فکر اقبالؒ کی اساس (2)

Nov 29, 2016

پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد طاہر

یہ بات ایک ابہام ہے ۔اگر اہل عقل اہل علم نے کچھ لکھا یا کہا سب کچھ ظن و تخمین ہے۔ جس کی تفصیلات میں جانے کی ہمیں ضرورت ہے نہ اجازت۔ اس حوالے سے ہم ان علماء کی تائید کرتے ہیں جنہوں نے یہ کہہ کر بات کو سمیٹ دیا۔
’’ابھموا بماابھمہ اللہ‘‘
ترجمہ’’جس بات کو اللہ نے مبہم چھوڑ دیا ہم بھی اس کو مبہم چھوڑتے ہیں‘‘ ۔۔۔یہی کیفیت خود قرآ ن میں مذکور بعض متشابہ امور کی بھی ہے۔ جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ اقبالؒ ؒ نے اپنے والد کی نصیحت پر، غارِ حرا میں خلوت گزینی کے حوالے یا اتباع عمل رسول مکرم ﷺ کی وجہ سے قرآن پر خوب غوروفکر کرنا شروع کیا اور قرآن کے اسرار و رموز میں ڈوب کر قرآن مجید کو اپنی زندگی کی واردات بنا لیا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل پر قرآنی رموز کوخوب خوب وا کیا تو علامہ اقبال ؒ پکار اٹھے:
خلوت کی گھڑی گزری جلوت کی گھڑی آئی
چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش سحاب آخر
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر
اقبالؒ کا بیشتر کلام شعری ہے اسی لئے شاید یہ وہی دور ہے جب اقبالؒ نے قرآن کا معروضی حالات کے تناظر میں مطالعہ کیا اور محسوسات کو شعر کی زبان دی، جب ان کی تازہ فکر سامنے آئی تو ظاہر پسند لوگوں نے اقبالؒ کو ہدف تنقید بنایا اور مختلف قسم کے الزامات عائد کئے۔ اقبال ؒ نے ان الزامات کامقابلہ نہیں کیا،بلکہ صرف ایک شعر میں مسکت جواب دیا اور ساری بحث کو سمیٹ دیاجو اطراف سے آرہی تھی فرمایا:
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لئے
کہ یک زباں ہیں فقیہان شہر مرے خلاف
اقبال ؒ کومادی سوچ میں گھرے دنیا والوں نے بس ایک شاعرہی کی حیثیت سے جانا اور شاعر ہی کی حیثیت سے پہچاننے کی کوشش کی۔ اقبال ؒ کو جب لوگوں کی اس کوتاہ فکری کا احساس ہوا تو حضور رسالت مآبؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوا،روضہ رسول تک ان کی یہ پرواز تخیلاتی تھی، لیکن تخیلاتی پرواز کے ذریعے اپنے دل کی بات کہہ ڈالی۔
با آں رازے کہ گفتم پے نبردند
زِشاخِ نخل من خُرما نخورند
من اے میر امم داد از تو می خواہم
مرا یاراں غزل خوانے شمردند
اے اقوام عالم کے امیر میں آپ سے داد کا طالب ہوں ۔ لوگوں نے تو مجھے صرف غزل خواں ہی سمجھا ہے۔ اقبال ؒ کا کلام دو نوں زبانوں میں ہے۔ ایک اردو میں دوسرے فارسی میں۔دو زبانوں میں اس کے کلام کا جائزہ لیں تو بات واضح ہوتی ہے کہ اقبال ؒ کی فکر کی اصلیت فارسی اشعار میں زیادہ کھلتی ہے۔ اگرچہ اردو کلام بھی آپ کی فکر کا امین ہے ،تاہم اقبال ؒ کی اصلیت کو جاننے اور پہچاننے کے لئے اردو کے علاوہ اس کے فارسی کلام کو سمجھنا ازبس ضروری ہے۔فارسی بغیر اقبالؒ فہمی کا دعویٰ عبث ہے۔ صرف اردو کلام کو پڑھنا،بلکہ اردو میں بھی چند مشہور نظموں کو پڑھ کر اقبالؒ ؒ کی فکر تک رسائی کا دعوے دار ہونا برسبیل غلط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض کوتاہ فکر لوگوں نے اس کی سوچ کے ڈانڈے دنیا میں اٹھنے والی نئی تحریک اشتراکیت سے ملانے کی ان تھک کوشش کی، لیکن اپنی اس کوشش میں ان کو سفر لاحاصل کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ اور اقبالؒ کی فکر کے مطابق یہ تحریک مٹ کر رہ گئی۔بعض کوتاہ فکر اس کی سوچ کے ڈانڈے کمیونزم اور سوشلزم سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ اس کے لئے تائید علامہ اقبال ؒ کی نظم خضر راہ سے لاتے ہیں ان کو اس طویل نظم سے صرف ایک شعر ملا۔
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
جب بالشویک تحریک اپنے عروج پر تھی، اقبالؒ نے اسی وقت اس کا زوال پڑھ لیا تھا۔ انہیں یہ احساس ہو چکا تھاکہ یہ نظریہ مٹے گا مٹ کر رہے گا اسی لئے اقبالؒ ؒ نے اس کے دور عروج میں اس کی نشاندہی کر دی۔ فرماتے ہیں:
کھول آنکھ زمین دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ
ایام جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ
اسی طرح پیام مشرق کی بعض نظموں سے بھی ایسے یا اس سے ملتے جلتے اشعار سے اپنے نظریہ کی تائید تلاش کرتے ،بلکہ ایک اشتراکی نظریات کے حامل صحافی کامریڈ نے تو یہ تک لکھا:
’’سر اقبالؒ کی خضر راہ اور پیام مشرق کی نظموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبالؒ ؒ یقیناًایک اشتراکی ہی نہیں، بلکہ اشتراکیت کے مبلغ اعلیٰ ہیں۔‘‘(روزنامہ زمیندار 23جون1923ء) اقبال ؒ کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے فوراً اس بات کا نوٹس لیا اور مدیر زمیندار کو مراسلہ لکھا اورا س بات کی تردید کی جس میں واضح طور پر لکھا کہ بالشویک خیالات رکھنا دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے مترادف ہے ۔ اور مزید یہ بھی فرمایا کہ سرمایہ داری اور بالشویک نظریات افراط اور تفریط کا نتیجہ ہیں اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن نے ہمیں بتائی ہے۔۔۔ (خطوط اقبال ؒ ،ص155-156)۔
اقبال ؒ کی شاعری کے مختلف ادوار ہیں۔ ایک دور وہ ہے جس میں وہ گل و بلبل،عارض ورخسار،گوشۂ چشم،کمان ابرد، چشم رعنائی دل ربائی کے تذکروں سے لذت لیتے اور دیتے ہیں۔ اس دور میں وہ اپنے ہم عصر شاعروں کے ہم نوا ہیں، لیکن جوں ہی ان کی فکر ارتقائی منزل کی طرف بڑھتی ہے تو وہ عارض و رخسار کی تعریف سے نکلتے اور قدرت کی صناعی میں اصل حسن تلاش کرلیتے ہیں، پھر ان کے کلام میں اسلامی فکر اور قرآنی ترجمانی کا عنصر غالب سے غالب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔(جاری ہے)


