تجاوزات آپریشن ، جماعت اسلامی نے ’’شہری ایکشن کمیٹی ‘‘ قائم کر دی

تجاوزات آپریشن ، جماعت اسلامی نے ’’شہری ایکشن کمیٹی ‘‘ قائم کر دی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کراچی (اسٹاف رپورٹر)جماعت اسلامی نے کراچی میں سپریم کورٹ کے حکم پر تجاوزات کے خلاف آپریشن کو غلط رُخ پر موڑنے کے باعث ہزاروں افراد کے روزگار ، کاروبار اور قدیمی دکانوں سے محروم ہونے سے پیدا ہونے والی سنگین صورتحال سے نکالنے اور متاثرین کے شہری و انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے فوری طور پر ’’شہری ایکشن کمیٹی ‘‘ بنانے کا اور کمیٹی کے تحت جمعہ 30نومبر کو بعد نماز جمعہ ایم اے جناح روڈ پر ایک بہت بڑے اور تاریخی کنونشن کا اعلان کیا ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز اور متاثرین شریک ہوں گے ، کنونشن میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا ، اگر حکومت اور متعلقہ اداروں نے متاثرین کی داد رسی نہ کی تو زبردست احتجاجی مارچ اور وزیر اعلیٰ ہاؤس و میئر کراچی کے دفتر کا گھیراؤ کیا جاسکتا ہے۔ کمیٹی میں مختلف ایسوسی ایشنز کے ذمہ داران اور تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہوں گے ۔ان خیالات کا اظہارامیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے ادارہ نورحق میں کراچی کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے پرائیویٹ اسکولوں، تاجروں ، مارکیٹوں کی تنظیموں کے نمائندے اور دیگرمتاثرین اسمال ٹریڈرز آرگنائزیشن، صدر ٹریڈرز ایسوسی ایشن، کے سی آر متاثرین ایکشن کمیٹی ،آل سٹی تاجر اتحاد، معصوم شاہ کالونی، ریلوے اکاؤنٹس کالونی منورہ مسجد، ہزارہ کالونی ، کالاپل ، آل لی مارکیٹ تاجر اتحاد، لائٹ ہاؤس علی دنیا محمد روڈ، کے ایم سی مارکیٹ ویسٹ پیپر مرچنٹ، لنڈا بازاراور دیگر ایسوسی ایشن ، آل پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن ، نیشنل ایجو کیشن فار ایجوکیشن ،یونائیٹیڈ پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن ،پیرا گون پبلکیکیشنز پاکستان،فروٹ ہاکز ایسوسی ایشن رجسٹرڈ جہانگیر پارک،گارڈن زولیوجیکل مارکیٹ کے نمائندوں اور بڑی تعداد میں متاثرین کے ہمراہ ایک بڑے ہجوم کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر نائب امیر کراچی محمد اسحاق خان ، سکریٹری کراچی عبد الوہاب ، ڈپٹی سکریٹری کراچی و صدر پبلک ایڈکمیٹی سیف الدین ایڈوکیٹ ، حافظ عبد الواحد شیخ ،ممبر صوبائی اسمبلی و امیر ضلع جنوبی سید عبد الرشید ، پارلیمانی لیڈر جنید مکاتی ، ضلعی امراء کراچی عبدالرزاق خان ، عبد الجمیل ، منعم ظفر خان ، سکریٹری اطلاعا ت زاہد عسکری اور دیگر بھی موجود تھے ۔پریس کانفرنس سے جماعت اسلامی کراچی کے ڈپٹی سکریٹری و صدر پبلک ایڈ کمیٹی سیف الدین ایڈوکیٹ ، رکن صوبائی اسمبلی سید عبد الرشید ،سٹی کونسل میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر جنید مکاتی ،پبلک ایڈ کمیٹی کے جنرل سکریٹری نجیب ایوبی اور دیگر نے بھی خطا ب کیا ۔