالحکومت کا ایک معتبر تعلیمی ادارہ ہے اور یہاں داخلہ لینا بہت مشکل ہے۔ مگر افسوس کہ یہ ادارہ ایسے ہی شہرت رکھتا ہے جیسے کہ کوئی برانڈ اور شائد یہی ان کیلئے اہم بھی ہے۔ کیا اس ادارے کی انتظامیہ، عملے کے اراکین، پرنسپل اور بورڈ ممبرز پر یہاں پڑھنے والی طالبات کی حفاظت کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟
حال ہی میں اس نام نہاد تعلیمی ادارے میں ہمارے ساتھ شرمناک واقعہ پیش آیا اور کسی نے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ ہم ایچ ایس سی پارٹ 2 میں بائیولوجی کے پریکٹیکل کر رہے تھے اور انتظامیہ نے اس کیلئے طالبات کے تین گروپ بنائے تھے۔ گروپ ون کے پریکٹیکل جمعہ کو ہوتے اور گروپ ٹو یعنی ہمارے گروپ کے پریکٹیکل ہفتے کو اور تیسرے گروپ کے اتوار کے روز ہوتے تھے۔


گروپ ون میں شامل طالبات نے ہمیں بتایا کہ نگران بہت سخت ہے جس نے اساتذہ کی ایک نہیں سنی، یہاں تک کہ انہیں لیبارٹری میں بھی نہیں آنے دیا جبکہ اس نے کئی لڑکیوں کی ٹانگوں، کولہوں اور حتیٰ کہ چھاتی پر ہاتھ لگا کر جنسی طور پر ہراساں کیا۔ ابتداءمیں تو مجھے یقین نہیں آیا۔ میں نے سوچا کہ لڑکیاں شائد افواہیں پھیلا رہی ہیں۔ میرا مطلب کہ بورڈ انتظامیہ کی جانب سے منظور شدہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نگران اتنی شہرت رکھنے والے یا کسی بھی ادارے کی طالبات کیساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟
اگلے روز، یعنی ہمارے پریکٹیکل کے دن، سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ اساتذہ کو لیبارٹری میں آنے کی اجازت تھی، لیکن ہمارا پریکٹیکل جو ساڑھے گیارہ بجے ختم ہونا تھا، وائیوا کی وجہ سے جاری رہا۔ اس نے ہمیں جانے نہیں دیا، وقت ساڑھے گیارہ بجے سے زیادہ ہو گیا تھا اور صرف تین لڑکیاں ہی کمرے میں رہ گئی تھیں، میری دوست، ایک ساتھی طالبہ اور میں۔ اس نے ہمیں بلاوجہ ہی لمبے لمبے سوال پوچھے۔
میں واحد لڑکی تھی جسے پڑھائی میں اتنی دلچسپی نہ تھی اس لئے میں جلد از جلد کمرے سے نکل جانا چاہتی تھی لیکن اس نے بالکل الٹ کام کیا۔ اب 12 بجے سے زیادہ وقت ہو گیا تھا اور اس نے میری دونوں ساتھی طلبہ کو جانے کا کہتے ہوئے مجھے روک لیا۔ میری دوست نے مجھے کہا کہ پرسکون ہو جاﺅ کیونکہ اسسٹنٹ یہیں پر ہے اور سب ٹھیک ہو گا لیکن میری دوست کے جانے کے بعد، اس نے اسسٹنٹ کو بھی جانے کا کہہ دیا۔


