طرح طرح کے مشورے ،پہلے تو ہم ہچکچائے۔۔(شفیق الرحمان کی مزاح سے بھرپور تحریر )

طرح طرح کے مشورے ،پہلے تو ہم ہچکچائے۔۔(شفیق الرحمان کی مزاح سے بھرپور تحریر )
طرح طرح کے مشورے ،پہلے تو ہم ہچکچائے۔۔(شفیق الرحمان کی مزاح سے بھرپور تحریر )

  

(ریڈیو کا ایک فیچر)
اناؤنسر، خواتین و حضرات! اس مہینے ہمیں طرح طرح کے مشورے موصول ہوئے۔ پہلے تو ہم ہچکچائے، لیکن چونکہ جدت کو ہر جگہ پسند کیا جاتا ہے اس لیے انہیں پیش کرتے وقت ہمیں ذرا بھی تامل نہیں ہے۔ خود ہی سوچیے جہاں ایک کرکٹ کا میچ نشر ہو سکتا ہے اور مشاعرے نشر کیے جاسکتے ہیں وہاں ایک لڑائی کیوں نہیں پیش کی جا سکتی؟ یا ایک قدرتی نظارے کو کیوں نہیں بیان کیا جا سکتا؟ جن صاحب نے ہمیں یہ مشورے بھیجے ہیں ہم ان کے احسان مند ہیں۔ انہوں نے ہماری توجہ روزمرہ کی ROUTINE چیزوں سے ہٹا کر ایک ترقی پسند راستے کی جانب مبذول کرائی ہے اور ترقی پسند باتوں پر تو لوگ جان چھڑکتے ہیں۔ آج ہم اس فیچر میں 3مشورے پیش کر رہے ہیں، جو یکے بعد دیگرے نشر کیے جائیں گے۔ بقیہ مشورے ہمارے پاس محفوظ ہیں۔ 
۱۔ جنگ
سب سے پہلے ہم ایک سچ مچ کی جنگ نشر کرتے ہیں۔ یہ جنگ مغلوں اور مرہٹوں کے درمیان ہوئی ہوگی۔ کہاں؟ مغربی گھاٹ کے کسی ناہموار میدان میں، یا شاید مشرقی گھاٹ کے آس پاس۔ ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے، کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ یہ کہیں وسطی سطح مرتفع پر ہی نہ ہوئی ہو۔ دونوں فوجیں لڑائی پر کیوں آمادہ ہیں۔۔۔؟ اس کی وجہ ”بابر میموریل شیلڈ“ بتائی جاتی ہے۔ 
سامعین! اس سے پہلے اس شیلڈ کے لیے مرہٹوں نے لاکھ کوشش کی، اچھی سے اچھی ٹیم بھیجی۔ ہمارا مطلب فوج سے ہے۔ لیکن ہمیشہ مغل ہی جیتتے رہے، کیونکہ ان کی صحت کہیں بہتر تھی۔ اس مرتبہ دیکھیے کیا ہوتا ہے؟ ہم چند انگریزی استعمال کریں گے۔ آپ چنداں خیال نہ فرمائیں، یہ ہم مجبور ہوکر کر رہے ہیں۔ ہاں تو اس سالانہ ٹورنامنٹ کی چوتھی جنگ پیش کی جا رہی ہے۔ 
اس وقت ساڑھے سات بجے ہیں۔ ہم ایک چھوٹی سی پہاڑی پر کھڑے ہیں۔ سامنے ایک وسیع میدان ہے۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے سب کو سبکیاں آ رہی ہیں۔ سورج ابھی ابھی نکلا ہے۔ امید ہے دوپہر کو خاصی گرمی ہو جائے گی۔ میدانِ جنگ کی گھاس چند روز ہوئے کاٹی گئی تھی، لیکن میدان پر اوس بہت پڑی ہوئی ہے۔ کہیں لوگوں کے اور گھوڑوں کے پاؤں نہ پھسلنے لگیں۔ سفید لائنیں لگائی جارہی ہیں۔ ہمارے سامنے ایک بہت بڑے خیمے کے نیچے بے شمار سپاہی کھڑے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ہزاروں ہوں گے، ہزاروں نہیں تو لاکھوں ضرور ہوں گے۔ مغل اور مرہٹے آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔ شروع شروع میں یہ لوگ لڑائی سے پہلے کبھی نہ ملتے تھے، لیکن اب سپورٹس مین بن گئے ہیں۔ ایک دوسرے سے سفر کے حالات پوچھ رہے ہیں۔ کچھ نعرہ¿ جنگ لگانے کی مشق کر رہے ہیں اور چند سپاہی پنجے لڑا رہے ہیں۔ پورے8 بجے لڑائی شروع ہوگی۔ صرف 25 منٹ باقی رہ گئے ہیں۔ 
پہلے لڑائی کے فیصلے کے متعلق بڑی گڑبڑ ہوتی تھی۔ بعض اوقات تو فیصلہ بالکل نہیں ہو سکتا تھا کہ کون جیتا ہے۔ مرہٹے کہتے تھے ہم جیتے ہیں اور مغل کہتے تھے ہم۔ چنانچہ اس سال2امپائر آئے ہیں۔ ایک امپائر بنگال سے بلایا گیا ہے اور دوسرا بلوچستان سے۔۔۔ ان دونوں کو اس لڑائی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، اس لیے ہمیں امید ہے کہ فیصلہ غیر جانبدارانہ ہوگا اور بلاحیل و حجت قبول کیا جائے گا۔ 