حافظ نعیم الرحمن نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہم تصادم یا انارکی نہیں چاہتے لیکن اس حوالے سے ہر طرح کی آئینی ، قانونی اور جمہوری جدوجہد اور کوشش کریں گے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جس طرح سپریم کورٹ نے وزیر اعظم عمران خان کی ذاتی تعمیرات کوبنی گالہ میں ریگولائزیشن کی سہولت اور مہلت دی ہے اسی طرح کراچی میں تمام قانونی ملکیتی پلاٹوں پر تعمیرات کے لیے ریگولائزیشن کی پالیسی دی جائے اور ہزاروں خاندانوں کو ریلیف فراہم کیا جائے ، وہ تمام افراد ،ادارے اور ان کے اہلکار جو کراچی بھر میں غیر قانونی تعمیرات کرانے میں ملوث رہے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ، ان کو عوام کے سامنے لایاجائے اور ان پر مقدمہ چلایا جائے ،متاثرین کو متبادل جگہ اور معاوضہ دیا جائے ، جن لوگوں کا نقصان ہواہے اس کی تلافی کی جائے ۔حافظ نعیم الرحمن نے کہاکہ ضروری ہے کہ کسی بھی کاروائی سے قبل لوگوں کو منتقلی کا مناسب موقع اور عدالتیں حق سماعت فراہم کریں ، قانونی دستاویز رکھنے والوں سے قابضین جیسا سلوک نامناسب اور ظلم ہے ۔ سڑکوں ، فٹ پاتھ ، پارک اور رفاہی پلاٹوں سے تجاوزات ہٹانے کی ہم مکمل حمایت کرتے ہیں لیکن لوگوں کے انسانی حقوق اور قانونی حقوق کا خیال رکھتے ہوئے ۔کاروبار کرنے والوں کے لیے جائز جگہ کاروبار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ بیروزگاری سے بچاجاسکے ۔چائنہ کٹنگ سے فائدہ اٹھانے والے بیشتر افراد جگہ فروخت کرکے جاچکے ہیں اور اس کی وجہ ان کے پاس سٹی حکومت کی جاری کردہ دستاویزات تھیں ۔لہذا موجودہ ساکنین کو متبادل فراہم کیا جائے اور چائنہ کٹنگ کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے ۔شہر بھر میں ہزاروں کی تعداد میں جاری غیرقانونی تعمیرات فوری روکی جائیں ۔انہوں نے کہاکہ ایک ہفتے سے جاری کاروائی میں تقریباََ6000دکانیں توڑ دی گئیں ،جس سے تقریباََ50000سے زائدخاندان بیروزگاری ہوگئے ہیں اورفاقہ کشی کا شکار ہیں۔سپریم کورٹ کے آرڈر یعنی پارکوں اور رفاہی پلاٹوں پر قبضوں اور تجاوزات کے خلاف آپریشن کو غلط رخ پر موڑ کر لیز شدہ اور کے ایم سی کے کرایہ داروں کی دکانیں بھی توڑ دی گئیں جبکہ پارکوں اور رفاہی پلاٹوں پر قبضے تاحال برقرار ہیں ۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔دو گھنٹوں کے زبانی نوٹس پر چالیس پچاس سالہ کاروبار کو نیست و نابود کرنا سراسر ظلم وزیادتی ہے ۔جن لوگوں کے خلاف سپریم کورٹ کے آرڈر پر کاروائی ہورہی ہے ان کو حق سماعت دیا ہی نہیں گیا ،جو عدل کے تقاضوں کی صریحاََخلاف ورزی ہے ۔ اس معاملے پر سندھ حکومت برابر کی شریک ہے جس نے ورلڈ بنک سے کراچی نیبرہڈ ڈیولپمنٹ پروگرام کا معاہدہ کیا ہے،یہ تمام کاروائیاں اس منصوبہ کا حصہ ہیں ۔ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے بھی نوٹس جاری کرنے شروع کردیئے ہیں جبکہ غیر قانونی تعمیرات میں 100فیصد ہاتھ ان کے ہی اسٹاف کا ہوتا ہے ۔ان ہی کے ہاتھوں کاروائی قانون کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے ۔ عمومی نوعیت کے نوٹس کے اجراء سے شہری خوف زدہ ہیں۔ بغیر کسی پلاننگ اور ترجیحات کا تعین کیے بغیر سب کو ایک ہی لکڑی سے ہانکنا زیادتی ہے ، قبضہ کی جگہ پر تعمیر اور ذاتی ملکیت کے پلاٹ پر تعمیر میں فرق کرنا ہوگا ۔ بلڈر اپنے پیسے پورے کرکے نکل گئے ، بلڈنگ کنٹرول کے اسٹاف نے اپنے پیسے کھرے کرلیے اب ساری مصیبت زندگی بھر کی جمع پونجی خرچ کرکے فلیٹ یا مکان خریدنے والے کے سرڈال دی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے جوکہ پورے پاکستان کو 68فیصد ریونیو ادا کرتا ہے ، آج سپریم کورٹ کے حکم کا غلط استعمال کر کے تاجروں کو بے روزگار کیا جارہا ہے ان لوگوں کو بے روزگار کیا جارہا ہے جن کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کا پہیہ چلتا ہے۔ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور میں نئی سبزی منڈی کی تعمیر کے لیے پہلے پرانی سبزی منڈی کے لوگوں کو ریلیف دی گئی ان کے ساتھ مالی تعاون کیا گیا اس کے بعد نئی سبزی منڈی کا قیام کیا گیا اور لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر کا موقع آیا تو اس وقت بھی جن لوگوں کے گھروں کو مسمار کیا گیا پہلے ان کے ساتھ مالی تعاون کیا گیا ان کو متبادل جگہیں دی گئیں لیاری ہاؤسنگ پروجیکٹ بنایاگیا اس کے بعد لیاری ایکسپریس وے تعمیر کیا گیا لیکن آج سپریم کورٹ کی جانب سے ایمپریس مارکیٹ کی انکروچمنٹ کے خلاف کارروائی کرنے کے حکم پر میئر کراچی تمام مارکیٹوں کو مسمار کرنے پر تلے ہوئے ہیں اورتاجروں کو بے روزگار کیا جارہا ہے جو کہ سراسر ظلم و زیادتی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ انہوں نے کہاکہ سندھ حکومت کی جانب سے تعلیم پر بھی کاری ضرب لگائی جارہی ہے ،کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے ہی سرکاری اسکول تباہ حال ہے ، اسی وجہ سے پرائیویٹ اسکول قائم کیے گئے ہیں تاکہ بچوں کو تعلیم دی جاسکے ، ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیم کو تجارت نہیں بنانا چاہیئے لیکن سندھ حکومت کی جانب سے پرائیویٹ اسکول کے لیے نوٹس جاری کرنا تعلیم دشمن فیصلہ ہے جسے کسی صورت میں بھی قبول نہیں کیاجاسکتا۔انہوں نے کہاکہ ایمپریس مارکیٹ کو مسمار کر کے انگریزوں کے دور کی یاد گار کو تازہ کر کے برطانیہ کے ہدف کو پورا کیا جارہا ہے ، ایمپریس مارکیٹ کے مقام پر 1857میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی میں حصہ لینے والوں کو توپ کے گولوں سے باند ھ کر اڑایا گیاتھا ۔بعدمیں اس مقام پر مسلمان اور ہندو آکر اس کی یاد تازہ کیا کرتے تھے جسے ختم کرنے کے لیے انگریزوں نے یہ عمار ت تعمیر کی تھی اور اب ایک منصوبے کے تحت انگریز دور کی تعمیر کو ازسر نوتعمیر کیا جارہا ہے ۔