دنیا کا نیا مسئلہ
میں قبلہ اول کی طرف رخ کرتا ہوں تو مجھے اٹھتا ہوا دھواں سلگتے ہوئے جسم فریاد کرتی خواتین اور تڑپتے ہوئے بچے نظر آتے ہیں کتنے معصوم بچے ہیں جنہیں خون میں نہلا دیا گیا ہجرت کرنے والوں کو راستوں میں مار دیا گیا پناہ لئے ہوؤں کو بارود کی آگ میں جلا دیا گیا ہسپتالوں میں گھس کر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی لوگ بستروں پر پڑے سسکتے ہوئے مریض لیکر ہسپتالوں سے نکلے تو ان کا تعاقب کرکے مارا گیا شہیدوں کے جنازوں پر گولے برسا دیے گئے اور وحشتوں کا یہ سلسلہ دراز ہوتا یہاں تک آپہنچا کہ خیموں میں پناہ لئے ہوؤں پر ٹنوں بارود برسا دیا گیا یہ وحشی ہیں اور وحشیوں کو روکنے کا بھی کوئی طریقہ ہونا چاہئے۔
کرہ ارض پر بستے ہوئے انسان ان وحشیوں سے غیر محفوظ ہوچکے ہیں اور ایک وحشی دوسرے وحشی کا مددگار ہے جیسے امریکہ وحشیوں کا بڑا ٹھکانہ ہے برطانیہ وحشیوں کی آماجگاہ ہے اسرائیل وحشیوں کا جنگل ہے،جہاں خونخوار وحشی انسانوں کے خون کے پیاسے ہیں انسانوں کا خون پیتے ہیں وحشیوں کے اس جنگل میں وحشیوں کے ٹھکانوں میں وحشیوں کی آماجگاہوں میں وحشیوں کے درمیان بستے ہوئے انسان اپنی جان کی امان کو سرگرداں ہیں وحشیوں کے ٹھکانوں سے اٹھتی ہوئی وحشتیں ہوں وحشیوں کی آماجگاہوں سے پھیلتی ہوئی وحشتیں ہوں یا وحشیوں کے جنگل سے دھاڑتی ہوئی وحشتیں ہوں یہ وحشی انسانوں کو چیر پھاڑ کر سکون پاتے ہیں دنیا ان وحشیوں سے غیر محفوظ ہے لوگ دیکھتے ہیں کہ مائیں اپنے بچوں کو سینے سے لگائے رکھتی ہیں تاکہ وہ وحشیوں سے محفوظ رہیں اور کسی وحشیانہ کارروائی میں بچوں اور ماؤں کی لاشیں ملتی ایسے مناظر تو دنیا میں بسنے والے خونخوار جنگلی جانور بھی نہیں دیکھ سکتے۔
وحشیوں کے ٹھکانوں سے وحشی اپنا سامانِ حرب لے کر نکلتے ہیں وحشیوں کی آماجگاہوں سے وحشتوں کے طوفان اٹھتے ہیں اور وحشیوں کے جنگلوں کا رخ کرتے ہیں وحشتوں کے اس جنگل میں جا کر ہر وحشی طمانیت پاتا ہے وحشیوں کے ان معاشروں میں انسان غیر محفوظ ہے کائنات پہلے نت نئی تحقیق اور کھوج میں تھی کہ زمین کے چھپے رازوں کو جانا جائے چاند پہ پہنچا جائے، لیکن اب دنیا کا نیا مسئلہ یہ ہے کہ وحشیوں سے انسانوں کو محفوظ کیسے کیا جائے چھ آٹھ ماہ کے بچے جن کے جسم جھلسے ہوئے ہیں اور طبیب ان کی مرہم پٹی کو دوڑتے ہیں، لیکن بچے آگ کی سوزش سے کہیں قرار نہیں پاتے چار پانچ سالہ بچے جن کے جسم گھائل ہیں کسی کا سینہ چاک ہے تو کسی کے پیٹ وحشیوں کی وحشتوں سے پھٹ چکے ہیں اور ان جسموں پر چارہ گر چارہ گری کرتے ہیں درد کی شدت سے تڑپتے ہوئے ان بچوں کی حالت دیکھی نہیں جاتی گلیوں میں لاشیں پڑی ہیں گھر کے گھر خاندانوں کے خاندان لاشوں سے بھر چکے ہیں کوئی مسجد چرچ ہسپتال سکول کوئی پناہ گاہ محفوظ نہیں جدھر کو نظر دوڑتی ہے ہر طرف بکھری ہوئی لاشیں نظر آتی ہیں دنیا میں بسنے والے انسان وحشیوں کی وحشتوں کے شکار فلسطینیوں کو جھلستا ہوا مرتا ہوا دیکھ کر تڑپ اُٹھتے ہیں لیکن ان معصوم فلسطینیوں کو تڑپتا ہوا دیکھ کر وحشیوں کی طبیعت کی کیفیت نہیں بدلتی دنیا ترقی کی انتہاؤں کو چھو چکی دنیا نے ترقی میں انسان کی عقل کو حیرتوں کے جزیروں میں گم کردیا، لیکن