کیا اب بھی پاکستان نہیں بننا چاہئے تھا ؟

کیا اب بھی پاکستان نہیں بننا چاہئے تھا ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


                                                                        جیسے جیسے ہندوستان کے مسلمانوں میں ایک الگ وطن کے حصول کی سوچ پروان چڑھتی چلی گئی، ہندوﺅں کے غیظ وغضب میں اضافہ اور ہندو رہنماﺅں کی شعلہ بیانیوں میں تیزی آتی چلی گئی ۔مثلاً نریندر پرشاد سکسینہ نے 1934ءمیںجلسہ عام میںتقریر کرتے ہوئے کہا: ”ہندوﺅں کو چاہیے کہ اپنے دشمن مسلمان کو کچل ڈالیں“۔ اسی طرح ایک اور ہندو لیڈر راما سوامی نے 1938ءمیں کہا: "مسلمانوں سے کہنا چاہیے کہ وہ اپنے وطن عرب کو واپس جائیں اور وہاں جا کر ریت پھانکیں ".... وغیرہ وغیرہ۔ پھر اُن کی اجتماعی سوچ اس طرف چلی گئی کہ مسلمانوں کا ہندوستان میں ناطقہ بند کر دیا جائے ۔انہیں ذہنی، سماجی، معاشی اور جسمانی طور پر اس قدر مفلوج و مجبور کر دیا جائے کہ وہ اِس مطالبے سے باز آجائیں یا اِس طرف پیش قدمی نہ کر سکیں ۔ اس کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کرنا شروع کر دیا گیا۔طعن و تشنیع ، توہین وتذلیل، اشتعال انگیزی اور پھر قتل و غارت ،ہندوﺅں کا روزمرہ کا معمول بن گیا ۔بات بے بات مسلمانوں سے جھگڑا کھڑا کرنا اور پھر اپنی اکثریت کے بل بوتے پراُن کا قتل عام کرنا، اور اسے ہندومسلم فساد کا نام دینا، جبکہ ان میں مرنے والے صرف مسلمان ہی ہوتے تھے ،ہندوﺅں کا دلچسپ مشغلہ بن گیا۔
 1935ءمیں جب ہندوستان میںپہلی بار انتخابات ہوئے اور کچھ صوبوں میں حکومتیں مقامی سیاست دانوں کے حوالے کی گئیں جو اکثریت کی بنیاد پر تقریباً تمام کے تمام ہندو تھے، مسلمانوں کے مصائب میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ۔علاوہ ان تمام حربوں کے جو پہلے سے استعمال کئے جارہے تھے ، مسلمانوں کو دبانے کی ایک صورت یہ بھی نکالی گئی کہ جہاں کہیں کوئی مسلمان جانے یا انجانے میں کوئی جرم کر بیٹھتا، اس پر بڑھ چڑھ کر فوجداری کی جاتی، لیکن دوسری طرف ہندوﺅں سے ہر ممکن نرمی برتی جاتی ۔1928ءسے 1938ءتک ہندوستان میں اوسطاً دس لاکھ مقدمات ہر سال درج ہوتے تھے ، جن میں تقریباًآٹھ لاکھ ملزمان گرفتار ہوتے اور ان میں سے تقریباً سات لاکھ کو جیل کی ہوا کھانا پڑتی، لیکن حیرت انگیز طور پر آبادی کا پندرہ فیصد ہونے کے باوجود اُن میں سے ساٹھ فیصد مسلمان ہوتے تھے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمان ہندوﺅں کے مقابلے میں زیادہ جرائم پیشہ تھے، بلکہ یہ اُن کے خلاف ہندوﺅں کے تعصب اور معاندانہ رویے کا عکس تھا ۔ 1939ءمیں جب ہندوستان کے اکثر صوبوں میں کانگریسی حکومتیں تھیں ، سی آئی ڈی کی رپورٹوں پر ہندوستان بھر میں بغاوت اور غداری کے الزام میں17,928مقدمات درج کئے گئے۔ ان میں 5,465افراد کو موت یا کالا پانی کی سزا ہوئی ۔ان میں صرف 411غیر مسلم ،جبکہ باقی تمام مسلمان تھے ،جن میں بڑے بڑے سفید پوش، زمیندار، اُمراءاور جید علماءشامل تھے....(بحوالہ 'انسائیکلو پیڈیا تحریک پاکستان' مرتبہ اسد سلیم شیخ)
