تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا!

 تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا!
 تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 پاکستان اور ایران برادر ہمسایہ اسلامی ممالک ہیں، جن کی سرحدیں ہی نہیں دِل اور ایمان کے رشتے بھی ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ایران پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والا ملک بھی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری تو کبھی آجاتی ہے، مگرقطع تعلقی کبھی نہیں ہوئی۔ دونوں ممالک کے درمیان مختلف سفارتی،ثقافتی اور تجارتی معاہدے بھی موجود ہیں۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف اوراسلامی جمہوریہ ایران کے صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی نے گوادر کے لیے 100 میگا واٹ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن کا افتتاح کردیا ہے۔یہیں دونوں رہنماوں نے بارڈر مارکیٹ کا بھی افتتاح کیا، جہاں دونوں ممالک کے درمیان اشیاء کی خرید وفروخت بھی ہوگی۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری،وزیر توانائی خرم دستگیر،وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس، بلوچ رہنما اختر مینگل اور دیگر وزراء بھی شریک ہوئے۔ یہ ایک بہت اہم پیشرفت ہے۔ ایران پہلے بھی پاکستان کو اپنی سرحد سے ملحقہ بلوچستان کے کچھ علاقوں میں بجلی مہیا کر رہا ہے۔اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف اور صدر ابراہیم رئیسی کے درمیان ملاقات بھی ہوئی،جس میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
 اس تاریخی موقع پر سب سے بڑی بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر کی ابتداء مفکر پاکستان شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے شعر سے کی:
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے!


راقم نے اپنے گذشتہ متعددآرٹیکلز میں دونوں ممالک کے درمیان پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تعاون کی ضرورت پر زور دیا اور واضح کیا کہ امریکہ سے ڈرتے رہنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ پاکستان اپنے مفادات کے مطابق سوچے۔ ایران قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے اور تمام پڑوسی ممالک سے تعاون چاہتا ہے۔ خاص طور پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک سے تعلقات کی مضبوطی ایران کی ہمیشہ سے ریاستی پالیسی رہی ہے۔پاکستان ایک عرصے سے توانائی کے بحران کا شکار چلا آ رہا ہے اور ایران اس کے حل کی متعدد بار پیشکش بھی کر چکا ہے، مگر افسوس پاکستان امریکی پابندیوں کے خوف سے باہر نہیں نکل سکا۔
توانائی بحران کے حل کے لئے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدہ ہوا۔ صدرپاکستان آصف علی زرداری اور ایرانی صدر محمود احمدی نڑاد نے2013ء میں دونوں ممالک کی سرحد پر پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا افتتاح کیا۔جس کے بعد ایران نے معاہدہ کے مطابق اپنی حدود میں گیس پائپ لائن بچھا دی، مگر ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان اپنی حدود میں پائپ لائن نہ بچھا سکا، حتیٰ کہ اس منصوبے کے لئے ایران قرض دینے کے لئے تیار ہے، مگر اپنے مفاد کے لئے ہی سہی، امریکی خواہش کیخلاف فیصلے کے لئے حکمرانوں کی جرأت درکار ہے۔ جو بدقسمتی سے مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کی حکومتیں حاصل نہ کرسکیں۔ گیس پائپ لائن پر معاہدہ اور افتتاحی تقریب تاریخ کا حصہ ہے، مگر پائپ لائن زمین پر موجود نہیں ہے۔ہم پہلے بھی متعدد بارنشاندہی کرچکے ہیں کہ امریکی اقتصادی پابندیوں کے باوجودبھارت روس سے تیل درآمد کر رہا ہے۔ بھارت نے امریکی پابندیوں کو نظر انداز کر کے اپنے ملک کے مفاد کومقدم رکھا اور کہا کہ امریکہ کو یقینا پتہ ہو گا کہ یورپی یونین کے ممالک روس سے تیل لے کر آگے بیچ رہے ہیں۔ ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ روس پر پابندیوں کے باوجود یورپی ممالک اس سے گیس اور کوئلہ خرید رہے ہیں، لیکن ہم پاکستانی امریکی پابندیوں سے خوفزدہ ہوکر ایران کے ساتھ قانونی تجارت شروع کرنے سے کیوں کترا رہے ہیں؟جبکہ امریکہ کی آئل ٹریڈنگ کمپنیاں رو س سے تیل خرید کر مختلف ممالک کو بیچ رہی ہیں۔ اگرچہ یہ مغرب کا دوہرا معیار ہے، مگر ہمیں بھی تو کچھ ہمت دکھانی چاہئے۔


