نیا چیف ،نئی توقعات اور نئی اصلاحات
نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی نے جہاں تمام بحث مباحثوں کا خاتمہ کیا، وہیں امیدوں کے نئے در بھی وا کر دیئے۔ درپیش چیلنج آپریشن ضرب عضب کو پوری جُزیات سے مکمل کرنا ہوگا ۔ایک اور ویٹو پاورز کا’’سی پیک‘‘ کا حصہ بننے کی صورت میں ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان کا آغاز ہو چکا ہے۔یاد رہے اس تجارتی روٹ کی بے پناہ افادیت کی بدولت لیفٹ اور رائٹ بلاک اختلافات کو پس پشت ڈال کر مشترکہ تجارتی مقاصد کی خاطر اکٹھے ہو رہے ہیں۔آنے والے ماہ و سال میں پاکستان دنیا بھر کے اہم تجارتی اداروں کی سرگرمیوں کا مرکز بننے جا رہا ہے اور منافع کا پرائم بینیفشری بھی ہوگا، تاہم اب چیلنج یہ ہے کہ کیا امریکہ، اسرائیل، بھارت اور چند عرب ممالک اس روٹ کو کامیابی سے چلنے دیں گے؟اگرچہ پاکستانی فوج نے بڑے قلیل عرصے میں ریاست مخالف گروہوں کا خاتمہ کیاہے۔ لیکن خطرات بدستور موجود ہیں۔ ضرب عضب میں حتمی کامیابی اسی وقت ممکن ہوگی جب آپریشن کامنشور اور دائرہ کار عام گلی محلوں تک بھی پھیلا دیا جائے گا۔
ذرا ماضی میں نظر دوڑائیے اور دیکھئے طالبان نے کس ذہانت سے پتے کھیلے ۔ریاستی طاقت کے استعمال سے قبل نہ انہوں نے ہتھیار پھینکے، نہ ہی علاقائی عملداری سے دستبرداری کا ارادہ ظاہر کیا۔ طالبان کے پشت پناہوں کی دلیری اور پاکستان کی ریاستی کمزوری کا گہرا تعلق رہا۔ پرویز مشرف کے عجلتی اقدامات کی بدولت طالبان فلاسفی قبائلی علاقوں سے پوش علاقوں تک پہنچی۔ اسی دور میں طالبان نے physically اہم شہروں میں اپنے نیٹ ورک قائم کرنا شروع کئے۔ بعدازاں ایک وقت ایسا بھی آیا جب زرداری ، گیلانی کرپشن سے ستائے عوام نے طالبان سے امیدیں باندھ لیں۔ درحقیقت اگر طالبان بے دردی سے خودکش حملوں میں ملوث نہ ہوتے اور نہ ہی ببانگ دہل ذمہ داری قبول کرتے تو شاید پاکستانی عوام کی اکثریت انہیں اپنا ہیر و قرار دے ڈالتی۔ بلا کم و کاست پاکستان تاریخ کے نازک نہیں،بلکہ خوفناک ترین دور سے گذراہے۔ کل کے پاکستان میں عقائد تیز ہواؤں کی لپیٹ میں آئے، جبکہ عقیدت مندوں نے ایک دوسرے پر نظریں جمائیں ۔ کسی کی بھی خواہش نہیں تھی پل بھر کو ہی آنکھ جھپکے۔ قتل و غارت سے سبھی تنگ تھے، لیکن آگے بڑھنے سے ہر کوئی کترا بھی رہا تھا۔ ایک طرف دلیل سے عاری سخت گیر تھے، دوسری طرف وہ بوریا نشین جنہوں نے صوفی ازم کو ’’ چراغ کے جن‘‘ کا روپ دے رکھا تھا ۔بظاہرپاکستان فی الوقت طالبانائزیشن سے بچ نکلا ہے ،لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترقی کی طرف مائل معاشرے میں بھلے چند فیصد لوگ ہی سہی ،طالبان کی طرف کیوں جھکے تھے؟ کہیں یوں تو نہیں کہ لوگ روایتی مذہبی ، سیاسی جماعتوں سے متنفر ہونا شروع ہو چکے تھے۔ کہیں اس جھکاؤ کی ذمہ داری مذہب پرستوں اور سیاسی قائدین پر تو عائد نہیں ہوتی تھی ؟ طالبان نے پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا۔