 مسلمان جو شروع ہی سے ہندوﺅں کے اس طرح کے رویوں کا شکار تھے، ان بڑھتے ہوئے ظلم اور زیادتیوں کے نتیجے میں اپنے اُس عزم میںمزید پختہ ہوتے چلے گئے کہ اگر ہندو انہیں کسی طرح بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں تو اُن کا اپنا ایک الگ وطن ہونا چاہئے۔ایسے میں انہیں قائد اعظم محمد علی جناح ؒ جیسا عظیم لیڈر میسر آگیا۔1940ءکی قرارداد لاہور او رقائد اعظمؒکی ولولہ انگیز قیادت کے تحت مسلمانان ہند متحد ہوتے چلے گئے اور مطالبہ پاکستان اُن کی حر زِ جاں بن گیا ۔ مسلم رہنماﺅں کی ہندو اور انگریز دونوں کے ساتھ سیاسی ، قانونی اور آئینی جنگ کے شانہ بشانہ عام مسلمانان ہند کے جوش و خروش اور قربانیوں و ایثار کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔ایک طرف تحریک پاکستان قدم بہ قدم منزل کی طرف بڑھتی چلی گئی تودوسری طرف ہندوﺅں کی ریشہ دوانیاں ، انگریزوںکی چالاکیاںاور سکھوں کی سفاکیاںبھی زور پکڑتی گئیں ۔کئی قانونی و آئینی بحران ، کئی گول میز کانفرنسیں اور کئی افہام تفہیم او ر ٹکراﺅ کی فضائیں بنتی اور بگڑتی رہیں۔بالا ٓخر قائداعظم ؒکی ذہانت ، قابلیت، قائدانہ صلاحیتوں اور عوام کی بے پناہ استقامت جوش و جذبے اور ایثار و قربانیوں کے سامنے بے بس ہو کر تین جون 1947ءکوانگریز حکومت نے 15اگست 1947ءسے ہندوستان کو دو آزاد مملکتوں ، انڈیا اور پاکستان ، کے نام سے آزاد کرنے کا اعلان کر دیا ۔
تقسیم ہند کے مسئلے پر وائسرائے ہند لارڈ ماﺅنٹ بیٹن بھی ہندﺅوں کا ہم خیال تھا۔وہ کسی طرح بھی ہندوستان کو تقسیم نہیں کرنا چاہتاتھا، لیکن اُسے ہار ماننا پڑی ۔1948ءمیں لندن میںقائد اعظم ؒ کی وفات کی خبر سن کر اُس نے انتہائی افسردہ لہجے میں کہا کہ اگر اُسے ذرا سا بھی اندازہ ہوتا کہ جناح اس قدر جلد فوت ہو جائیں گے تو وہ کسی نہ کسی طرح ایک دوسا ل معاملہ لٹکائے رکھتا، لیکن ہندوستان کو تقسیم نہ ہونے دیتا ۔تاہم لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے اپنے خبث باطن کا مظاہر ہ کرتے ہوئے قیام پاکستان سے چند روز قبل ضلع گورداسپور اور ضلع فیروزپور، جو تقسیم ہند کے تین جون کے اصل پلان کے مطابق پاکستان کا حصہ بننے والے تھے ، راتوں رات کسی کے اشارہ¾ اَبر و پر پاکستان سے کاٹ کر ہندوستان میں شامل کر دیئے۔جس سے ایک طرف توپاکستان سے جموںو کشمیر جانے کا راستہ کٹ گیا اور دوسری طرف دریائے ستلج ، بیاس اور راوی کے منابع ہندوستان میں چلے گئے جن پر اُس نے بعد ازاں ڈیم بنا کراور نہریں نکال کر یہ تینوں دریا خشک کردیئے ۔ ایسا کرنے اور کروانے کا اصل مقصد بھی یہی تھا۔
ہندو لیڈروں نے انتہائی بوجھل دلوں کے ساتھ اس تقسیم کو قبول کیا ،لیکن اس یقین کے ساتھ کہ پاکستان ایک الگ مملکت کے طورپر زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکے گا اوربالا ٓ خر انڈیا سے واپس آملے گا، لیکن ہندو عوام نے اس پر سخت رد ِ عمل کا اظہار کیا۔وہ قطعاً یہ توقع نہیںکررہے تھے کہ اُن کے لیڈر ملک کوتقسیم ہونے سے نہیں بچا سکیں گے اور یہ کہ مسلمان ایک الگ ملک بنانے میںکامیاب ہو جائیں گے۔ وہ غم و غصے سے پاگل ہوگئے ، پھر انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں پر ظلم وستم کی وہ تاریخ رقم کی جس پر انسانیت صدیوں خون کے آنسو بہاتی اور ہچکیاں لیتی رہے گی ۔1947ءمیں ہندوﺅں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل وغارت کی داستان بہت لمبی اور بہت ہی دردنا ک ہے۔ مصدقہ رپورٹوں کے مطابق پاکستان بنانے کے جر م میں ہندوﺅں نے انتہائی وحشیانہ طریقے سے دس لاکھ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ۔ان میں وہ بھی شامل تھے جو ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجر ت کر کے پاکستان کی طرف آرہے تھے اور وہ بھی جنہوں نے ہندوستان میں ہی رہنا تھا۔ اُس وقت کسی کا مسلمان ہو نا ہی اُس کا سب سے بڑا جرم تھا۔اس دوران ہندوﺅں اور سکھوں کے منظم اور تربیت یافتہ جتھے کس طرح مسلمانوں پر حملے کرتے تھے، یہ سرگزشت باﺅنڈری فورس کے ایک غیرمسلم افسر کے چشم دیدواقعات کے مطابق یوں تھی :
”ان کا طریقہ کا ریہ تھا کہ وہ گاﺅں کے ایک طرف بموں اور آتشیں ہتھیاروں کا مظاہرہ کر کے دیہاتیوں کو دوسری طرف بھاگنے پر مجبور کر دیتے ،جبکہ اُس طرف سکھوں کا ایک اور ہجوم برچھیوں اور تلواروں سے مسلح ہو کر اُن کا انتظار کررہا ہوتا تھا ۔ یہ لوگ ایسا انتظام کرتے تھے کہ ہر مرد، ہر عورت، ہر بچہ قتل کر دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد پچا س پچاس یا سو سو نعشوں کے ڈھیر لگا کر ان کو آگ لگا دی جاتی یا گڑھا کھو د کر ان نعشوں کو ا س میں ڈال دیا جاتا ۔ مَیں نے اس قسم کے بہت سارے انبار ترن تارن اور اس کے بعد امر تسر اور گورداسپور کے ضلعوں میں دریائے راوی کے کناروں پر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں ۔ اس قتل عام کے بعد یہ جتھے گاﺅں کو لوٹ لیتے اورپھر اسے آگ لگا دیتے ۔مَیں نے اپنے قیام کے دوران بعض نہایت خوفناک باتیں دیکھیں اور سنیں ۔مثلاً بیسیوں عورتیں اور بچے گھروں کے اندر بند کر کے زندہ جلا دیئے گئے ۔ حاملہ عورتوں کی عصمت دری کی گئی اور اس کے بعد اُنہیں نیزوں سے چھید ڈالا گیا۔ برہنہ مسلمان عورتوں کے جلوس نکالے گئے ۔ نوجوان لڑکیوں سے زبردستی بدکاری کی گئی ، پھر اُنہیں ان کے رشتے داروں کے سامنے قتل کر دیا گیا....(بحوالہ' انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا'مرتبہ سید قاسم محمود)
ریاست ہائے پٹیالہ ، کپورتھلہ ، فرید کوٹ ، جنڈ اور نابھہ میں آٹھ لاکھ تینتیس ہزار مسلمان آباد تھے، ان میں سے اکثر کو اگست ستمبر 1947ءمیں نیست و نابو د کر دیا گیا ۔ صرف پٹیالہ میں اڑھائی لاکھ مسلمانوں کا نام ونشان غائب کر دیا گیا ۔کپور تھلہ میں شاید ہی کوئی مسلمان زندہ بچا ہو ۔15ستمبر 1947ءکے روز مسلمان مہاجرین کا ایک بہت بڑا قافلہ اردیسہ سے پاکستان کے لئے روانہ ہوا۔ اس قافلے کو راستے میں جگہ جگہ مارا جاتا رہا۔ایک لاکھ کے قافلے میںسے صرف چار ہزار افرادزندہ بچ کر پاکستان پہنچ سکے۔ امرتسر ، جالندھر ، ہوشیارپور،فیروزپور، رُہتک اور حصار میںمسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ۔ ہزاروں جوان عورتوں نے کنوﺅں میں چھلانگیں لگا کر خود کشی کر لی، جبکہ ہزاروں کو ہندو سکھ ا ُٹھا کر لے گئے اور جو باقی تمام زندگی لونڈیاں بن کراُن کی خدمت کرتی اور بے نکاحی اُن کے بچے جنتی رہیں ۔ایسے سینکڑوں کنویں بعد ازاں دیکھے اوردریافت کئے گئے جو مسلمان عورتوں کی نعشوں سے پٹے پڑے تھے۔ مشرقی پنجاب کے اکثر مقامات پر مسلمان عورتوں کو اکٹھا کر کے اور پھربرہنہ کر کے سڑکوں اور گلیوں میں سے گزارا گیا ، پھر اُن کی اجتماعی آبروریزی کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کر کے یا تو کنوﺅں میں پھینک دیاگیا یا آگ لگا کر جلا دیاگیا ۔ (جاری ہے)    ٭




