ریاست کا تیسرا ستون

ریاست کا تیسرا ستون
 ریاست کا تیسرا ستون

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ارے بھائی یہ تو سب مانتے ہیں کہ عزت ماب جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی ریاست کے تیسرے ستون یعنی عدلیہ کا ایک حصہ ہیں کہ ایک جمہوری ملک میں ریاست کے تین اہم ستون مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ہی ہوتے ہیں۔

فوج اور بیوروکریسی دونوں انتظامیہ کے ماتحت ادارے ہیں جبکہ موجودہ دور میں میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون اگرچہ کہا جاتا ہے لیکن میرے نزدیک وہ چوتھا ستون نہیں بلکہ اس کا رکھوالا (watchdog) ہے۔

جو بات مجھے سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ جب اسلام آباد کا دھرنا مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ کے ذریعہ ختم کرایا جا چکا ہے جس میں انتظامیہ نے اپنے ماتحت ایک ریاستی ادارے یعنی فوج کی مدد سے تین ہفتوں سے جاری ایک ڈیڈ لاک ختم کیا ہے تو جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیوں نا خوش ہیں۔

انہیں تو مطمئن ہونا چاہئے تھا کہ ان پر لادا گیا ایک بوجھ وزیر داخلہ احسن اقبال اور ماتحت انتظامی افسران نے خوش اسلوبی سے اتار دیا ہے۔ ملک جو تین ہفتوں سے یرغمال بنایا گیا تھا، وہ بھی رہا ہو گیا ہے۔

قوم کو مبارک ہو، عزت ماب جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو چاہئے کہ وہ بھی مبارک باد قبول کریں اور کروڑوں پاکستانیوں کی خوشی میں شامل ہو جائیں۔ ویسے بھی جب سے پانامہ کیس کا معاملہ چل رہا ہے ، پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کا خواب دیکھنے والے اور کوشش کرنے والے تمام لوگ جوڈیشل ایکٹوزم کی سوئی ہوئی حس کے دوبارہ جاگ جانے سے پریشان رہتے ہیں۔


جوڈیشل ایکٹوزم کا سادہ مطلب یہ ہے کہ ریاست کا ایک ستون یعنی عدلیہ باقی کے دو ستونوں یعنی مقننہ اور انتظامیہ کو اپنا ماتحت سمجھتے ہوئے اسے اپنے تئیں چلانے کی کوشش کرے۔ فیض آباد دھرنا کیسے ختم کرنا تھا، اس کا فیصلہ ، طریقہ کار اورٹائمنگ طے کرنا انتظامیہ کا دائرہ کار تھا۔

مسئلہ سے کیسے نمٹا جائے، مذاکرات کئے جائیں یا آپریشن، یہ فیصلہ بھی انتظامیہ کو ہی کرنا تھا۔ چونکہ یہ ایک حساس مسئلہ تھا اس لئے وزیر داخلہ احسن اقبال عجلت میں کوئی فیصلہ کئے بغیر ، اسے پوری ذمہ داری سے درست منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم کئے ہوئے تھے۔

ہونا بھی ایسا ہی تھا لیکن جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے جوڈیشل ایکٹوزم کی وجہ سے اسلام آباد کی مقامی انتظامیہ نے پولیس اور فرنٹیر کانسٹبلری کی مدد سے جو نیم دلانہ اور بغیر منصوبہ بندی کا آپریشن کیا، وہ نہ صرف بری طرح ناکام ہوا بلکہ اس میں دونوں اطراف کا جانی نقصان بھی ہوا۔

اس سے پہلے کہ حالات مزید خراب ہوتے اور یہ حساس مسئلہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا، وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے مل کر انتظامیہ اور اس کے ماتحت اداروں کے ذریعہ مذاکراتی عمل سے یہ مسئلہ حل کر لیا، مظاہرین نے مشروط طور پر دھرنا ختم کر دیا، دارالحکومت سمیت ملک کے تمام شہروں میں راستے کھول دئیے گئے اور لاک ڈاؤن ہوئے شہریوں نے سکھ کا سانس لیا۔

معاہدہ ہونے کے بعد عزت ماب جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بھی سکھ کا سانس لینا چاہئے تھا لیکن انہوں نے وزیر داخلہ کو پندرہ منٹ کے اندر عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ۔

لوگوں کا خیال تھا کہ عزت ماب جج صاحب وزیر داخلہ کو ایک سنگین بحران کو حل کرنے پر شاباش دیں گے لیکن وہاں تو ماحول ہی کچھ اور تھا۔


