معاشی استحکام کے لئے سیاسی استحکام ضروری؟
یہ فقرہ زبان زدعام ہے ”معاشی استحکام سیاسی استحکام“ سے جڑا ہوا ہے،حزبِ اقتدار ہو یا حزبِ اختلاف، حکومتی اراکین، معاونین و مشیر ہوں یا اپوزیشن کے دانشور یا پھر ہمارے ماہرین معیشت، سب یہی کہتے ہیں کہ معیشت کی بحالی، بہتری اور ترقی کے لئے ملک میں عدم استحکام ختم کرنا ہو گا، لیکن عملی کیفیت یہ ہے کہ یہاں استحکام کی بجائے عدم استحکام کا کام ہوتا ہے۔محاذ آرائی کی صورتِ حال ایسی بن چکی ہے کہ برداشت کا مادہ ختم ہو گیا۔ جمہوریت کا ذکر کیا جاتا ہے اور جمہوریت ہی کے نام پر لڑائی جاری رہتی ہے۔حکومت اور اپوزیشن تو رہیں اپنی جگہ،یہ استحکام اب سیاسی جماعتوں کے اندر بھی نہیں پایا جاتا، سماجی اور سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ جب سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں ہو گی تو ملک میں جمہوری نظام کیسے پھلے پھولے گا،اب حالات یہ ہیں کہ ملک کی کوئی بھی سیاسی جماعت نظم و ضبط کی پابند نہیں رہتی۔اول تو جماعتوں میں خود جمہوریت نہیں، ان میں بھی ٹانگ کھینچ ماحول رہتا ہے،الیکشن قواعد کی رو سے سیاسی جماعتوں کے جماعتی انتخابات لازم ہیں۔
عوام جانتے ہیں کہ اس ضابطے پر کیسے عمل ہوتا ہے، یہاں تو آمریت کی برائی کرنے اور موروثی سیاست کی مذمت کرنے والے خود ایسی پوزیشن اختیار کر لیتے ہیں کہ ان کی حیثیت و اہمیت موروثیت اور آمریت کی حدوں سے بھی باہر نکلنے لگتی ہے۔ہمارا ریکارڈ15ویں آئینی ترمیم کے مسودے اور اس بات سے ظاہر ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد کی کہی بات ٹالی نہیں جا سکتی۔ یہ سب ذہن کی عکاسی ہے ہم نے اپنی ستاون اٹھاون سالہ صحافتی زندگی میں آج تک کوئی ایسا رہنما نہیں دیکھا جو مثالی ہو اور تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ آخری حد تک رکھے،ہم کئی ایسے اکابرین کا ذکر کر سکتے ہیں،جو تحمل سے سنتے اور مشاورت پر یقین رکھتے تھے، لیکن ایک حد کے بعد ان کا حوصلہ بھی جواب دے جاتا تھا، پھر ہمارا کلچر یہ ہے کہ ہم خود خوشامد پسند ہیں اور جو ایسا کرے اسے ہی پسند کرتے ہیں۔ بات کہیں سے کہیں چلی گئی یہ سب دِل کی بھڑاس وہ ہے،جو سب کے اندر ہے، ہم نے جگالی کر دی ہے۔
بات استحکام سے شروع کی تھی، آج ہمارے خطے، ملک کے اردگرد اور دُنیا کے جو حالات ہیں ان کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مکمل اتفاق رائے ہو، یہ درست کہ مثالی ممکن نہیں، لیکن قومی امور اور مسائل پر تو ہو سکتا ہے اور پھر میٹھے بول سے کسی کا کیا بگڑ جاتا ہے،ہم نے ایک سے زیادہ بار عرض کیا کہ قانون کی حکمرانی کا نام ہی نہ لیں،اس پر عمل کی راہ بھی اپنائیں، اس سے مراد یہ کہ قانون کی حکمرانی کو تسلیم بھی کریں۔ یہ نہیں کہ مزاجِ یار پر گراں گذرے تو ناکامی کے بعد بھی کامیابی تلاش کرنے کی راہیں اختیار کی جائیں اور ”تیلی رے تیلی تیرے سر پر کوہلو“ والے محاورے پر عمل کیا جائے۔اصل بات تو یہ ہے کہ آپ کے کلام اورعمل میں تضاد نہیں ہونا چاہئے۔