اس نے بڑے عجیب سے لہجے میں مجھے بتایا کہ وہ قریش کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے (نعوذ باللہ)، اور پھر میرے پیپر میں گرامر کی غلطیاں بتائیں، یعنی واقعی؟ یہ بائیولوجی کا پیپر تھا۔ اس کے بعد، اس نے مجھے کھڑا ہو کر گھومنے کو کہا، جب میں نے اس سے تھوڑا فاصلہ پیدا کیا تو وہ میرے پاس آ گیا اور مجھے عجیب سے انداز میں دھمکاتے ہوئے پٹھانوں کے بارے میں عجیب و غریب باتیں کرنے لگا، اور پھر میری کمر کو ہاتھ لگایا، ایک مرتبہ نہیں بلکہ تین، چار مرتبہ اور پھر میرے کولہے چھوئے اور پھر اچانک اسسٹنٹ کمرے میں آ گیا، وہ پیچھے ہٹا اور مجھے جانے کا کہہ دیا۔
میں ایک طویل وقت کیلئے یہ سوچ کر صدمے میں رہی کہ میرے ساتھ کیا ہوا۔ میری دوست نے مجھے یہ سب کچھ بائیولوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کو بتانے کا کہا لیکن وہ یہ بھی کہتی رہی کہ ”چپ ہو جائیں ابھی نمبر ہیں اس کے ہاتھ میں، چپ ہو جائیں۔۔۔“ یعنی واقعی؟ اس نے یہ بھی بتایا کہ نگران کے بارے میں یہاں کئی لڑکیاں شکایت کر رہی ہیں لیکن ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟ میری بہترین دوست تو ایسے روتی رہی جیسے یہ سب کچھ اس کے ساتھ ہوا ہے۔ اس نے فوراً سب کچھ اپنے والد کو بتایا جنہوں نے پرنسپل کو فون کیا لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔
جب ہم نے انتظامیہ کو بتایا، تو انہوں نے کہا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ وہ کسی بھی طرح کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھے لیکن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ایک اکیلی لڑکی کو نگران کیساتھ کمرے میں اکیلی کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ یہ سب کچھ یہیں ختم نہیں ہوا، آج جب تیسرا گروپ پریکٹیکل کیلئے آیا تو ایک طالبہ نے بتایا کہ نگران نے میری چھاتی پکڑتے ہوئے کہا کہ مجھے اس ”نمونے“ کے بارے میں بتاﺅ اور جب لڑکی نے کہا کہ تم یہ کیا کر رہے ہو تو اس نے کہا کہ ”بس۔۔۔ چپ ہو جاﺅ“


کیوں چپ ہو جائیں؟ کیا چپ ہونا ہی اس کا حل ہے؟ ہم کیوں خاموش رہیں؟ ہم نے پرنسپل کو فون کرنے کی کوشش کی مگر اس نے فون نہیں اٹھایا، ہم نے دیگر اساتذہ کو بھی بتایا مگر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ اگر ہم اس سطح پر بھی ہراساں ہو رہی ہیں تو پھر ہم بنیادی تعلیم کے حصول کیلئے کہاں جائیں؟ ہم عملی زندگی میں تحفظ کی توقع کیسے کر سکتی ہیں؟ ہم کام کی جگہ پر تحفظ کی امید کیسے رکھ سکتی ہیں؟ جہاں انصاف نہیں ملے گا وہاں اور کتنی زینب نکلیں گی؟ اور یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ ان جیسے درندوں کو بچوں اور بچیوں کیساتھ ایسا کرنے کیلئے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
اس واقعے کی سب سے بدترین بات یہ ہے کہ تمام لڑکیاں ہی خاموش ہو گئیں کیونکہ انہیں ڈرایا گیا اور کسی نے بھی ان کا ساتھ نہ دیا، حتیٰ کہ ان خواتین اساتذہ نے بھی، جو کبھی ہماری طرح لڑکیاں تھیں۔ یہ بہت شرم کی بات ہے کہ ان درندوں کو روکنے والا یہاں کوئی نہیں ہے۔ ہم اپنے بچوں کے تحفظ کا توقع کیسے کر سکتے ہیں؟ اس کا واحد حل خود کیلئے کھڑے ہونا ہے کیونکہ یہ صرف ہماری بات نہیں، یہ ان سب معصوم ذہنوں کیلئے ہے جن کی معصومیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ یہ ہمارے ملک کیلئے ہے کیونکہ ہم اپنی آواز بلند نہیں کریں گے تو کوئی بھی آپ کی آنے والی نسل کیلئے کھڑا نہیں ہو گا۔