تعصّب ایک بیماری ہے
مختلف پبلشر زکی طرف سے، اُن کے ہاں مطبوعہ کُتب کے اشتہارات، دیگر سماجی رابطوں کے ذرائع کے علاوہ فیس بک پر بھی رُونُما ہوتے رہتے ہیں۔ان اشتہارات کو دیکھنے یا پڑھنے والوں میں سے بعض احباب کتاب اور مصنّف سے متعلق اپنی آرا دیتے رہتے ہیں۔چند روز قبل دو پبلشر زکی جانب سے ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کی تفسیر ”بیان القرآن“ اور مولانا وحید الدّین خان مرحوم کی چند کتب کے اشتہارات دیکھنے اور سننے کا اتّفاق ہوا۔ جہاں قارئین اور ناظرین نے ان کُتب کے علمی احاطہ،مصنّفین کے ذوقِ تحریر اور علمی دسترس پر حروفِ ستائش کہے،وہاں چند آراء ایسی بھی ملیں جنہیں پڑھ کر دکھ ہوا۔مشتہر کتابوں کی افادیّت اور مصنّفین کے ایمان پر سوالات اٹھائے گئے تھے، جن کے پیچھے بلاشبہ فرقہ پسندی کا عنصر واضح جھلکتا تھا۔راقم نے کچھ مخصوص الزامات کا حوالہ طلب کیا تو کوئی جواب نہ آیا۔
جہاں طبعی و ذہنی امراض کی تعدادِ بسیار دریافت ہو چکی ہے، وہاں بے شمار روحانی اور جذباتی بیماریاں بھی دریافت ہوئی ہیں۔تاہم ان بیماریوں کو ذہنی امراض کے احاطہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان امراض میں سے ”تعصّب“ ایک جذباتی ذہنی بیماری ہے جو مریض کے سوچنے،سمجھنے کی صلاحیّت اور سمت کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے اور اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیّت اورسمت کو بھی متاثر کرتی ہے۔”تعصّب“ جسے عصبیّت بھی کہا جاتا ہے،انسان کو غلط اور صحیح کی تمیز اور اس کے انکار اور اقرار تک رسائی سے دور رکھتا ہے۔کیوں کہ یہ ہمیشہ شخص یا اشخاص کے مادی مقاصد،مذہبی،سیاسی،معاشی،معاشرتی یادیگر مفادات کا امین ہوتا ہے۔اس کا دائرہِ کارانفرادی حیثیّت سے نکل کر عالمی سطح تک بکھرا پڑا ہے۔عالمی سطح پر اس کی جھلک،ماضی قریب میں برما میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے، جہاں بلااشتعال معصوم بچوں اور خواتین سمیت ان گنت مسلمانوں کوتہِ تیغ کیا گیا۔ کتنوں کو آگ کے دہکتے الاؤ میں بے دردی سے دھکیل دیاگیا۔
چیختے چِلّاتے معصوم بچوں، عورتوں، بوڑھوں اورجوانوں کو کشتیوں میں بٹھا کرسمندرکی بے رحم لہروں کے سپرد کر دیا گیا۔ اس عمل میں برما کے شہری اور فوج باہم مل کر مسلمانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتی رہی۔ترقی یافتہ دنیا میں سے کوئی بھی آگے نہ بڑھا،سب کی آنکھوں پر ”تعصّب“کی پٹی یکساں بندھی رہی۔ اُدھر فلسطین میں،ننّھے بچوں اور بچیوں کو رسیوں سے باندھ کر،خواتین اور مردوں کو اغوا کر کے،ہسپتالوں اور آبادیوں پربم برساکر جس طرح ظلم ڈھایا گیا،یہ سب ”تعصّب“کی کارستانی ہے،اور اسی طرح کی کیفیّت سے بھارتیوں کے ہاتھوں آج کشمیری بھی دو چار ہیں۔اس کے برعکس کسی مسلم آبادی میں اگر کسی غیر مذہب شخص کو کانٹا بھی چُبھے توچُبھن کے باعث اُس کے منہ سے نکلنے والی”سی“ آن کی آن میں عالمی ”آہ و بقاء“ میں ڈھل جاتی ہے۔سربراہی اجلاس طلب کر لیے جاتے ہیں۔کانٹا پھینکنے والے شخص کی تلاش اور اسے کیفرِکردار تک پہنچانے کا عزمِ صمیم کیا جاتاہے اور عدم دستیابی کی صورت میں متعلقہ آبادی کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔گویا،داد رسی اور انصاف انسانیّت کی بنیاد پر نہیں بلکہ عصبیّت کی بنیاد پر دستیاب ہے۔
