مخلوق کی گواہی
ٹیسٹ چاہے سکول ویونیورسٹی کے بچوں کا ہو، مریض کا ہو یا پھر کسی نوکری کیلئے امیدوارکاہو،ہم دراصل تہہ تک پہنچ کرحقیقت وصلاحیت جاننا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ جبلت وسرشت کا غلام انسان اپنی حیاتی میں بعض ایسے "کم" بھی سرانجام دے دیتا ہے، جووقتی طورپرعقل وفہم کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں، یعنی الول جلول سی باتیں، جن کے جواب شاید کہیں سے نہ مل سکیں۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ اور کیوں ہو رہا ہے؟ کچھ لوگ رنگوں کو بدلنے میں کمال درجے کے "کاریگر" ہوتے ہیں،چرب زبان، لپاٹیے اور ماہر نفسیات بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کے سامنے بڑے دانشورومعاملہ فہم "آؤٹ" ہوتے نظر آتے ہیں۔کسی درویش نے کہاہے کہ "آنکھ جو بھی دیکھتی ہے الٹا دیکھتی ہے، سیدھا پیچھے دماغ کے پردے پے ہوتا ہے۔ بندرکے دو دماغ ہوتے ہیں، ماموں اور بھانجے کو رات کے وقت اکٹھے سفرپر نہیں نکلنا چاہیے، سالے بہنوئی کو کاروبار میں شراکت نہیں کرنی چاہیے، ملن اوربچھڑن کا ایک سمے مقرر ہوتا ہے"۔ خیر، اصل بات کی طرف لوٹ آتے ہیں۔
یہاں ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے، ایسے لوگوں کی چھپی" اصلیت" کو پرکھنے کیلئے کوئی "Test" ہے یا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خلق کردہ کائنات کا نظام "پرفیکٹ" و "اٹل" ہے، نہ ظلم و زیادتی، نہ اسراف و تصریف، نہ غیض و غضب اور نہ ہی جذباتی کیفیات غالب ہوتی ہیں۔
آئیں ذرا،سب سے اہم وقیمتی بات دیہان سے کلیئر کر لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ انسانوں کے ظاہری وباطنی "کرموں " کی پرفارمنس کا "فیڈ بیک" بندوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے اور اسے ہم رائے عامہ یا "آواز خلق نقارہ خدا" کا نام دیتے ہیں۔
قرآن پاک کی دو مختلف آیات کا مفہوم پیش کرنا چاہتا ہوں، ملاحظہ کریں۔ "بے شک جولوگ ایمان لائے اورانہوں نے نیک کام کیے تواللہ (لوگوں کے دلوں میں) ان کیلئے محبت پیداکردے گا" (مریم)۔
”اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ" (البقرہ)۔
اب ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم بھی دیکھ لیں۔ "سرکار دوعالمﷺ نے دومرتبہ لفظ "واجب "ادا فرمایا، حضرت عمرفاروق ؓ کے استفسارپر جواب دیا، جب پہلا جنازہ گزرا تو لوگوں نے مرنے والے شخص کیلئے تعریف کے کلمات ادا کیے، تو فرمایا کہ"جنت واجب" ہو گئی۔ جب دوسرا جنازہ گزرا، لوگوں نے میت کی برائی بیان کی، توفرمایا "دوزخ واجب ہو گئی"۔
انسان کی جھولی میں سب سے" انمولی"شے کردار ہے، ظاہر و باطن کا حقیقی عکاس، چھپتا نہیں، خوشبو و بدبو کی طرح "بدوبدی" مہک جاتا ہے، اور زبان ترجمان ہوتی ہے، شبدوں میں "بابے دی بیری" کے چھتے کا شہدہونا چاہیے۔
"کردار" کی بنیاد پر ہی لوگوں کی رائے قائم ہوتی ہے۔ اکثریت کی آواز، دراصل مطلق العنان شاہ کا فیصلہ ہوتا ہے، جو وہ اپنے بندوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔ انسان کا ظاہری لباس عصاء، ہتھ چھڑی، ٹوپی، ہیٹ، پگڑی، چادر، رومال، عینک، قلم، جوتا، جراب اور آج کل "موبائل فون " سے مزین ہوتا ہے۔ جبکہ انسان کا باطنی لباس صرف اور صرف" خدمت خلق" ہے۔ اس پس منظر کے تحت تواسلامی دنیا بالعموم اور پاکستان بالخصوص "سوشل ورکنگ" میں آئیڈیل پوزیشن میں ہونا چاہیے، لیکن صورت حال بالکل الٹ ہے۔
ریاست کی ذہنیت و پالیسی کا اندازہ، ریاستی اداروں کی کارکردگی سے ہوتا ہے۔ بداخلاقی سے پیش آنا، گھنٹوں کے کام کو مہینوں تک لٹکائے رکھنا، رشوت طلب کرنا، نکے صاحب، وڈے صاحب کا گھمنڈ،نیلی بتی کا رعب و نشہ،پروٹو کول کی ڈیمانڈ، اختیارات میں حدوں کی ایسی کی تیسی کرنا، حصے پتیاں طے کرنا، اکاؤنٹ بھرنا، پیسوں سے ٹرانسفر و نوکریاں لینا دینا، بھتے وصولنا، ناجائز خوری یہ سب ہمارے سرکاری دفاتر کا مروجہ کلچر ہے۔ مانیں یا نہ مانیں، گراؤنڈ Reality یہی ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے داؤ پر ہے اور اپنی مستی میں "تھرک" رہا ہے۔ ”کستی نظام“کے باغی، درویش افسر کھڈے لائن لگا دیئے جاتے ہیں۔ اس بگڑی صورتحال کا Solution سرکار دوعالم ﷺ کی سیرت مبارک کے نفاذ میں چھپا ہے۔