یہ کمزوریاں کیا تھیں؟ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جنگ، باہمی کدورتیں اور ریاستی جبر کے شکار عوام کی خاطر جدوجہد فقط الفاظ تک محدود۔ طالبان نے پرکھا ،کیا مذہب پرستوں میں حقیقتاً کوئی ایسی قیادت موجود ہے جو اپنے منشور کے گھوڑے کوسچائی کی پگڈنڈی پر سرپٹ دوڑا سکے؟ جومذہب کے اس رخ کو دکھلا سکے جہاں انسانیت کوانصاف کے ہم وزن پلڑے میں تولا گیا ہے؟ جہاں رزق کی تقسیم کے فارمولے میں جھوٹ، بددیانتی، کاہلی سے پرہیز کو معاشی بہتری سے نتھی کر دیا گیا ہے۔ جہاں عارضی تعلق میں لپٹے انسان کی ہتھیلی پر دوسروں کے حقوق کی لکیریں ابھار دی گئی ہیں۔جہاں عقائد کی شفافیت کو توہمات کی ظلمتوں سے نجات دلوا دی گئی ہے۔ جہاں اَن دیکھے خوف کے صدیوں پرانے الاؤ کو یقین کی بدولت سفید ستاروں سی ٹھنڈک عطاء کر دی گئی ہے۔ جہاں زمین کے وارث کو سورج، پہاڑوں ، سمندروں جیسے دیوتاؤں کے معبد سے نجات دلوا کر ’’عمل اور جزا‘‘ جیسی آسان تھیوری متعارف کروا دی گئی ہے۔ جہاں خوشحالی کی مٹھاس کو محنت کے بیج سے مربوط کرکے بلا رنگ و نسل ، مذہبی امتیاز چاروں طرف بکھیر دیا گیا ہے۔ جہاں قومی وحدت، تشخص اور فخر کو یکجائی کی لڑی سے مشروط کر دیا گیا ہے۔۔۔؟طالبان کو اپنے فہم کے مطابق پاکستان میں ایسا کچھ بھی نظر نہ آیا۔ وہ آپس میں بیٹھے اور فیصلہ کرکے اٹھے کہ پاکستان میں سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔
طالبان نے سب سے پہلے افغانستان میں تبدیلی کے گھوڑے پر سواری کی۔ وہاں معاشرتی تبدیلی نظر بھی آئی، امن قائم ہوا،نو گو ایریاز میں تجارتی سرگرمیاں ممکن ہوسکیں، آجر ، اجیر کے صدیوں پرانے فارمولے کی جگہ مالک، مزدور پارٹنر شپ کے تصور کو پروموٹ کیا گیا۔افغانستانی معاشرت کی حد تک طالبان کی فلاسفی درست تھی، لیکن پاکستان کے کلچرل بیک گراؤنڈ میں اس کی گنجائش نہیں تھی۔ پاکستانی مدارس میں طالبان کے نام پر تقسیم بھی نمودار ہوئی۔ ادھیڑ عمر اساتذہ طالبان
کو ایک خاص حد سے زیادہ سراہنے پر تیار نہیں تھے، جبکہ نوجوان طالبعلم انہیں آئیڈیلائز کر رہے تھے۔ پاکستانی مدارس مصر، سعودی عرب کے مقابلے میں قطعا أپ گریڈ نہیں تھے۔ اسی أپ گریڈیشن میں کوتاہی کی بدولت پاکستانی مذہبی رہنما معاشرے میں حاصل شدہ طاقت سے دن بدن محروم بھی ہوئے۔ گذشتہ ستر سال سے پاکستان کے مذہبی رہنماؤں نے دین کے نام پر دلوں میں رنجشیں پالنے والوں کو اعتدال کی مسحور وادیوں کی قدم بوسی سے محروم رکھا۔ خوابوں کی تعبیروں میں الجھے انسانوں کو عمل کی راہوں پر گامزن کر نے میں ناکامی حاصل کی۔ قدم قدم پر خیمہ ز ن مخبوط الحواس روحانیت کے دعوے داروں کو معاشرے میں اَن دیکھا خوف پھیلانے سے باز نہ رکھا۔ گمشدہ چیزوں کی بازیابی اور موکلوں پر قبضے کی داستانیں بکھیرتے زر پرستوں کو معجزاتی شخصیات کے درجے پر بدستور فائز کیا جاتا رہا۔یوں دن کے اختتام پر عوام کی کثیر تعداد کنفیوز ہوگئی اور اس بات کی بھی قائل ہوگئی کہ پاکستانی مذہبی رہنما تقریر تو اچھی کر لیتے ہیں ،لیکن تعبیر کے واضح روڈ میپ سے عاری ہیں۔
اکثر مذہبی جماعتیں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے نظریے سے محروم تھیں؟ حقیقی اسلامک سکالرز کی عدم موجودگی کی وجہ سے برصغیر کے مسلمان ٹرین کے انجن کو دجال کی آنکھ سمجھتے ہوئے ڈبوں پر سنگ ریزی کرتے رہے۔ لاؤڈ اسپیکر، انتقال خون پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔ تصویر کھنچوانے، چاند پر چہل قدمی کو خدائی احکامات کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا گیا۔ دنیا کی مشترکہ جائیداد’’چاند، قطب شمالی اور سمندری تہہ‘‘ سے اپنے حصے سے محرومی پر لبوں کو تالے لگائے گئے ۔ برصغیر کا مسلم کلچر سکالر پیدا کرنے کی بجائے گئے وقتوں کی تشریحات کے ماہرین کی کھوج میں الجھ گیا۔ اسی کلچر کی بدولت محلے کی مسجد میں تقریر کرنے والا عالم کے درجے پر فائز ہوا ۔ جوش خطابت میں مہارت رکھنے والوں نے بڑے شہروں کے پوش علاقوں کی مساجد کو مسکن بنایا۔ امام، دین کی خدمت کی خاطر فنانسر ڈھونڈنے میں مشغول ہو ئے۔ تعلیمات کے پھیلاؤ کے واسطے قرآن ، حدیث سے ہٹ کر روایات پر مبنی’’ اسلامک فیس ‘‘متعارف کروایا گیا۔ مدرسوں کی فرنچائز کی صورت میں شہروں ، قصبوں میں نیٹ ورک قائم کئے گئے۔ انہیں چلانے کے لئے عرب ممالک کی پراکسیز میں بالواسطہ حصہ داری ڈالی گئی۔ اندرون ملک تعمیر و توسیع کے نام پر سوال دراز کئے گئے۔تحریرو تقریر کے ذریعے نیٹ ورک گھروں اور دفاتر تک پھیلائے گئے۔ قربانی کی کھالوں، تہواروں، ویلفیئرز کی آڑ میں پیسہ اکٹھا ہوا۔ خطابات پر مبنی کیسٹوں کے ذریعے دیہات تک رسائی حاصل کی گئی اور آخری قدم کے طور ریاستی مشینری میں حصہ وصول کرنے کی خاطر سیاسی جماعت کا اعلان بھی کر دیا گیا۔
’’ سسکتی انسانیت‘‘ کو راہ دکھلانے کی خاطر ہر پانچ ، دس سال بعد ایک نیا مذہبی رہنما منظر عام پر آرہا ہے۔ ہر آنے والا قومی تشخص کو تاراج کرتے ہوئے مخصوص لباس و عقائد متعارف کروارہا ہے۔ غربت، جہالت کا عفریت قلیل عرصے میں ہزاروں پیروکار بھی فراہم کر رہاہے۔ یوں ریاست کو خبر بھی نہیں ہو پاتی کہ عبادت کے نام پر مستقبل کے کس لائحہ عمل کو طے کیا جا رہا ہے اور تخت ہوا پر سوار’’ دین کی نئی تشریح‘‘ کس سرعت سے دنیا کے دوسرے ممالک تک پہنچ رہی ہے؟ جب خبر ہوتی ہے تو ریاست کو مجرموں کی صورت میں دنیاکے سامنے جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔چھوٹی سی فیکٹری قائم ہو تو درجن بھر سرکاری ادارے مختلف فارم پکڑے آوارد ہوتے ہیں۔ مالک کے بینک اکاؤنٹ سے لے کر بچوں کے سکولوں اور غیرملکی سفر تک کا ریکارڈ مانگا جاتا ہے، جبکہ خدائی احکامات کی صحیح ترویج جیسے شعبے کو لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مدارس ومساجد کی اکثریت فلاح کا راستہ دکھاتے ہیں۔ اس شعبے کو نظر انداز کرنے کا مطلب ان فیکٹرز کو جگہ فراہم کرنا ہے جو مسلکی جنگ میں برادر اسلامی ملکوں کی خاطر پاکستانی معاشرے کو تختہ مشق بنا رہے ہیں۔ اب ضرب عضب کو فیصلہ کن بنانے کے لئے نئے آرمی چیف کو بھی ان اقدامات کے بارے میں سوچنا ہوگا جو پہلے کوئی نہیں کر سکا ۔وہ یقین رکھیں کہ مدارس اور مساجد کی اکثریت مثبت تجاویز پر بڑھ چڑھ کر عمل کرے گی۔ یہاں سول حکومت کو بھی پوری طرح شامل کرنا پڑے گا۔ مذہبی تعلیم، دنیاوی تعلیم اور ہنرمند عالم کی معاشرے کو فراہمی بنیادی نکتہ ہونا چائیے۔ دور دراز دیہاتوں میں بستا طالبعلم جب مدرسے سے فارغ ہو تو وہ ہنر ساتھ لے کر واپس جائے۔ یوں نہ ہو وہ باہر جا کر پیر بن جائے یا اپنی مسجد قائم کر لے یا مدرسے کے نام پر لوگوں سے سیمنٹ، اینتیں مانگتا پھرے۔
کروڑوں افراد پر مشتمل معاشرے کے لئے واحد اور پائیدار امید سی پیک کی صورت میں نمودار ہو چکی ہے، لیکن اگر اناؤں، گروپ بندیوں، تعصبات اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کی روش ترک نہ ہوئی، مدارس و مساجد کو عزت و احترام کے ساتھ نیٹ ورک میں نہ لایا گیا تو طالبان و اینٹی طالبان فلاسفی کسی بھی وقت دوبارہ انگڑائی لے سکتی ہے۔ طالبان انتہا کے شدت پسند اور اینٹی طالبان انتہا کے رومان پرست ہیں۔ ایک سختی سے اپنے نظریے ، مسلکی برتری کی خاطر روپیہ مانگتا ہے اور دوسرا حلوے ، کھیر جیسی ملائمت کی صورت میں ہاتھ دراز کرتا ہے۔ کروڑوں عام افراد کو منحوس اور ایمان کو داؤ پر لگاتی غربت سے نجات دلوانے کی خاطر ان دونوں انتہاؤں سے ہر حال میں گریز کرنا پڑے گا۔ یہ دونوں فریق ہر قسم کے حساب کتاب، آڈٹ، باز پرس سے آزاد ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اقدامات کون کرے گا؟ کیا حقیقی اسلامی تعلیمات کے نفاذ سے خائف سیاسی جماعتیں ؟ یا تبدیل شدہ اپروچ کی حامل اسٹیبلشمنٹ؟۔ ہمارے اردگرد تبدیلی کی ہوائیں چل پڑی ہیں۔ یہ تبدیلی سیاست، معیشت اور معاشرت تک ہی محدود نہیں رہے گی۔ خدشہ ہے آنے والے ماہ و سال میں عقائد کی جنگ دوبارہ بھڑکے گی۔ یہ جنگ کون بھڑکائے گا؟۔۔۔ وہی جن کی بندرگاہوں سے عالمی سرمایہ دار ہجرت کرکے گوادر کا رخ کر رہے ہیں۔