سامعین! پچھلے سال جنگ ختم ہوئی اور جب فیصلہ سنایا گیا تو اس قدر ناپسند کیا گیا کہ لڑائی دوبارہ شروع ہوگئی اور ہفتوں تک ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ دونوں ٹیموں کا بھرکس نکل گیا۔۔۔ ہمارا مطلب ہے فوجوں کا! وہ دیکھیے! دونوں امپائر گھوڑوں پر سوار، سفید زرہ بکتر پہنے میدان میں آ رہے ہیں۔ ان کے گھوڑے بڑے تندرست ہیں اور بالکل سفید رنگ کے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک لمبا سا بگل ہے جسے وہ فاؤل ہونے پر یا لڑائی روکنے کے لیے بجائیں گے۔ 
وہ انہوں نے اشارہ کیا۔ اب دونوں فوجوں کے کپتان میدان میں آرہے ہیں۔ مغل کپتان جس کانام مرزا بعلبک بیگ ہے، ایک لمبا تڑنگا مضبوط ALL-ROUNDER ہے، جسے دیکھ کر آنکھوں میں نور اور دل میں سرور پیدا ہوتا ہے۔ ادھر مرہٹوں کا کپتان بالا جی باجی کھڑبڑدیو مقابلتاً پستہ قد ہے۔ اس کارنگ کچھ سیاہی مائل ہے، صحت واجبی سی ہے، مگر سنتے ہیں کہ چستی اور چالاکی میں کسی سے کم نہیں۔ وہ انہوں نے ڈھال ہوا میں اچھالی اور ٹاس کیا۔ ڈھال سیدھی گری۔ مرہٹے ٹاس جیتے گئے۔ ان کا کپتان ناچتا کودتا واپس جا رہا ہے۔ اب مرہٹوں کی ساری فوج بائیں طرف اکٹھی ہو رہی ہے۔ مغل دہنی طرف ہیں۔ مغلوں کے سامنے سورج ہے، جس سے ان کی آنکھیں لازمی طور پر چندھیا جائیں گی، لیکن وہ ٹاس جو ہار چکے ہیں۔ 
ارے! یہ کیا۔۔۔؟ ہاں۔۔۔! امپائروں نے دونوں کپتانوں کو پھر بلایا ہے۔ انہیں سمجھا رہے ہیں کہ کہیں کوئی ایسی ویسی بات نہ ہو جائے جس سے ناک کٹ جائے یا کان اڑ جائے۔ لڑتے وقت ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا، آدمیت سے لڑنا، کیونکہ انسانیت ہی اصلی چیز ہے۔ سامعین ہمیں ایک شعر یاد آ گیا۔ ہمیں ایسے موقعوں پر اکثر شعر یاد آجاتے ہیں۔ ملاحظہ ہو، 
آدمیت سے ہے بالا آدمی کا مرتبہ
پست ہمت یہ نہ ہووے، پست قامت ہو تو ہو
اب دونوں کپتان واپس اپنی اپنی فوجوں میں جا رہے ہیں اور ٹیموں کو ترتیب دے رہے ہیں۔ مغل کپتان نے اپنی ساری فوج اگلی صفوں میں ٹھونس دی ہے۔ فل بیک دستہ بالکل معمولی سا ہے اور گول کیپر دستہ تو سرے سے غائب ہے۔ پیچھے کوئی سپاہی نظر نہیں آتا۔ عجب تماشا ہے! مرہٹے بالکل برعکس کر رہے ہیں۔ اپنا اپنا طریقہ ہے صاحب!
(چوب کی آواز)
وہ لیجیے، ڈھول بج رہے ہیں۔ بگل بجایا گیا۔۔۔ ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین۔۔۔ لڑائی شروع ہوگئی!
اس وقت ہماری حالت بھی قابل دید ہے، ہمارا دل بری طرح دھڑک رہا ہے۔ آہاہاہا! مغلوں کا سنٹر فار ورڈ دستہ تیر کی طرح جا رہا ہے۔ مرہٹوں کے ہاف بیک دستے نے اسے جانے دیا اور اِدھر ادھر ہوگئے۔ سامعین! اس میں ضرور کوئی چال معلوم ہوتی ہے۔ اب وہ فل بیک دستے تک پہنچ گئے ہیں۔ ارے! یہ کیا؟ وہی ہوا جس کا ہمیں ڈر تھا۔ فل بیک دستہ بجلی کی طرح تڑپا۔ ہاف بیک دستہ واپس پلٹا اور مغل دستہ وہیں دھرلیا گیا۔ امپائر گھبرائے ہوئے اِدھر ادھر پھر رہے ہیں۔ کیوں نہ ہو؟ آج کی جنگ کی لاج ان کے ہاتھ ہے۔ وہ دیکھیے 2سپاہی باہر نکالے جارہے ہیں۔ کیا بات ہے؟ ٹھہریے ہم دریافت کرکے بتاتے ہیں۔ (جاری ہے )

"شگوفے " سے اقتباس