ٹول ٹیکس کی آمدن اور کرپشن
بیلجیم میں مقیم میرے ایک دوست قمر زمان جو کافی سالوں بعد پاکستان لوٹے اور جب انہوں نے اسلام آباد سے گھر تک کا سفر کیاتو سفر کے دوران ان کو ارد گرد کی ہر عمارت بوسیدہ ؛ لوگوں کے چہروں پر افسردگی کے آثار اور سفر کے دوران اکٽر مقامات پرٹوٹی سڑکوں پر جھٹکے لگنے سے پریشانی اور خوف میں مبتلا اور رات کو بسلسلہ دھند 5 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی کا اپنے آبائی گاؤںکیطرف بڑھنے کی وجہ سے کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئے اور اپنے ساتھ سفر کرنے والے میزبانوں سے کچھ سوالات کئے اور پھر انکی سوچ جب الفاظِ بیان بن کر ابھری تو اس نے تحریر کا روپ احتیار کیا جو کہ مندرجہ ذیل ہے ۔
لاہور سے اسلام آباد کا فاصلہ (بذریعہ جی ٹی روڈ) تقریبا 300 کلومیٹر ہے۔ جی ٹی روڈ کی اس 300 کلومیٹر لمبی دوہری سڑک پر کل 6 (چھ) ٹال پلازے ہیں۔ اگر آپ ان میں سے کسی ایک ٹال پلازے پر کھڑے ہو جائیں اور صرف ایک منٹ میں گزرنے والی گاڑیوں کی گنتی کریں تو آپ جان جائیں گے کہ ایک طرف کی سڑک پر ایک منٹ میں تقریبا 20 سے 30 گاڑیاں گزر رہی ہیں۔ مطلب دونوں طرف (آنے اور جانے والی) گاڑیوں کا حساب لگایا جائے تو ایک منٹ میں لگ بھگ 50 تک گاڑیاں گزرتی ہیں۔ ٹال ٹیکس کم ازکم 30 روپے ہے جبکہ ویگن 45، بس 75 اور ٹرک سے 175 روپے وصول کئیے جاتے ہیں۔ اب ذرا حساب لگاتے ہیں کہ یہ چھ ٹال پلازے روزانہ کتنا ٹیکس اکٹھا کرتے ہیں۔
ایک منٹ میں اگر دونوں اطراف 50 گاڑیاں گزریں اور ہر گاڑی 50 روپے بھی دے تو 24 گھنٹوں کا ٹیکس 36 لاکھ روپے بنتے ہیں.
اب چونکہ چھ پلازے ہیں لہذا ایک دن میں یہ رقم 2 کروڑ16 لاکھ روپے بن جاتی ہے۔ مطلب صرف ایک مہینے کی کل آمدنی 64 کروڑ80 لاکھ روپے بنتی ہے۔ کیا انتا پیسہ ایک مہینے میں سڑک کی مرمت اور دیکھ بھال پر خرچ ہو جاتا ہے؟؟ اگر آپ جی ٹی روڈ پر سفرکریں تو کتنی جگہیں ایسی آتی ہیں جہاں مرمت کا کام شروع ہوتا ہے؟ کیا روزانہ 64 کروڑ خرچ کر دیئیے جاتے ہیں؟۔
اگر پوری سڑک پر لاہور سے لے کر اسلام آباد تک شمسی توانائی سے چلنے والی روشنیاں لگائی جایں تو کتنا خرچہ آئے گا؟ مثلا اگر ہر40 میٹر بعد ایک روشنی لگائی جائے تو 300 کلومیٹر کے لیے کل 7500 روشنیاں لگانی ہوں گی۔ اب اگر ایک روشنی کا خرچ اندازًا40ہزار روپیہ فرض کر لیا جائے تو 7500 سو روشنیوں کا خرچ 30 کروڑ بنتا ہے جو کہ صرف 15 دن کے ٹال ٹیکس سے پورا ہو سکتاہے۔
اور اگر 100 کلومیٹر سڑک کا اوسطً ہر سال تعمیرِ نو کے منصوبہ کے تحت دوبارہ سے تعمیر کرنے کا ارادہ کر لیا جائے تو 100 کو 20 لاکھفی کلومیٹر سے ضرب دے دیا جائے تو 2 ارب بنتا ہے مطلب کہ دیگر متعلقہ محکموں کے لوازمات کے ساتھ ساتھ ٹول پلازہ پر کامکرنے والوں کی تنخوائیں بھی ڈال لی جائیں تو بھی 3 ارب بنتے ہیں مگر سالانہ آمدنی 8 ارب کے لگ بھگ ہوتی ہے اور 5 ارب پھربھی بچ جاتے ہیں مگر ایسا ترقیاتی کام کبھی نہیں ہوا اور ہر سال سارے اخراجات جو 300 کلومیٹر سڑک پر صرف ہو رہے ہیں اس کاتخمینہ 3 ارب سے زیادہ نہیں ہو گا اور 5 ارب روپے جو ہر سال صرف 300 کلومیٹر سڑے سے بچائے جاتے ہیں اس میں سے 1 ارب ہی شائد حکومتی خزانے میں جاتے ہوں گے باقی 4 ارب مقدس مقامات میں بیٹھے ہوئے عوامی ملازمین اور ان کے ایلچیوں کی نذر ہوتے ہیں ۔