اسلام واحد دین ہے جو تعصّب کی بیخ کُنی کرتا ہے۔قرآن حکیم واضح طور پر حکم دیتا ہے کہ قبائل شناخت کیلئے ہیں نہ کہ نسلی امتیاز کیلئے۔ حدیث بتاتی ہے کہ گورے کو کالے پر،عربی کو عجمی پریامالک کو غلام پر قطعاً فوقیّت حاصل نہیں سوائے تقویٰ کے۔لیکن جب ہم اسلام کی مذہبی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو تعصّب کی بیخ کُنی کے ذمّہ دار ”عصبیّت“کے پے درپے مبلّغین کے طور پر منصہ شہودپر رُونُما ہوتے دِکھائی دیتے ہیں۔یہ تعصّبات مذہبی فرقوں اور مذہبی رہنماؤں کے فروعی اختلافات کے گردگھومتے ہیں۔فریقِ مخالف کامذہبی رہنما خواہ کتنا ہی بڑا عالم یا مفکّر کیوں نہ ہو، اُس کا اعتراف کرنا اپنے مذہبی رہنماؤں اور فرقے کی توہین کے مترادف سمجھا جاتاہے۔منبرسے نَشر ہونے والی تقریر کا موضوع بظاہر توحیدیا عظمتِ رسولؐ ہوتا ہے۔تاہم ان موضوعات کی آڑ میں فریقِ مخالف کے عقائد اور مذہبی پیشوا نوکِ تضحیک و تنقید پر لٹکے رہتے ہیں۔اگر ہم فرقہ اور فریقین کی تحریرو تصانیف پر نظر دوڑائیں توپھر اسلام کے آنگن میں کوئی مومن عالم یا رہبر دِکھائی نہیں دیتا۔
ایسے لگتا ہے کہ ہماری تاریخ تعصّب کی چادر میں لپٹی ہوئی ہے۔مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور مولانااشرف علی تھانویؒ پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔مولانااحمدرضاخاں ؒ بریلوی پر باقاعدہ کتابیں لکھ کر سب و ستم کیا گیا۔ پروفیسرڈاکٹر طاہر القادری کو اُن کے مکتبِ فکر سے باہر اور اندر شرمناک تضحیک و تنقید کا شکار بنایا گیا۔اُن کے ایمان کو ناقص قرار دیا گیا۔انہیں گالیاں دی گئیں۔ڈاکٹر ذاکر نائیک اور جاوید احمد غامدی پر فتوے داغے گئے۔ آج”اہل ایمان“ مولانا طارق جمیل کی ایمانی صحت پر بھی سوال اُٹھاتے رہتے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف مکاتبِ فکر کے کتنے مذہبی علماء اور رہنماؤں کو پچھلی دو دہائیوں میں تعصّب کی گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔
مذہبی شخصیات سے قطع نظر، اگر ہم سیاسی اور سیاسی مذہبی شخصیات کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ سر سیّد احمد خاں ؒ، قائداعظم محمد علی جناحؒ،ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ،مولانا ظفر علی خاں ؒ،مولانا محمد علی جوہرؒ،مولانا شبلی نعمانیؒاور دیگر شخصیات فتاویِٰ کُفر کی زَد میں رہے۔ کہاجاتا ہے کہ جب چنگیز خان نے بغداد پر حملہ کیا تو اُس وقت اپنے دفاع کی فکر کی بجائے مسلمان ایک دوسرے کو مختلف معاملات میں نیچادِکھانے کیلئے منبروں پرسے شعلے اُگل رہے تھے۔
آج جب ذرائع اور مواقع رسل و رسائل اور نشرواشاعت اتنے وسیع اور سُرعت انگیز ہیں، تعصّبات کے پھیلنے کی شرح بھی اتنی ہی برق رفتار ہے۔بلا سوچے سمجھے اور بلا غوروفکر کسی چیز یا معاملے کے حق میں یا مخالفت میں دلائل گھڑ لینانسبتاً آسان ہو گیا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تعصّب میں لِتھڑے اپنے تمام عقائداور عقیدتوں پر مبنی تحفّظات کو ایک طرف رکھتے ہوئے مخالف فرقہ و فقہ کے علماء کو سُنیں اوراُن کی تحریریں پڑھیں۔ ہوسکتا ہے ان تقریروں اور تحریروں میں ایسا کچھ موجود ہو جو ہمیں تعصّب کا بت توڑنے میں معاون ہو، اورہم علم کے اُن موتیوں سے مُستفیض ہو پائیں جن سے تعصّب کے عارضہ نے ہمیشہ ہمیں محروم رکھا۔ شاید اس طرح اس مرض کاکچھ علاج ممکن ہو سکے اور ہم بہتر علمی معاشرہ بن سکیں۔