ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کا ایجنڈا کیا ہے؟

ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کا ایجنڈا کیا ہے؟
ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کا ایجنڈا کیا ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میران شاہ میں فوجی چوکی پر حملے کے بعد سب سے بہترین ردعمل شہباز شریف نے ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا اس واقعہ سے سیاسی فائدہ اٹھانا بدترین عمل ہوگا۔ یہ بڑی دور اندیشی کی بات ہے۔ بد قسمتی سے بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز نے خواہ مخواہ ایک متنازعہ بات کی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بلا تحقیق الزام بھی لگا رہے ہیں اور پی ٹی ایم کے پلڑے میں اپنا وزن بھی ڈال رہے ہیں۔ جہاں خون بہے اس کی تحقیق ہونی چاہئے ،لیکن تحقیق سے پہلے کسی کو واقعہ سے بری الذمہ یا ذمے دار قرار دینا بھی مناسب نہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کا یہ کہنا کہ علی وزیر چوکی پر حملہ کر ہی نہیں سکتا، بھولپن کی انتہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہے جس میں علی وزیر کو خود اس کے ساتھی فوجیوں کی طرف بڑھنے سے روک رہے ہیں، مگر وہ پورا زور لگا رہے ہیں کہ آگے بڑھ کر سیکیورٹی عملے سے دست و گریبان ہو جائیں۔ ظاہر ہے ان کی ان کوششوں کو دیکھ کر وہاں موجود نوجوان مشتعل ہو گئے اور انہوں نے چوکی اکھاڑ پھینکی اور اس کا فرنیچر تک نکال کے لئے گئے۔ اس کے بعد یقیناً بات آگے بڑھی ہو گی اور معاملہ فائرنگ تک چلا گیا، جس سے جانی نقصان بھی ہوا اور فوجی زخمی بھی ہو گئے۔

اب اتنے واضح واقعہ کے بعد بلاول بھٹو زرداری کا یکطرفہ بیان جاری کرنا یا مریم نواز کا یکطرفہ مو¿قف دینا سمجھ سے بالا تر ہے۔ پھر آئی ایس پی آر فوج کا معتبر ادارہ ہے اس کی ہر خبر مستند اور حقائق پر مبنی ہوتی ہے۔ اس نے اس واقعہ کے بارے میں جو تفصیلات جاری کیں ان سے صاف لگتا ہے کہ مظاہرین کو وہاں ایک خاص مقصد کے لئے منصوبہ بندی سے لایا گیا تھا۔ مقصد ایک پُر تشدد احتجاج کرنا تھا تاکہ اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکے۔


شہر ہوں یا دیہات، زمین ہو یا پہاڑ، کہیں نہ کہیں تو ایسی حد آ جاتی ہے جہاں سیکیورٹی فورسز نے احتجاج کرنے والوں کو روکنا ہوتا ہے۔ مادر پدر آزادی تو کہیں بھی نہیں ملتی، اس لئے یہ کہنا کہ احتجاج کرنا حق ہے اور پی ٹی ایم کے کارکنوں کو چوکی پر کیوں روکا گیا، ایک فضول سی بات ہے۔ جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے روکتے ہیں، سیاسی لوگوں کا وطیرہ یہی ہوتا ہے کہ وہ وہاں رک جاتے ہیں، وہیں دھرنا دیتے ہیں یا احتجاج ریکارڈ کروا کر چلے جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ حملہ آور ہو جائیں اور چوکی تک توڑ پھوڑ ڈالیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ علی وزیر اور محسن داوڑ دونوں قومی اسمبلی کے رکن ہیں، گویا ان کے پاس ایک مضبوط آئینی فورم ہے، جس سے وہ بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی آواز ہر جگہ پہنچا سکتے ہیں۔