جو حالات ہم آج دیکھ رہے ہیں، ماضی سے بہت مختلف ہیں۔ خطے میں اقتصادی مضبوطی اورامریکی اثرورسوخ کم کرنے کی مثبت پیشرفت میں چین کا کردار بہت اہم رہا ہے،جس کے نتیجے میں اسلامی جمہوری ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بحال ہوچکے ہیں۔ دونوں ممالک کے تجارتی وفود اور وزراء کی باہمی ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں۔سفارت خانے بھی کھل گئے ہیں۔ یقینا مستقبل میں اس کے اثرات دونوں ممالک کے عوام اور خطے پربہت خوشگوارہوں گے۔
 ہم اپنے پیارے دوست چین کی حکومت سے درخواست کریں گے کہ وہ اپنا رسوخ استعمال کرکے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے اجراء کے لئے سعودی سرمایہ کاری کا اہتمام کروا دیں، تو ہماری حکومت کی تذبذب اور ہچکچاہٹ میں تبدیلی آئے گی۔اس حوالے سے اگر سعودی شہزادہ محمد بن سلمان اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے پائپ لائن بچھانے میں مدد کریں تو بہت اچھا ہوگا جبکہ وہ خودریفائنری لگانے کے لئے پاکستان سے معاہدے کی ابتدا بھی کر چکے ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں سی این جی کے گاڑیوں میں استعمال سے ہم اپنی گیس سڑکوں پر استعمال کرچکے ہیں کہ اب گھریلو استعمال کی گیس بھی ہمیں دستیاب نہیں۔ایک عرصے سے پاکستان توانائی کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہے اوراگر گیس پائپ لائن کا یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے تو ملک میں گیس کی قلت کی وجہ سے صنعتی شعبے میں بہت ساری فیکٹری جوبند ہو رہی ہیں یا وہ اپنی پیداوار کو بڑھانے کے قابل نہیں ہیں۔ وہ اپنی مشکلات سے باہر نکل سکتی ہیں۔ اس سے مزدور کو روزگار بھی میسر آئے گا۔ایک خوشگوار پیشرفت یہ بھی ہے کہ روس نے بھی پاکستان کے ساتھ تیل اور گیس دینے کا معاہدہ کر لیا ہے اور بہت جلد ہی روس کا بحری بیڑا کروڈ آئل لے کر پاکستان پہنچ جائے گا۔اسی طرح روس سے گیس بھی آ رہی ہیں۔ اس تحریر کا نتیجہ ہمیں یہ احساس دلا رہا ہے کہ پاکستان غیر اعلانیہ طور پر مغربی دنیا کے سامراجی ہتھکنڈوں سے آزاد ہو رہا ہے اور اب یہ مشرق کی طرف جھکاؤ زیادہ کر رہا ہے۔حالیہ دنوں میں یہ بہت اہم پیش رفت ہے۔ چین کی علاقے میں اثر پذیر نے مشرق وسطی کے ممالک کو یکجا کردیا ہے، جس سے مستقبل میں یورپی یونین کے مقابلے میں اسلامی یونین یا مشرقی یونین بنانے کی زمین ہموار ہو سکتی ہے۔اب تک کے حالات بتا رہے ہیں کہ امریکہ کے اس خطے سے نکلنے کی ابتدا ہو چکی ہے۔


چین،روس اور ایران کے مشترکہ بلاک کی وجہ سے شام سے داعش کی دہشت گردی کا خاتمہ ہوا۔یہاں مقامات مقدسہ محفوظ رہے۔ یمن کے مسلمانوں کی مدد کی گئی اور اب حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کی بحالی کے مثبت اثرات سے یمن کی جنگ بندی ہوچکی ہے، شام عرب لیگ میں واپس آ گیا ہے اور عرب ممالک کی تنظیم کے حالیہ اجلاس میں صدر بشارالاسد کاگرم جوشی سے استقبال کیا گیا ہے۔ سعودی عرب اور یمن  کی تنظیم انصاراللہ کے درمیان مستقل جنگ بندی کے لئے مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔ہم سب ایران کے سفارتی کوششوں کا نتیجہ ہے، جبکہ لبنان کی سیاسی اور عسکری قوت ”حزب اللہ“ کے ساتھ بھی سعودی حکومت کے مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔ ان تبدیلیوں سے لگتا ہے کہ علامہ اقبال ؒ نے تقریباً ایک صدی پہلے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ تہران اگر اقوام مشرق کا جنیوا بن جائے تو خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے!

مزید :

رائے -کالم -