آج دنیا کا نیا مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں انسانوں کو ان وحشیوں سے کیسے بچایا جائے باؤلے کتوں کو تو مار دیا جاتا ہے تاکہ ان سے انسانوں کو بچایا جا سکے یہ وحشی بھی ان کی طرح خونخوار درندوں سے کہیں خطرناک ہیں جو انسانوں کی عمر اور جنس کا لحاظ کیے بغیر ان پر چڑھ دوڑتے ہیں کائنات میں بسنے والوں کے لئے کچھ قانون،اصول، ضابطے،قاعدے ہیں، لیکن وحشی کسی قانون اور قاعدے کو نہیں مانتا اسے تو صرف انسان نظر آتا چاہئے اور وہ اس پہ حملہ آور ہو جاتا ہے وہ انسانوں کی بو کو سونگھتا ہوا جاتا ہے اور انسانوں کو مار کر سکون پاتا ہے دنیا میں جنگوں کے بھی کچھ اصول ہیں کہ آپ سول آبادی کو نشانہ نہیں بنا سکتے بیماروں ضعیفوں بچوں خواتین پہ حملہ نہیں کر سکتے، لیکن وحشیوں کے لئے دنیا میں کوئی قانون۔ قاعدہ نہیں وحشیوں کو تو اپنی وحشتوں سے غرض ہوتی ہے وحشی تو انسانوں کے دشمن ہیں جو دنیا کے امن کو تہہ و بالا کر رہے ہیں وگرنہ دنیا سراپا احتجاج ہوئی دنیا نے ایک جنگل میں بسنے والے وحشیوں کو معصوم انسانوں کی نسل کشی سے روکا، کیا اقوام متحدہ، سلامتی کونسل ہر جگہ ان وحشیوں کی مذمت کی گئی حتیٰ کہ جب عالمی عدالت انصاف نے وحشیوں کو پرامن انسانوں پر حملہ آور ہونے سے روکنے کا حکم صادر فرمایا تو وحشی اور بھی بھڑک اُٹھے وحشی اور بھی شدت سے انسانوں پر حملہ آور ہوئے دنیا پہلے جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لئے سرگرداں تھی ایٹمی میزائلوں کی دوڑ میں سبقت لے جانے میں تھی، لیکن اب دنیا کے لئے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں بسنے والے انسانوں کو وحشیوں سے کیسے بچایا جائے ہماری دانست میں وحشیوں کا کوئی علاج نہیں جز اس کے کہ وحشیوں کو زنجیروں میں جکڑاجائے اور دنیا میں پیدا ہونے والے نئے وحشیوں کی تربیت ان اصولوں پر کی جائے کہ انہیں دنیا میں رہنے کے قواعد و ضوابط سکھائے جائیں انہیں ایسی تعلیم دی جائے کہ جس پر عمل کرتے ہوئے وحشیوں کی نئی نسل انسانوں کے درپے نہ ہو بلکہ وہ دنیا میں رہنے والے انسانوں سے مل کر پرامن طریقے سے رہ سکیں دنیا کے امن پسند لوگ سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ وحشیوں کے لئے کیا صورت ہو دنیا میں بسنے والے مہذب معاشروں کے امن پسند لوگ ان وحشیوں سے ہر طرح کی اپیلیں اور منتیں کر چکے کہ نہتے بے گناہ انسانوں کو محفوظ رکھا جائے دنیا میں انسانیت کے علم برداروں نے انسان کی فلاح اور بقاء کے لئے بہت کام کیے ہیں لیکن وحشی انسانوں کے خاتمے کو سرگرداں ہیں ان دنیا کے بڑوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور سوچنا ہوگا کہ برطانیہ ہو کہ امریکہ یا اسرائیل دنیا میں جہاں بھی وحشی رہتے ہیں ان وحشیوں سے انسانوں کو محفوظ کیسے کیا جائے یہ وحشی دنیا میں ہونے والے ظلم کوسراہتے ہیں اور ظالم کی تحسین کرتے ہیں اور مظلوم کی مظلومیت پر ہنستے ہیں دنیا کو ان وحشیوں کی سرکوبی کے لئے کوئی حکمت عملی کوئی لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا دنیا کو ان وحشیوں سے بچانا ہوگا دنیا جوہری ہتھیاروں سے ایسی غیر محفوظ نہیں جتنی ان وحشیوں سے غیر محفوظ ہو چکی ہے۔