آفاتِ ارضی و سماوی!
ہمیں اکثر وبیشتر کسی نہ کسی طرح کی ارضی و سماوی آفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ دنوں میں لاہور اور کراچی میں جو دو فیکٹریوں میں آگ نے جان و مال کی تباہی مچائی ہے، دنیا میں اس کی مثال شاید ہی ملے۔ قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ آخر ایسی ناگہانی آفات ہم پر کیوں وارد ہو رہی ہیں، مگر افسوس تمام سیاسی جماعتیں، بلکہ عوام بھی اس طرف سے کُلی طور پر غافل ہیں۔
ہم بھولے ہوئے نہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟.... ایسی تباہی و بربادی کا سبب صرف اور صرف ایک ہی ہے کہ ہم نے احکامات الٰہیہ اور ارشاداتِ نبویہ سے صرف نظر کر رکھا ہے۔ سورة الشمس نمبر 91 آیت نمبر 8 کا ترجمہ ملاحظہ ہو: ”ہم نے انسان کی فطرت میں نیکی اور بدی کی پہچان الہام کر دی ہے“۔ پھر اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق سے بے حد محبت اور پیار ہے، جیسا کہ سورئہ یٰسین نمبر 36 آیات 60 تا 62 میں فرمایا ہے: ”اے آدم ؑ کی اولاد کیا مَیں نے تم سے وعدہ نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی پیروی نہ کرنا، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے آیت نمبر 61 اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے آیت نمبر 62 لیکن تم میں سے بہت سے شیطان کی گمراہی میں پھنس گئے، کیا تم میں عقل نہیں تھی“؟ .... احکاماتِ الٰہیہ سے روگردانی اور سرتابی کا خود اللہ کریم نے حیرت اور تعجب کے ساتھ قرآن کریم میں فرمایا ہے۔ سورئہ محمد نمبر 47 آیت نمبر 24 : ”تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا دلوں پر قفل لگے رہتے ہیں“؟....اسی طرح حضور علیہ الصلوٰة والسلام روز محشر اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی امت کا یوں شکوہ کریں گے، سورة الفرقان نمبر 25 آیت نمبر 30: ”اور رسول کہیں گے اے میرے پروردگار! میری اس قوم نے اس قرآن کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا“.... انہی آیات سے متاثر ہو کر اقبالؒ نے بھی کہا ہے:
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بقرآں زیستن
خوار از مہجوری¿ قرآں شدی
شکوہ سنج گردشِ دواں شدی
جہاں تک حکمرانوں کی ذمہ داریوں کا تعلق ہے، وہ کون سے حکمران ہیں، جن کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے ذمہ لیا ہے؟ اس کی وضاحت سورة الحج نمبر 22 آیت نمبر 41 میں فرما دی ہے: ”یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں ملک میں اقتدار دیں تو وہ نظام صلوٰة و زکوٰة نہایت مو¿ثر اور جامع انداز سے قائم کریں اور اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں“.... اور جملہ امور کا انجام اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں میں ہے، جب ایسے لوگ مسند حکومت پر بیٹھتے ہیں تو آرام و آرائش میں وقت ضائع نہیں کرتے، اپنے رب کی یاد سے غافل نہیں رہتے، قومی خزانوں میں بددیانتی نہیں کرتے، وہ بدی کو پروان نہیں چڑھنے دیتے، وہ غریبوں اور مسکینوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں اور وہ وعدہ فراموش نہیں ہوتے۔ قارئین کرام! آپ بخوبی جانتے ہیں کہ اتنے طویل عرصے میں جتنے حکمران اور صاحبانِ اختیار و اقتدار کو اللہ تعالیٰ نے ملک کی صحیح معنوں میں خدمات سرانجام دینے کا موقعہ دیا، انہوں نے وفاداری کا ثبوت نہ دیا۔ البتہ ترقی¿ معکوس کی اتنی مثالیں ہیں، جو شمار سے باہر ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر غفلت زدہ حکمرانوں اور عوام کو متنبہ فرمایا ہے کہ یہ دنیوی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے۔ تم بھول گئے کہ ایک دن احتساب کے لئے بھی پیش ہونا ہے۔ انسانی فطرت کی مثال دیتے ہوئے سورة العنکبوت نمبر 29 آیت نمبر 65 میں فرماتے ہیں: ”یہ بھی عجیب لوگ ہیں، جب سوار ہوتے ہیں کشتی میں تو دعا مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ سے خالص کرتے ہوئے اسی کے لئے اپنے دین کو، پھر جب وہ سلامتی سے پہنچاتا ہے انہیں خشکی پر تو اس وقت وہ شرکت کرنے لگتے ہیں“ یعنی کفار کی اسی دوسری حماقت بلکہ زیادتی اور بے انصافی کا بیان ہو رہا ہے کہ یہ بھی عجیب لوگ ہیں، جب یہ کشتیوں پر سوار ہو کر سمندری سفر پر روانہ ہوتے ہیں اورکوئی طوفان انہیں گھیر لیتا ہے، کشتی ہچکولے کھانے لگتی ہے، سمندر کی بپھری ہوئی موجیں کشتی سے آکر ٹکرانے لگتی ہیں اور وہ ڈوبنے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ سلامتی سے ساحل پر پہنچا دیتا ہے تو پھر اللہ کو بھلا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں معبود نے بچا لیا ہے۔ وہ ناشکری کرلیں، مگر جلد ہی اصل حقیقت کو جان لیں گے۔
رسولِ اکرم کی بعثت سے پہلے جب قوموں نے حد سے زیادہ سرتابی اور حکم عدولی کی تو ان کے پیغمبروں نے بالآخر اللہ تعالیٰ کے ہاں بددعا کی اور عذاب طلب کیا تو ان قوموں کا نام و نشان مٹا دیا گیا، مگر اپنے محبوب کریم سے خاص رعایت برتی اور فرمایا اے میرے محبوب! ہم نے آپ کی امت کو عذاب اکبر سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے۔ کفار مکہ اتنے مغرور اور کلامِ الٰہی سے منکر ہو چکے تھے کہ وہ علانیہ پتھروں یا کسی اور طرح کے عذاب کو طلب کرتے، مگر اللہ تعالیٰ فرماتے کہ ان کی سنت تو یہ ہے کہ جب تک نبی کریم موجود ہیں، ہم لوگوں پر من حیث القوم عذاب روکے رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں سورة الانفال نمبر 8آیات 31 تا 33 کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: ”اور جب پڑھی جاتی ہیں ان کے سامنے ہماری آیتیں تو کہتے ہیں (اجی رہنے دو) سن لیا ہم نے اگر ہم چاہیں تو کہہ لیں ایسی آیتیں، نہیں ہیں یہ مگر کہانیاں اگلے لوگوں کی آیت نمبر 32 اور جب انہوں نے کہا اے اللہ! اگر ہو یہی قرآن سچ تیری طرف سے تو برسا ہم پر پتھر آسمان سے اور لے آ ہم پر درد ناک عذاب آیت نمبر 32 اور نہیں ہے اللہ تعالیٰ کہ عذاب دے انہیں، حالانکہ آپ تشریف فرما ہیں اِن میں اور نہیں ہے اللہ تعالیٰ عذاب دینے والا انہیں، حالانکہ وہ مغفرت طلب کرتے ہوں“۔ یہاں قدرتاً سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی دیدہ دلیری کے باوجود ان پر عذاب کیوں نازل نہیں کیا گیا؟ مذکورہ آیت میں اسی سوال کا جواب دیا جا رہا ہے کہ اے میرے حبیب! جب تک تیرا وجود ان میں موجود ہے عذاب نہیں اترے گا، دوسری وجہ یہ ہے کہ ان میں تیرے ایسے غلام بھی موجود ہیں جو ہر وقت سرنیاز خم کرکے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں۔
عذابِ الٰہی، آفات سماوی اور ارضی سے کیا مراد ہے؟ آسمان سے نازل ہونے والی مصیبتیں، بلائیں، طوفان بادو وباران، ژالہ باری، آندھیاں وغیرہ سماوی آفات کے زمرہ میں آتی ہیں اور زمین سے پیدا ہونے والی مصیبتیں، وبائیں، زلزلے، سیلاب اور آتش زدگی وغیرہ آفات ارضی سے متعلق ہیں۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً انسانوں پر ایسی آفات بھیجتا رہتا ہے جو انہیں اپنی بے بسی کا احساس دلاتی رہیں۔ انہیں ادنیٰ عذاب کہا جاتا ہے۔ آخرت کے عذاب کا مطلب لوگوں کو ہوش میں لانا ہے کہ اگر وہ باغیانہ طرزِ عمل کو ترک کرکے راہ راست پر آجائیں تو وہ عذاب اکبر سے نجات پا سکتے ہیں۔ سورة السجدہ نمبر 32، آیت نمبر 21کا ترجمہ ملاحظہ ہو: ”اور ہم ضرور چکھاتے رہیں گے انہیں تھوڑا تھوڑا عذاب، بڑے عذاب سے پہلے تاکہ وہ فسق و فجور سے باز آجائیں“.... یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ابدی عذاب میں گرفتار ہونے سے پہلے ان غافلوں اور سرکشوں کو ہم طرح طرح کی مصیبتوں اور رنج و الم میں مبتلا کر دیتے ہیں، تاکہ وہ خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر اپنی اصلاح کرلیں اور عذاب جہنم سے بچنے کی تدبیر سوچ لیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے کہ وہ کسی تکلیف اور مصیبت کو انسان کی اصلاح کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔ وہ نعمت و راحت جو انسان کو غافل اور سرکش بنا دے اس سے وہ مصیبت ہزار درجہ بہتر ہے جو انسان کو گناہوں سے باز رکھنے کا سبب بن جائے۔
عذاب کے لفظی معنے تکلیف، سزا اور دکھ کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نافرمان افراد اور قوموں پر عذاب نازل کیا، جن کا بالتفصیل ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔ عذابِ الٰہی کے اصول یہ ہوتے ہیں۔ (i) جن قوموں میں کوئی نبی نہ بھیجا گیا ہو ان پر عذاب نازل نہیں کیا گیا، (ii) جس قوم میں اصلاح کی گنجائش موجود ہو، ان پر عذاب نازل نہیں کیا جاتا، (iii) عذاب الٰہی نازل کرنے سے پہلے قوم کو آخری تنبیہ کی جاتی ہے، (iv) جس بستی پر عذاب نازل کیا جاتا ہے وہ نیک لوگوں سے خالی ہو جاتی ہے، (v) عذاب کا شکار ہونے والے لوگ آخرت میں بھی سزا پائیں گے، (vi) جو قومیں فحاشی، عریانی، شراب نوشی، زنا کاری، شرک اور بددیانتی میں مبتلا ہو جاتی ہیں، ان پر عذاب نازل کیا جاتا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے آفات سماوی کا تو یہ قوم کو خواب غفلت سے جگانے کے لئے ہوتی ہیں۔ کبھی آسمان سے بادو باراں اٹھتے ہیں، جن کی وجہ سے طغیانی اور سیلاب بلاخیز آتے ہیں اور زمینی آفت زلزلوں کی شکل میں تباہی و بربادی لاتی ہے۔
کسی طرح کی وبا کا پھیلنا یا جنگ و جدل کا ہونا، جس کی وجہ سے کثیر جانوں کا ضیاع ہوتا ہے، دراصل ایسی آفات سے مسلم امہ کو خبردار کرنا مقصود ہوتا ہے تاکہ مسلمان ایسے واقعات و حادثات سے عبرت پکڑیں۔ ایسے حادثات کو عذاب الٰہی سمجھنا درست نہیں، جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔ امت محمدیہ پر قرآن کریم کی رو سے عذاب نہیں آئے گا، البتہ سرزنش کے لئے آفات سماوی و ارضی کا آنا قیامت تک قائم رہے گا۔ بدقسمتی سے فی زمانہ ملت اسلامیہ نے قرآن و سنت کے خلاف اپنی زندگیاں بسر کرنا شروع کر دی ہیں، اس لئے رحمت الٰہی ایسی غفلت زدہ قوم پر کہاں نازل ہو گی؟ بلکہ ہر آئے دن کوئی نہ کوئی نیا بحران اور نئی آفت وارد ہوتی رہے گی، جیسا کہ لاہور اور کراچی میں آتش زدگی سے سینکڑوں انسان جل کر خاک ہو گئے.... اناللہ و انا الیہ راجعون.... انہیں نیم شہادت کا درجہ نصیب ہے۔اللہ ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین۔ ٭
عمرو بن میمون اودیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے نصیحت فرمائی، پانچ حالتوں کو دوسری پانچ حالتوں کے آنے سے پہلے غنیمت جانو اور ان سے جو فائدہ اٹھانا چاہو اٹھا لو: غنیمت جانو جوانی کو بڑھاپا آنے سے پہلے۔ غنیمت جانو تندرستی کو بیماری آنے سے پہلے۔ غنیمت جانو خوشحالی اور فراخ دستی کو ناداری اور تنگدستی سے پہلے۔ غنیمت جانو زندگی کو موت آنے سے پہلے۔ (ترمذی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ چار شخصوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے کہ ان کو جنت میں نہ بھیجے گا اور نہ ان کو جنت کی نعمتوں سے کچھ حصہ ملے گا (1)شراب کا عادی (2)سود خور (3)یتیم کا مال کھانے والا اور (4)ماں باپ کا نافرمان (حاکم)