ہمارے معاشرے کا آج المیہ ہی یہ ہے کہ ہم کہتے اور کرتے کچھ ہیں، آج اگر ملک کے سیاسی حالات کا سرسری جائزہ لیا جائے تو عدم برداشت کا عالم ہے، آئین و قانون ہوتے ہوئے ذاتی انا کے لئے سب کچھ کیا جاتا ہے جہاں تک ایک بڑے عمل احتساب اور کرپشن کا تعلق ہے تو یہ آج کا المیہ نہیں، شاید قیام پاکستان ہی سے ہمارے نصیبوں میں لکھ دیا گیا تھا،آج عالم یہ ہے کہ تھانہ کچہری اور پٹواری عوام پر عذاب کی طرح مسلط،عوام حقیقی انصاف کے لئے دربدر پھرتے ہیں۔ کہیں سے نہیں ملتا،جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے اور یہ لاٹھی اقتدار کی ہو، تعلقات کی یا پھر دولت کی، اس کے باعث معاشرہ خوار ہے۔
ہمارا تعلق، پیدائش اور پرورش اکبری منڈی کی ہے،جو دہلی دروازہ اور موچی دروازہ کا درمیانی حصہ ہے۔یوں ہم دینی اور سیاسی تحریکوں سے جڑے لوگ ہیں، تاریخ، قیام پاکستان سے واقف اور یہ بھی جانتے ہیں، ہمارے پیدائشی علاقے اور شہر میں روساء خال خال تھے۔مجموعی طور پر لوئر مڈل کلاس کے لوگ رہتے بستے تھے۔ہم نے جو زمانہ دیکھا وہ خلوص کا تھا۔کم آمدنی کے باوجود تنگی نہیں تھی،اشیاء بھی خالص تھیں۔آئل اور وناسپتی کی بجائے ہماری پرورش دیسی گھی سے ہوئی اور ہم نے دودھ بھی خالص پیا،جو آج کی نسل کو نصیب نہیں۔ یہ کیا معاشرہ ہے جس میں ادویات میں ملاوٹ ہوتی ہے، دین اور مذہب کے نام پر قتل و غارت گری ہو جاتی ہے اور حج کرنے،ماتھے پر محراب اور ہاتھ میں تسبیح لے کر ملاوٹ کی جاتی ہے۔یہ ہمارا المیہ ہی نہیں، حشر کے میدان کا سامان ہے۔ہم دین کا نام لیتے اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، پھر ذہنی رو بھٹک گئی، شاید وجہ یہ ہے کہ جو بات کہنا چاہ رہے ہیں وہ بہت سے ماتھوں پر شکن بھی ڈال سکتی ہے۔ بہرحال بات شروع تو کر ہی لیتے ہیں۔
گزارش یہ کی تھی کہ خطے،اردگرد اور گلوبل حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارے اپنے ملک کے اندر مکمل استحکام ہو،برداشت کا مادہ ہو، جو اپنے لئے چاہیں، وہ دوسروں کے لئے ناپسند نہ کریں، جمہوریت کا نام لیتے ہیں تو جمہوریت کو چلنے بھی دیں،اس کے لئے لازم ہے کہ پارلیمینٹ(دونوں ایوان) اعتدال کا راستہ اختیار کریں،تحمل سے عوامی اور ملکی مسائل پر بات ہو اور ملک و عوام ہی کے مفاد میں فیصلے ہوں۔ محاذ آرائی چھوڑیں،برداشت کا مادہ پیدا کریں، احتساب اور جزا و سزا اداروں اور عدالتوں پر چھوڑ دیں، نچلی سطح پر اداروں کو درست کریں۔ یہ نہیں کہ جس کو بلدیاتی ادارے اپنی راہ میں رکاوٹ محسوس ہوں وہ ان کو قائم ہی نہ کریں۔
آخری بات یہ کہ یہ سب اس لئے عرض کیا کہ ہمارے پہلو میں افغانستان کا مسئلہ نیا رخ اختیار کر رہا ہے،ہم اس سے براہِ راست متاثر ہونے والوں میں ہیں۔عالمگیر سطح پر دُنیا مختلف کیمپوں میں بٹ چکی ہے، ہم دوراہے نہیں، سہ راہے پر ہیں، یہاں مکمل اتفاق اور اتحاد اور استحکام کی ضرورت ہے۔ یہ خود سیاسی جماعتوں کے اندر اور ریاست میں بھی لازم ہے۔ استحصالی نظام کو بھی بتدریج ختم کرنا ہو گا۔ اعتدال کا معاشرہ قائم کرنا ہو گا، اس کے لئے خود سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر بھی ایسا ہی کلچر اپنانا ہو گا،اللہ سے دُعا ہے کہ مستقبل بخیر کرے، معذرت کہ ہم آج بھٹکے ہوئے ہیں۔وجہ یہ بھی کہ یہاں ثبات اک تغیر کو ہے،ہر پل حالات بدلتے رہتے ہیں۔