رشوت، بدعنوانی اور اس کا سدِ باب (2)

رشوت، بدعنوانی اور اس کا سدِ باب (2)
رشوت، بدعنوانی اور اس کا سدِ باب (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں رشوت ستانی اور بدعنوانی میں مستعمل رقم دس کھرب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے۔ دیگر ممالک کی طرح ہمارے ملک پاکستان میں بھی رشوت ستانی اور بدعنوانی کے انسداد کے لئے ادارے اور قوانین موجود ہیں جن میں وفاقی سطح پر ایف آئی اے (وفاقی تحقیقاتی ادارہ قائم شدہ 1975ء) ، نیشنل اکاؤنٹیبلٹی بیورو NAB (قومی احتساب بیوروقائم شدہ1999ء) ، احتساب عدالتیں، صوبائی سطح پر انٹی کرپشن (محکمہ انسداد رشوت ستانی)، وفاقی و صوبائی محتسب 1983ء میں صدارتی حکم نمبر 1 کے تحت قائم کیا گیا۔

ملک میں آڈیٹر جنرل پاکستان کا محکمہ بھی ہے جو قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی مدد سے حکومتی اخراجات کا آڈٹ کرتا ہے، آڈیٹر جنرل کو صرف سپریم کورٹ ہی برطرف کرنے کی مجاز ہے۔ رشوت ستانی اور بدعنوانی کو ہر معاشرے میں سنگین جرائم قرار دیا گیا ہے۔

ان جرائم کی سزائیں موجود ہیں مگر بااثر لوگ سزاؤں سے بچ جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کرپشن کی روک تھام کے لئے قائم ایک سے زیادہ ایجنسیوں کی موجودگی میں ہمارا ملک ایک سرے سے دوسرے سرے تک کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے۔


تعزیرات پاکستان کی دفعہ 171-E میں رشوت ستانی کی سزا مقرر ہے جو اس طرح ہے:۔ جو کوئی رشوت ستانی کے جُرم کا ارتکاب کرے، اسے دونوں اقسام میں سے کسی ایک قسم کی سزا دی جائے گی جس کی معیاد ایک سال تک ہوسکتی ہے یا جرمانہ یا دونوں سزائیں خاطر مدارت سے مراد رشوت کی وہ صورت ہے جہاں معاوضہ خوراک، مشروبات، تفریح یا دیگر اشیائے خورد و نوش پر مشتمل ہو۔ ضابطہ:۔

ناقابلِ دست اندازی ، سمن قابلِ ضمانت، ناقابلِ راضی نامہ، قابل سماعت مجسٹریٹ درجہ اول ۔ دفعہ ہذا کے تحت کاروائی کے لئے استغاثہ ضروری ہے۔ تعزیرات پاکستان میں دفعہ 161 تا 165 بھی کرپشن سے متعلق ہیں۔ اسی طرح نیب آرڈی نینس 1999ء کے تحت کرپشن (بدعنوانی) کے ذریعے جائیداد بنانے والا اگر اپنے اثاثہ جات کا قانونی جواز پیش نہ کرسکے تو اسے چودہ سال قید بامشقت کی سزا دی جاسکتی ہے۔ یہ ادارہ بالعموم برسر اقتدار سیاسی پارٹی کے زیر اثر ہوتا ہے۔

بعض اوقات اس ادارے کو سیاسی مخالفین کے خلاف بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جن سیاست دانوں کو بچانا مقصود ہو ان کے لئے نیشنل ری کونسلی ایشن آرڈیننس 2007ء موجود ہے۔ حاضر سروس عدلیہ اور فوجی حکام NAB کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں مگر ان اداروں کے ریٹائرڈ ملازمین جو گورنمنٹ کے دفاتر کارپوریشنوں یا دوسری جگہوں پر کام کرتے ہیں NABکو ان کے خلاف تحقیقات کرنے کے اختیارات حاصل ہیں۔

ان حالات میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا فرض ہے کہ رشوت ستانی اور بد عنوانی کے خاتمہ کے لئے قائم اداروں کو مزید فعال اور با اختیار بنانے کے لئے قانون سازی اور عملی اقدامات کریں۔یہ تمام سماجی مسائل جو بیان کئے گئے ہیں یہ Say No to Corruption لکھنے سے حل نہیں ہوں گے بلکہ ان کے حل کے لئے حسبِ ذیل عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:۔