اس فورم کو استعمال کرنے کی بجائے ان کا نوجوانوں کو اکسانا، فوج کے خلاف ان کے ذہن بھرنا اور قومی سلامتی کو للکارنا، اس بات کی گواہی ہے کہ ان کا ایجنڈا کچھ اور ہے، وہ کسی کے اشارے پر ایسا کر رہے ہیں اور ان کا مقصد انتشار پھیلانا ہے، اپنے مطالبات منوانا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فاٹا کے انضمام میں جو انتظامی، معاشی اور سماجی کمیاں اور کوتاہیاں پیدا ہوئی ہیں، انہیں سبھی تسلیم کرتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور قومی اسمبلی و سینٹ اس امر پر متفق ہیں کہ فاٹا میں بہت کچھ ہونے والا ہے اور تیزی سے کام ہونے چاہئیں۔

کام ہو بھی رہے ہیں اور وزیر اعظم نے اپنے حالیہ دورئہ شمالی وزیرستان میں کہا بھی ہے کہ فاٹا کے لوگوں کو ہر سہولت فراہم کی جائے گی اور اس کے لئے اربوں روپے خرچ کئے جائیں گے۔ فاٹا میں جلد انتخابات بھی ہوں گے اور اس علاقے کو قومی اسمبلی میں زیادہ نشستوں کے ساتھ نمائندگی حاصل ہو سکے گی۔ یہ سب مثبت پہلو ہیں ،لیکن پی ٹی ایم کا ایجنڈا کچھ اور ہے۔

مثلاً منظور پشتین نے انتخابات میں پی ٹی ایم کے حصہ لینے کی ممانعمت کر دی ہے، جبکہ علی وزیر اور محسن داوڑ یہ چاہتے ہیں کہ انتخابات سے پہلے اتنا شور شرابہ کیا جائے کہ یہاں کے عوام انہیں بطور حمایت ووٹ دینے پر مجبور ہو جائیں، اس لئے وہ انتہا پسندی کو بڑھانا چاہتے ہیں ،انہیں علم ہے کہ فاٹا کے نسبتاً کم تعلیم یافتہ نوجوان اس قسم کی صورت حال سے جلد متاثر ہو جائیں گے اور ان کے سوا کسی اور طرف نہیں دیکھیں گے۔


معصوم ذہن کے نوجوانوں کو ورغلانے کے لئے فوج کے خلاف جذبات اُبھارے جاتے ہیں۔ انہیں احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ غلام ہیں، انہیں آزادی کے لئے اٹھ کھڑے ہونا چاہئے۔ اصل میں یہ ایجنڈا افغانستان اور بھارت میں بیٹھے ہوئے پاکستان دشمنوں کا ہے جو آزاد پشتون کا جھانسہ دے کر پی ٹی ایم کو آگے لائے، فنڈنگ کی، جہاں ضرورت پڑی دہشت گردی کروائی یا سیکیورٹی فورسز پر حملے کرا دیئے، اس کا اندازہ اس امر سے بھی کیجئے کہ جب میران شاہ چوکی پر حملے کا واقعہ پیش آیا، تو اس کے حوالے سے افغان میڈیا نے پرانی تصویروں کے ساتھ سوشل میڈیا پر مہم شروع کر دی، جب الیکٹرانک میڈیا کے مختلف چینلوں نے ان ویڈیوز اور تصاویر کو پرانی ثابت کر دیا تو اسی افغان میڈیا گروپ نے معذرت کر لی۔ افسوس ہمارے بعض سیاست دان اس صورت حال کو خواہ مخواہ انسانی حقوق یا سیاست سے جوڑ رہے ہیں۔

سادہ سی بات یہ ہے کہ طالبان کے بعد اب انتشار پھیلانے والوں نے پی ٹی ایم کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ ان کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ نوجوانوں میں علیحدگی پسندی کو ہوا دی جائے۔ اس کے لئے وہ فوج کے خلاف نفرت کا بیانیہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ پشتون نوجوانوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ پاک فوج ان کے علاقے پر قابض ہے، اس نے جگہ جگہ چوکیاں قائم کر لی ہیں، اس سے نجات کے لئے مسلح اور سیاسی جدوجہد ضروری ہے۔

