پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں حکومت نے نیا عدالتی دائرہ اختیار بنا دیا،عدلیہ کے انتظامی امور میں بھی مداخلت کی کوشش کی،چیف جسٹس پاکستان

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)پنجاب انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ پل کردار ادا کریں،آئین کے تمام اداروںکو احترام دیاجانا چاہئے،پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں حکومت نے نیا عدالتی دائرہ اختیار بنا دیا،حکومت نے عدالت کے انتظامی امور میں بھی مداخلت کی کوشش کی، موجودہ قانون صرف184 ( 3)کے بارے میں ہے، خوشی ہے،سب کو دوبارہ سوچنا ہوگا،عدالت نے کیس کی مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کردی ۔
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پرسماعت ہوئی ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی،بنچ میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اخترشامل ہیں۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ نظرثانی ایکٹ عدالت میں پیش کردیا،اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہاکہ ری ویو ایکٹ اب قانون بن چکا ہے،نئے ایکٹ کے تحت نظرثانی کا دائرہ کار اب اپیل جیسا ہی ہوگا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ یہ تو بڑا دلچسپ معاملہ ہو گیاہے،کیا حکومت تسلیم کررہی ہے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون اب نہیں رہا،چیف جسٹس نے پریکٹس اینڈپروسیجر ایکٹ2023 پر اٹارنی جنرل کو ہدایات لینے کی ہدایت کردی ۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس جمعرات کو مقرر ہے، کیس کو پھر اسی دن سنیں گے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ 184 (3 )کے دائرہ اختیار کے کسی حد تک جائزہ کی ضرورت ہے،184 (3)کے حوالے سے ہمارے فیصلے بھی کچھ راستے تجویز کرتے ہیں،کیا دوسرے فریق سے اس ایکٹ کے بعد کوئی بات ہوئی؟کیس کو پھر دوسرے فریق کی موجودگی میں سنیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر چھٹی پر ہیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آڈیو لیکس کمیشن کیس میں عدالت نے اہم نکات اٹھائے ہیں،عدالت کسی چیز کو ختم نہیں کرنا چاہتی،ہم صرف عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں،جو بھی ہو ایسے خفیہ یا سرپرائز انداز میں نہیں ہونا چاہئے، تاریخ میں چیف جسٹس کے ایکٹنگ چیف جسٹس بھی ہوا ہے،میو گیٹ ، ایبٹ آباد اورسلیم شہزادکمیشن کے نوٹیفکیشن آپ کے سامنے ہیں،اس سے پہلے بننے والے تمام کمشنر چیف جسٹس کی منظوری یااجازت سے بنائے گئے،ہمیشہ ججز کے نام چیف جسٹس کی منطوری سے ہوئے،اہم نکتہ ہے چیف جسٹس سے مشاورت کی روایت کو کیوں توڑ دیا؟یقینا میں کمیشن میں خود کو نامزدنہ کرتا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ پل کردار ادا کریں،آئین کے تمام اداروںکو احترام دیاجانا چاہئے،پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں حکومت نے نیا عدالتی دائرہ اختیار بنا دیا،حکومت نے عدالت کے انتظامی امور میں بھی مداخلت کی کوشش کی، موجودہ قانون صرف184 ( 3)کے بارے میں ہے، خوشی ہے،سب کو دوبارہ سوچنا ہوگا،عدالت نے کیس کی مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کردی ۔