1۔اساتذہ کے تربیتی کورس کروانے کے بعد اساتذہ کا امتحان لیا جائے۔ فیل ہونے کی صورت میں انہیں برطرف کردیا جائے اس عمل کے بعد طلباء و طالبات کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کو لازم قرار دیا جائے کیونکہ اخلاقی بگاڑ سے بہت زیادہ برائیاں جنم لیتی ہیں لہٰذا اعلیٰ اخلاق و کردار کی حامل شخصیات کے حالات زندگی شامل نصاب کئے جائیں مزید برآں خدمت خلق، نیکی، خداخوفی اور دیانت داری کے متعلق اسلامی لٹریچر کو بھی شامل نصاب کیا جائے اس ایک مضمون میں فیل ہونے والے افراد کو تمام مضامین میں فیل قرار دیا جائے۔


2۔غیر جانب دار احتساب کے اداروں ، غیر سیاسی دیانت دار پولیس، قابل اعتماد تحقیقاتی اداروں اور مالی معاملات میں شفافیت کے حامل اداروں کو یقینی بنایا جائے۔


3۔عوام کو اپنے تنازعات اور حقوق کے سلسلے میں پولیس سے زیادہ سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے لہٰذا پولیس کو غیر سیاسی بنایا جائے۔ پولیس ہیلپ کے مراکز قائم کئے جائیں۔ ایک تفتیشی افسر کی بجائے ایماندار تفتیشی افسران کا ایک پول ہونا چاہیے ان افسران کے پاس ایک مینوئل اور جرائم کی مناسبت سے چیک لسٹیں بھی ہونی چاہئیں تاکہ تفتیش کے عمل کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہے۔

پولیس کی وجہ سے ہونے والی اموات کی تحقیقات کے لئے ایک غیر جانب دار آزاد فورم موجود ہونا چاہیے۔ پولیس کی ورکنگ کنڈیشنز بہتر بنائی جائیں۔ پولیس اور پولیس کے علاوہ دیگر اداروں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیا جائے تاکہ ان کے پاس رشوت لینے کا کوئی جواز باقی نہ رہے۔


4۔ہر ادارے کا ایک آزاد ڈسپلن ونگ بنایا جائے ، جن اداروں کے ڈسپلن ونگ موجود ہیں ان کو مزید فعال بنایا جائے۔


5۔عدلیہ کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لئے سپریم جوڈیشیل کونسل کو مزید فعال بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں مثلاً اس میں زیادہ اچھی شہرت کے حامل جج صاحبان کی تعیناتی کی جائے۔

ترقی یافتہ ملکوں کی طرز پر پبلک کے نمائندگان پر مشتمل جیوری کو Rotation کی بنیاد پر عدالتوں سے منسلک کیا جائے۔
6۔انصاف کے جلد حصول کے لئے ثالثی قوانین کے ایکٹ 1940ء کے مطابق پنچائت میں فیصلے کئے جائیں۔


7۔مختلف محکموں میں ون ونڈو آپریشن کے علاوہ آن لائن ڈیلنگ سسٹم کا اجراء کیا جائے تاکہ ایک اہل کار سے دوسرے اہل کار اور بے شمار اہل کاروں سے رابطے کے جھنجٹ سے نجات مل سکے۔


8۔میڈیا معاشرتی بے ضابطگیوں کو بے نقاب کرنے میں موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ یہ ایک صحت مند اپوزیشن کا کردار بھی ادا کرسکتا ہے بعض اوقات میڈیا میں جانب داری کا عنصر بھی سامنے آتا ہے۔ اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اس مقصد کے لئے پیمرا میں منصف مزاج افسران کی تعیناتی عمل میں لائی جائے۔


9۔سول سوسائٹی، میڈیا اور فلاحی تنظیموں کے اچھی شہرت کے حامل افراد پر مشتمل ضلع کی سطح پر نگران کمیٹیاں اور Monitoring Teams (تہدیدی ٹیمیں) بنائی جائیں۔

ان کمیٹیوں اور ٹیموں کو سرکاری طور پر اختیارات دئیے جائیں جو سرکاری و نیم سرکاری منصوبہ جات، سماجی برائیوں اور جرائم پر نظر رکھیں۔ ان کی رپورٹس (اطلاعات) کی مخصوص فورم تک رسائی ہونی چاہیے جو فوری کاروائی کرے۔ اس سے قانون شکنی کے رُحجان میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔


10۔اگر خدانخواستہ حکومتیں بدعنوان ہوجائیں تو عامتہ الناس کا فرض ہے کہ وہ انتخابات کے ذریعے بددیانت اور کرپٹ حکمرانوں کو مسترد کردیں۔


11۔ کرپشن کے خاتمے اور معاشرتی انصاف کی ترویج کے لئے علمائے کرام اور مذہبی رہنما فعال کردار ادا کرسکتے ہیں۔


12۔مجرموں کو قانون کے مطابق بلا امتیاز سزائیں دی جائیں۔


13۔گڈ گورننس کے اصولوں یعنی شفافیت، قانون کی پابندی اور احتساب کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔(ختم شد)

مزید :

کالم -