آزادئ صحافت کا کیا مطلب لینا چاہئے؟
کیا میڈیا کو صحافتی آزادی حاصل ہے؟ حاصل ہے تو کیا اس ’’صحافتیئ آزادی‘‘ کا ناجائز فائدہ تو نہیں اٹھایا جا رہا ؟ یہ اور اس جیسے اور بہت سارے سوال ہیں جو آزادئ صحافت کے حوالے سے اٹھتے ہیں۔ جن پر بحث کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ آزادئ صحافت کے بغیر نہ تو ریاست کی تشکیل مکمل ہوتی ہے اور نہ منزلوں کے راستے ہی تلاش کئے جا سکتے ہیں۔معاشرتی ناہمواری اِسی صحافتی آزادی کے طفیل دُور کی جا سکتی ہے۔ اس ’’آزادی‘‘ کے جتنے فائدے ہیں انہیں شاید گنوانا مشکل ہو، تاہم یہ کہنا نسبتاً زیادہ آسان ہے کہ کسی بھی مُلک میں آزادی صحافت کا ہونا بے حد ضروری ہے۔آزادئ صحافت پر ماضی میں بہت زیادہ بات ہوتی رہی ہے۔ حکومت سمیت صحافتی تنظیمیں بھی اس سلسلے میں کافی سرگرم رہیں۔ ضابطۂ اخلاق کی بھی بات ہوئی۔ حکومتی وزراء اور دیگر عہدیداران سمیت صحافتی تنظیموں کے نمائندے ایک میز پر بیٹھے۔ مشترکہ اعلامیے بھی جاری ہوئے، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔صحافت کو صحافتی آزادی ضرور حاصل ہونی چاہئے؟ لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ صحافتی آداب ہی کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔
جب سے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی بھرمار ہوئی ہے یہ رسم چل نکلی ہے کہ خبر جو بھی آئے اُسے بلا تصدیق شائع یا نشر کر دیا جائے۔ چاہے خبر غلط ہی کیوں نہ ہو اور اس کے کتنے ہی بُرے اثرات دوسروں پر کیوں نہ مرتب ہوتے ہوں۔ صحافت کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں کہ بِلا تصدیق کوئی خبر شائع یا نشر نہ کی جائے، لیکن اکثر اوقات ایسا ہوتا نہیں ہے۔ کوئی ’’خبر‘‘ ہاتھ لگ جائے، چاہے اُس میں کوئی صداقت ہو یا نہ ہو۔ خبر کسی افواہ کی صورت میں بھی کیوں نہ آئے، چاہے غیر موثر ذریعے سے ہاتھ لگی ہو، یعنی اس ’’خبر‘‘ کے ذرائع ایسے ہیں، جن سے ثابت نہ ہوتا ہو کہ یہ درست بھی ہو سکتی ہے۔ پھر بھی اس خبر کو شائع یا نشر کرنا کیا صحافتی آداب اور قواعد و ضوابط کے منافی نہیں اور کیا اس طرح کی خبر سے ’’آدابِ صحافت‘‘ کی نفی نہیں ہوتی؟
اس طرح کی صحافت کو ’’صحافتی آداب‘‘ سے موسوم کر دیا جائے اور اسے آزادی صحافت کا نام دے دیا جائے تو کیا ہم اس عظیم پیشۂ صحافت سے زیادتی یا روگردانی نہیں کریں گے؟ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کئی ایسی خبریں پیش کی جاتی ہیں، جن کے متن اور اسلوب ہی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اُس کی ’’صحت‘‘کیا ہو گی۔ اُس میں کوئی سچائی بھی ہے یا نہیں۔ جرم کی دنیا میں دیکھیں تو روز بہت سے واقعات پیش آتے ہیں، جن میں بیشتر سنگین نوعیت کے بھی ہوتے ہیں، لیکن واقعات کی تصدیق نہ ہونے کے باعث اکثر اوقات ایسی خبریں منظر عام پر آ جاتی ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، یعنی وقوعہ تو ہوا ہوتا ہے لیکن اُس سے جُڑے کئی واقعات تصدیق شدہ نہ ہونے کے باعث شائع یا پیش کر دئیے جاتے ہیں، جن سے گمراہ کن تصورات پیدا ہوتے ہیں۔ جو کسی طرح بھی آدابِ صحافت یا آزادئ صحافت سے مطابقت نہیں رکھتے۔
آزادی کا مطلب یہی ہونا چاہئے کہ کوئی بھی خبر دیتے ہوئے آپ پر کسی قسم کا دباؤ نہ ہو۔ آپ پوری آزادی اور کسی دباؤ یا خوف کے بغیر ہر وہ خبر دیں جو درست اور حقائق پر مبنی ہو، مگر اس ’’آزادی‘‘ کا ہرگزیہ مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ آپ سُنی سنائی باتوں کو جن میں کوئی سچائی یا حقیقت نہ ہو اپنی خبر کا موضوع بنائیں۔صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا گیا ہے۔ اس ستون کو بہت زیادہ مضبوط ہونا چاہئے۔ اس میں دراڑ پیدا ہو گی اور یہ ستون مضبوط نہیں ہو گا تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا۔ ریاست کا وجود خطرے میں پڑتا نظر آئے گا۔ جیسا کہ ماضی میں اس حوالے سے کام کا آغاز کیا گیا اور کافی کام ہوا بھی،لیکن یہ ’’کام‘‘ صرف میٹنگوں اور کاغذی کارروائیوں اور مشترکہ اعلامیوں تک ہی محدود رہا۔ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہم آزادئ صحافت کے ساتھ ’’آدابِ صحافت‘‘ کو بھی ملحوظِ خاطر رکھیں۔ صحافتی اداروں میں صحافتی ورکرز کی تربیت کا ایسا اہتمام و انتظام ہونا چاہیے کہ کوئی بھی صحافتی ورکر اپنی حدود سے تجاوز نہ کر سکے۔ اس پیشے کو جو عزت حاصل ہے اُس کا تقاضا ہے کہ ہم وہ تقاضے بھی پورے کریں، جس سے اس کی عزت میں مزید اضافہ ہو۔ صحافت یا صحافتی آداب و اسلوب کی بہر حال کچھ ترجیحات ہیں۔ ہمیں اس پر عمل کرنا چاہئے۔ تب ہم کہہ سکیں گے کہ ہم ’’آزادئ صحافت‘‘ کی تکمیل کر پائے ہیں اور اُن ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئے ہیں، جو اس باعزت اور بااحترام پیشے نے ہمیں بخشی ہیں۔