عزت ماب جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ریمارکس اپنی جگہ لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ آئین کی رو سے فوج سمیت تمام ادارے حکومت کی معاونت اور مدد کرنے کے پابند ہیں ۔ اس سارے قضیہ کی بڑی تصویر یہ ہے کہ ریاست کے ایک ستون انتظامیہ (the executive) نے اپنے ماتحت ادارے کی معاونت سے ایک سنجیدہ، اہم اور انتہائی حساس مسئلہ حل کیا ہے۔ جب ملک کی عدالتیں درست کام کر رہی ہوں تو جج نہیں بولتے بلکہ ان کے فیصلے بولتے ہیں۔

جب جوڈیشل ایکٹوزم کا ماحول بنا دیا جائے تو فیصلوں کی بجائے جج حضرات خود بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ پانامہ کیس کی شروعات سے ایسا ہی ہو رہا ہے جس میں انگریزی ناولوں اور بھارتی فلموں کے ڈائیلاگ بولے گئے۔

اب بھی وقت ہے کہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں پر عمل شروع کر دیا جائے ، یہ بنیادی اصول بہت موٹے موٹے ہیں اور سب کو معلوم بھی ہیں۔ کسے نہیں معلوم کہ جمہوری ریاست کے تینوں ستونوں یعنی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کو اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوتا ہے جس میں ماتحت ادارے ان کی معاونت کرتے ہیں۔ تینوں میں سے کوئی ستون کسی دوسرے کی حدود میں دخل اندازی نہیں کرتا اور کوئی ماتحت ادارہ معاونت کے رول سے تجاوز نہیں کرتا۔

جمہوری ملک میں بالادستی پارلیمان یعنی مقننہ کی ہوتی ہے کیونکہ آئین بھی وہی بناتی ہے اور اس میں ترامیم بھی وہی کرتی ہے۔ طے شدہ سیاسی یا آئینی معاملات کو خوامخواہ عدلیہ میں گھسیٹنا صریحاً غلط ہے اور جوڈیشل ایکٹوزم کو جنم دیتا ہے۔

اعلی عدلیہ کے ججوں کا کام مقدمات کے فیصلہ دینا ہے، قانون سازی اور ایگزیکٹو آرڈرز ان کی حدود سے باہر ہے۔
ریاست کو درست طریقہ سے چلانے کے لئے ریاست کے تینوں ستونوں کے درمیان توازن برقرار رکھنا بہت اہم ہے ورنہ کوئی اپنی حدود سے تجاوز کر سکتا ہے۔ مقننہ کو قانون سازی کرنے میں مکمل آزادی ہونی چاہئے اور اس پر کسی اور ادارے کی طرف سے کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہئے۔ انتظامیہ ملک چلانے کے لئے فیصلوں میں خود مختار ہونی چاہئے اور اس پر بھی کسی اور ادارے کا دباؤ نہیں ہونا چاہئے۔ اسی طرح عدلیہ پر بھی کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہئے اور وہ پوری آزادی سے فیصلے دے، نہ کہیں سے کوئی دباؤ ہو، نہ ہی نظریہ ضرورت ہو اور نہ وہ جوڈیشل ایکٹوزم کا مظاہرہ کرے۔ یہ ہیں وہ بنیادی اصول جن پر ایک جمہوری ریاست کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔

اللہ تعالی کے فضل سے تحریک لبیک کا دھرنا ختم ہو چکا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ دونوں اطراف کی طرف سے کئے گئے معاہدہ پر نیک نیتی سے عمل کیا جائے گا تاکہ آئندہ اس طرح کا کوئی بحران جنم نہ لے۔ پاکستان کی ریاست اور سیاست دونوں بہت سخت جان ہیں، بحرانوں سے گذر کر آگے کی سمت میں سفر جاری رکھتے ہیں اور پیچھے مڑ کر دیکھنے میں وقت ضائع نہیں کرتے۔

اب بھی ایسا ہی ہو گا، کچھ لوگ بحرانوں کے دوران توقع لگا لیتے ہیں کہ حکومت گر جائے تو کسی چور دروازے سے انہیں اندر گھسنے کا موقع مل جائے، لیکن اب ایسا نہیں ہوتا اور نہ آئندہ ہو گا کیونکہ بہت سے بحرانوں کو شکست دے کر پاکستانی قوم اور ریاست بہت مضبوط ہو چکی ہیں۔

پاکستانی ریاست کے دو ستون مقننہ اور انتظامیہ اور ان کے ماتحت ادارے فوج اور بیوروکریسی اپنا اپنا کام کر رہے ہیں جبکہ انتہائی مستعد میڈیا ایک ایک چیز پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ یہ جو کبھی جوڈیشل ایکٹوزم کا مظاہرہ ہوتا ہے، مجھے امید ہے کہ جلدی وقت آنے والا ہے کہ ریاست کا تیسرا ستون بھی سمجھ جائے گا کہ اپنی حدود میں کام کرنے میں ہی ریاست کی بھلائی ہے۔


مزید :

کالم -