معصوم اور جذباتی نوجوان ان کے پروپیگنڈے میں آ جاتے ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں اور جنہیں اپنے عہد کا شعور ہے، وہ ان کے جھانسے میں نہیں آتے۔ ایسے نوجوان اکثریت میں ہیں، وہ جانتے ہیں کہ فاٹا ایک نو گو ایریا تھا، جہاں دہشت گردوں نے ڈیرے جما رکھے تھے۔ روزانہ ان کے ہاتھوں نوجوان زندگی گنوا بیٹھتے تھے۔ پاکستان کا نام لینے والوں کے سر کاٹ کر فٹ بال کی طرح کھیلتے تھے۔ پھر فوج نے پے در پے آپریشن شروع کئے جس کے لئے مقامی آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل بھی کرنا پڑا۔ پاک فوج کی پیشہ ورانہ مہارت سے سب آپریشن کامیاب ہوئے، دنیا حیران رہ گئی کہ جو کام امریکی اور نیٹو فورسز نہ کر سکیں وہ پاک آرمی نے کیسے کیا۔


آپریشنوں کے بعد مہاجرین کی واپسی کا عمل شروع ہوا۔ ظاہر ہے وہاں انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا تھا۔ تعلیمی ادارے تو طالبان نے پہلے ہی تباہ کر دیئے تھے۔ روز گار کے مواقع بھی پیدا نہیں کئے جا سکے۔ فاٹا ایک ایسی ہی جگہ ہے،جو جنگ سے تباہ حال ہوئی ہے، تاہم یہ علاقہ حکومت اور فوج کی ترجیح میں شامل ہے۔ وزیر اعظم فاٹا کے لئے ایک بڑے پیکیج کا اعلان کر چکے ہیں۔ آئندہ بجٹ میں بھی فاٹا کی ترقی کے لئے خاطر خواہ فنڈز رکھے جائیں گے۔ فاٹا کے لئے صوبوں کے بجٹ سے بھی کٹوتی کی جائے گی۔

یہ سب باتیں اس خطے کے ایک روشن مستقبل کا پتہ دیتی ہیں اور پی ٹی ایم کو یہی اصل دکھ ہے کہ فاٹا میں ترقی کے ثمرات آ گئے تو ان کی اور ان کے آقاﺅں کی دکانداری بند ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حالات کو بغاوت کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ فوج کے ساتھ لڑنا چاہتے ہیں تاکہ دنیا کو یہ تاثر دے سکیں کہ پشتون آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں اور فوج اس جدوجہد کو طاقت کے بل بوتے پر دبا رہی ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پشتونوں کی اکثریت پاکستان اور پاک آرمی پر جان چھڑکتی ہے۔

خاص طور پر جب سے فوجی آپریشنوں کے بعد فاٹا میں امن آیا ہے، لوگ اسے فوج کی قربانیوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ اب چاہئے تو یہ کہ سیاسی جماعتیں پی ٹی ایم کے رہنماﺅں پر دباﺅ ڈالیں کہ وہ قومی دھارے میں شامل ہوں، فوج سے ٹکراﺅ اور اس کے خلاف نعرے بازی کا معاندانہ سلسلہ ختم کریں، مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس پر سیاست کی جا رہی ہے۔ محسن داوڑ اور علی وزیر قومی اسمبلی میں کوئی بل لاتے ہیں اور نہ خطاب کرتے ہوئے اپنے مطالبات پیش کرتے ہیں۔

ان کا اول و آخر مقصد صرف فوج اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا ہے اور اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ انہوں نے براہ راست ریاست کی رٹ کو چیلنج کر دیا ہے۔ محسن داوڑ اور علی وزیر بلاول بھٹو زرداری کی افطار پارٹی میں شریک ہوئے، جہاں مریم نواز بھی موجود تھیں۔ کیا یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے نئے وارث پی ٹی ایم کو قومی دھارے میں آنے کی دعوت نہیں دے سکتے؟ کیا مسلم لیگ (ن) یا پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے کبھی فوجی چوکی پر حملہ کیا ہے؟ ظاہر ہے نہیں، تو پھر یہ ایسی سوچ کی حمایت کیوں کر رہی ہیں، جو ریاست سے ٹکرانے کی بنیاد پر رکھی گئی ہے۔ اس سوال پر مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کو غور ضرور کرنا چاہئے۔

مزید :

رائے -کالم -