حسن حقیقی اور قرآنی فکر کا تغلب ہی تھا جس کی جہ سے اقبالؒ کو اپنے پہلے دور اور پہلے دور کے اشعار سے دلچسپی کم ہونے لگتی ہے۔ اسی دور کے حوالے سے وہ اپنے ایک کالج کے دوست غلام بھیک نیرنگ سے برملا اپنے بعض اشعار کو جلا کر خاک کر دینا چاہتا ہوں، لیکن جب وہ اپنی پوری فکر کا محور قرآن کو بناتا ہے تو ان کا اصلی داخلی شعور پوری طرح بیدار ہوتا ہے اور اس کی شاعری بام عروج کو پہنچتی ہے۔ اور پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
ان کی نظر صحرا کے کھلتے پھولوں پر پڑتی ہے تو پکار اٹھتے ہیں:
پھول ہیں صحرا میں، یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرھن
حسن بے پروا کو اپنی بے حجابی کے لئے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن
اقبالؒ کی اسی کیفیت کے پیش نظر عالمی رابطہ ادب اسلامی کے بانی عظیم مفکر مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ فرماتے ہیں کہ پورے برصغیر میں صرف ایک ہی شخص ایسا ہے کہ مغربی ماحول میں رہنے کے باوجود اپنے دامن کو بچا کر واپس وطن آیااور مغربی فکر و فلسفے کا سب سے بڑا نقاد ثابت ہوا۔علامہ یورپ گئے یورپ میں رہے۔ یورپی تہذیب کا ڈوب کر مطالعہ کیا۔ نتیجے کے طور پر یہ خبر لے کر وطن لوٹے اور اہل وطن کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا:
مأ خانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اوّل دیتے ہیں شراب آخر
قرآن، اقبال ؒ کی زندگی کا حصہ تھا۔اقبال ؒ کو فکری اعتبار سے جو کچھ ملا وہ سب کچھ قرآن ہی کی عطا تھی۔ اقبال ؒ کے فکر کی جولانی فارسی زبان میں بام عروج کو چھوتی ہے۔اسی لئے وہ فارسی میں اپنا مافی الضمیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
گر دلم آئینہ بے جوہر است
ور بحر فم غیر قرآں مضمر است
پردہ ناموس فکرم چاک کن
ایں خیاباں را زخارم پاک کن
اگر میرے دل کا آئینہ جوہروں سے خالی ہے اگر میرے اشعا ر میں اور میرے کلام میں قرآن مجید کے علاوہ کچھ ہے تو آپ میری فکر کی عزت و حرمت کا پردہ چاک کر دیجئے اور ایسا انتظام فرمائیے کہ میرے کانٹوں سے پھولوں کی یہ کیاری پاک ہو جائے۔ یہ ایک ایسی دعا ہے کہ جس کی جسارت اور جرأت شاید اقبال ؒ کے سوا کوئی دوسرا کر ہی نہیں سکتا:
تنگ کن رخت حیات اندر برم
اہل ملت را نگہدار از شرم
روزِ محشر خوارو رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسہ پا کن مرا
زندگی کا لباس میرے جسم پر تنگ کر دیجئے، ملت کو میری برائیوں ،خرابیوں سے بچائے رکھئیے اور روزِمحشرمجھے ذلیل و رسوا کر دینا، بلکہ مجھے اپنی قدم بوسی کی سعادت سے بھی محروم کر دینا۔ اقبالؒ پسند اور اقبالؒ شناس حضرات نے اقبال ؒ کے حوالے سے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اقبالؒ ؒ زندگی کے آخری ایام میں اس بات کی خواہش رکھتے تھے کہ وہ قرآن مجید کی شرح اور تفسیر لکھیں، لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔ ان کا یہ علمی منصوبہ تشنہ تکمیل رہ گیا۔ فرزند اقبالؒ نے اس حوالے سے ایک مسبوط مضمون بھی قلم بند کیا ہے۔ جس کا عنوان علامہ اقبال ؒ کے ادھورے منصوبے ہے۔ یہ مضمون انہوں نے بہت سی علمی مجالس میں مقالے کی صورت میں پیش بھی کیا۔ ملک کے معروف اقبالؒ شناس دانشور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اس بارے میں مزید تفصیل بھی دی ہے۔ ا ن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہ منصوبہ علامہ اقبال ؒ کے قلم سے پورا ہو جاتا تو ان کی اس تفسیر سے قرآنی رموز بہت وا ہوتے اور یہ تفسیر عالم اسلام کے لئے روشنی کے بہت سے مستور گوشوں کو مزید روشنی دیتی، لیکن قضا وقدر کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی غارِ حرا میں خلوت گزینی کے تتبع میں علامہ اقبال ؒ بھی قرآن مجید کے اسرار و رموز پر برسوں غور وفکر کرتے رہے، تاکہ قرآن مجید کے مخفی علوم اللہ تعالیٰ ان کے دل پر منکشف کر دے۔ و ہ اپنے ایک خط بنام مولانا گرامی میں لکھتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے قرآن شریف کامخفی علم مجھ کو عطا کیا ہے۔ مَیں نے پندرہ سال تک قرآن پڑھا ہے اور بعض آیتوں اور سورتوں پر مہینوں، بلکہ برسوں غور کیا ہے اور اتنے طویل عرصے کے بعد مندرجہ بالا نتیجہ پر پہنچاہوں۔
قرآنی اکتشافات کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں: ’’مضامین دریا کی طرح امڈے آرہے ہیں اور حیران ہو رہا ہوں کہ کس کس کو نوٹ کروں اس حصے کا مضمون ہو گا’’حیات مستقبلہ اسلامیہ‘‘یعنی قرآن شریعت سے مسلمانوں کو آئندہ تاریخ پر کیا روشنی پڑتی ہے اور جماعت اسلامیہ، جس کی تاسیس دعوت ابراہیمیؑ سے شروع ہوئی، کیا کیا واقعات و حوادث آئندہ صدیوں میں دیکھنے والی ہے اور بالآخر ان سب واقعات کا مقصود و غایت کیا ہے۔ میری سمجھ اور علم میں یہ بات قرآن شریف میں موجود ہے اور استدلال ایسا صاف اور واضح ہے کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تاویل سے کام لیا گیا ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے قرآن شریف کا مخفی علم مجھ کو عطا کیاہے۔
(اقبال ؒ بنام مولانا گرامی یکم جولائی)
قرآن مجید کی تفسیر لکھنے کا ارادہ تشنۂ تکمیل رہا اپنی اس آرزو کا اظہار انہوں نے سر راس مسعود کو اپنے مکتوب میں کیا۔ جو انہوں نے 30مئی 1935ء میں لکھا،فرماتے ہیں:’’چراغ سحر ہوں ،بجھا چاہتا ہوں،‘‘تمنا ہے کہ مرنے سے قبل قرآن حکیم سے متعلق اپنے افکار قلم بند کر جاؤں جو تھوڑی سی ہمت و طاقت ابھی مجھ میں باقی ہے اسے اسی خدمت کے لئے وقف کر دینا چاہتا ہوں،تاکہ(قیامت کے دن)آپ کے جد امجد (حضور نبی کریم ﷺ)کی زیارت مجھے اس اطمینان خاطر کے ساتھ میسر ہو کہ اس عظیم الشان دین جس کو حضور اکرم ﷺ نے ہم تک پہنچایا، مَیں کوئی خدمت بجا لایا۔ (مکتوب اقبالؒ بنام سر راس مسعود،30مئی 1935ء)
اقبال ؒ کے نزدیک مسلمان قوم کا عروج قرآن سے وابستہ ہے اور ان کا زوال بھی قرآن ہی سے وابستہ ہے۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
علامہ کا یہ خیال بھی قرآن ہی سے مقتبس ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے:
’’یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّیَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا‘‘
علامہ نے مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ہے:
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
میں اپنی ان گزارشات کو دوبارہ علامہ مرحوم کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں:
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر

مزیدخبریں