 ایک عینی شاہد کے مطابق چار سے چودہ ستمبر 1947ءتک نئی دہلی میںپچیس ہزار مسلمان مارے جا چکے تھے ۔نعشوں کو ٹرکوں میں بھربھر کر شہر کے وسط میں لایا گیا، پھراُن پر پٹرول ڈال کر جلا دیا گیا۔پٹیالہ ، کپورتھلہ، الور، بھرت پور اور دیگر ریاستوں کے ہندو اور سکھ راجوں نے کس کس طرح اپنی مسلمان رعایا پر ظلم ڈھائے ،یہ ایک لمبی کہانی ہے جو اِ س مختصر مضمون میں بیان نہیں کی جاسکتی ۔ اس قسم کے ہزاروں واقعات میں سے ایک یوں ہے کہ :ڈاکٹر عبدالعزیز ،مہاراجہ پٹیالہ کا ذاتی معالج تھا۔ ایک روز مہاراجہ نے اسے محل میں بلوایا اور کہا کہ پٹیالہ میں برہنہ مسلمان عورتوںکا ایک جلوس نکالا جانے والا ہے ۔ تم میرے ساتھ بیٹھ کر یہ جلوس دیکھو۔ ڈاکٹر نے کہا حکمران رعایا کا باپ ہوتا ہے ، آپ کو اپنی رعایا پر ایسا ظلم نہیں کر نا چاہئے ۔ اس پر مہاراجہ اتنا بر ہم ہوا کہ اس نے ڈاکٹر عبدالعزیز کو ایک ستون کے ساتھ بندھوا کر خنجر سے اس کی آنکھیں نکلوا دیں اور بڑی بے رحمی سے قتل کروا دیا اورپھر ٹریکٹر بھیج کر اس کے گھر کو مسمار کروا دیا۔ گھر میں جتنے لوگ تھے وہ سب ٹریکٹروں کے نیچے آکر پس گئے ۔
بعد ازاں مہاراجہ پٹیالہ کے حکم سے ریاست کے ہزاروں مسلمانوں کو گرفتار کر کے قلعہ بہادر گڑھ پہنچا دیا گیا۔ یہاں تمام مرد قتل کر دیئے گئے اور عورتیں غنڈوں کے حوالے کر دی گئیں۔ انگریز راج کے آخری دنوں میں ہندوستان میں تعینات ایک فوجی افسر لیفٹیننٹ جنرل سر فرانسس ٹکر اپنی کتاب.... While Memory Serves ....میں لکھتا ہے:”ہندو اورسکھ سمجھتے تھے کہ اُنہیں مسلمانوں کو قتل کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی ہے۔ مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا جارہاتھا۔مہاسبھااور اُس کے پالتو سیوک سنگھی دن رات مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے تھے ۔ دہلی میں ولبھ بھائی پٹیل ببانگ ِ دُہل پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ مشرقی پنجاب میں اُس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا، جب تک وہاں ایک بھی مسلمان موجود ہے“ ۔نوجوان دوستو! اگریہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی آپ یہی سمجھتے ہیں کہ پاکستان غلط بنا تھا اور یہ کہ ہمیں دوبارہ ہندوستان کے ساتھ مل جانا چاہیے تو دل پر ہاتھ رکھ کر ایک واقعہ اور سن لیں:”فیروزپور سے ستمبر 1947 میں دو ہزار سات سو مسلمان مہاجرین کا قافلہ ایک مہاجر کیمپ میں آکر ٹھہرا، مگر اے پاکستان کے مسلمانو ! اپنی نگاہیں نیچی رکھو، ان کی طرف نگاہ اٹھا کر مت دیکھو۔ ان کے جسموں پر کپڑے نا م کی ایک دھجی بھی نہیں ہے۔ اس قافلے کے تمام مرد و عورت بالکل برہنہ ہیں، بھارتی فوج اور سکھوں نے ان کے کپڑے تک اُتروالئے ہیں.... (بحوالہ:خون ِ مسلم ازاں ہے.... مصنفہ ڈاکٹر سعید احمد ملک)
میرے دوستو! یہ ہے اُن حالات کی ایک ہلکی سی جھلک جن سے گزر کر مسلمانان ہند نے اپنے لئے یہ ملک پاکستان حاصل کیا تھا۔ (جاری ہے)

مزید :

کالم -