اگر یہ بچ جانے والے 4 ارب روپے بھی لگا دئیے جائیں تو یہ ایک سال کی ٹول ٹیکس کی آمدنی سے یہ 300 کلومیٹرسڑک کو شاہراہِ بالائی پنجاب کا درجہ دیا جا سکتا ہے اور اگر پورے پاکستان کی سڑکوں کے بقایا جات کا اندازہ لگایا جائے تو کھربوںروپے بنتے ہیں جو اسی مقدس عمارت کے ملازمین اور انکے کارندوں میں ہی بانٹے جاتے ہیں عوام روٹیوں سے بھرے اس چنگیرسے ترقیاتی فنڈ کی مد پھینکی گئی ایک روٹی دیکھ کر ہی مطمئن ہو جاتی ہیں اور جبکہ ان عوامی ملازمین کے ڈکار بھی خاموشی ہی احتیارکرتے ہیں مگر جب سی پیک جو چائنہ نے پاک فوج کے تعاون سے پاکستانی حکومتی مشینری کو لالچ دے کر دستحط کروائے تو اونچی آواز میں چیخنا شروع کر دیا کہ گوادر ہماری محنت ہے اور اگر سوچا جائے تو ان تمام عوامی ملازمین کا کافی اہم کردار بھی موضوعِبحٽ لایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس منصوبے کی اطلاع ملتے ہی گوادر کے علاقہ سے کوڑی کے بھاؤ زمینیں خرید کر کروڑوں کےبھاؤ بیچ دیں ۔ مگر کبھی کسی نے قمر زمان صاحب کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہیں کی ۔ اور افسوس اس پاکستانی عوامپر بھی ہے جو چودہ اگست کو سبز جھنڈیاں لہرا کر اپنے محبِ وطن ہونے کا ثبوت دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر اصل میں ہم ابھیبھی غلام ہی ہیں اور اپنے حقوق اور وسائل کے بارے میں ناکافی معلومات کی وجہ سے ادنٰی ؛ درمیانے اور اعلٰی درجے کے غلاموں کی قطار میں کھڑے ہیں۔ اور اپنے والدین اور اولاد سے زیادہ ان سرکاری نوکروں کے گیت گانے اور انہی عوامی ملازمین کی خاطر اپنے خاندان کی جان ومال کا نذرانہ دینے کو بھی تیار ہیں نا کہ پاکستان کی سرزمین کے لئے جو ایک آزاد سوچ کے لئے معرض وجود میں آئی تھی اور جو پاکستان کی سرزمین کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ان کو گالیاں دینے کی ذمہ داری انہی ملازمینِ اعلٰی کوسونپ دی گئی ہے جو خود کو پاکستان کا بادشاہ تصور کرتے ہیں اور عوام کو اپنے پالتو غلام اور یہ غلام انہی تصوراتی بادشاہوں کیایک آواز پر لبیک کا نعرہ لگا کر ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں.
میرے مطابق اگر قمر زمان جیسی سوچ رکھنے والے 300 افراد بھی عوامی نمائندوں کے طور پر منتحب ہو کر ایک عام سی عمارت میں بیٹھ کر اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش شروع کر دیں تو دور نہیں کہ صرف 5 سال کے عرصہ میں ہی ہم ایک مہذب ؛باشعور اقوام اور ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے اور پاکستان کا وزیرِ اعظم بھی دوران وزارت خود کو عوامینوکر ہی تصور کرے گا جو پہلے بھی 5 سالہ مدتِ ملازمت کے لئے منتخب کیا جاتا ہے اور یہ عوامی ملازم اپنی کسی غلطی ؛ کوتاہی یالاپرواہی کی صورت میں معطل یا برخاست ہو جانے کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرنے کا پابند ہو گا ۔مگر ایسا نظام اس وقت تک متوقع نہیں جب تک ہم اپنی موجودہ غلامانہ سوچ سے آزاد نہیں ہوتے.
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