مِلی یک جہتی: پاکستان اور ہم
قرآن مقدس میں ہے کہ: ”مسلمانو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے آپس میں تفرقہ ڈالا اور باہم تنازعہ پیدا کیا۔“ ……(سورۂ آلِ عمران، آیت مبارکہ 105)…… یہ ایک وعید ہے جس سے باز رہنے پر انعام و اکرام کی بارش اور خلاف ورزی کرنے پر عتاب الٰہی کا نزول اتنا ہی یقینی ہے۔ جتنا یقینِ محکم قرآنِ حکیم کے سچ ہونے سے متعلق ہے۔ آج جبکہ پاکستان میں بے چینی کا بھوت ہر چوراہے پر ننگا ناچ رہا ہے:
جس طرف آنکھ اٹھاؤں وہیں ویرانہ ہے (افضال)
یہ وطنِ عزیز جسے ہمارے آباؤ اجداد نے ہر وہ قیمتی شیئ قربان کر کے حاصل کیا تھا جو اس کے حصول میں مانع ہو سکتی تھی۔ سامان حیات و متاع جان سے لے کر عزت و ناموس تک داؤ پر لگا کر قومی نظریئے کی بازی جیتی تھی جس کے نتیجے میں 14 اگست 1947ء کو مملکتِ پاکستان نصیب ہوئی جسے ہم پچاس برس تک پورا نہ رکھ سکے اور جو بچا ہے، اس کی بقا کے لئے بھی چنداں فکر مند نظر نہیں آتے۔ الا ماشاء اللہ سوائے چند صاحبانِ فکرو دانش کے جن کی صدا نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ نہیں رہ گئی۔ دین حق سے مفر کی بھی صورتیں ہوتی ہیں، مگر جو شکل اور جو راہ ہم نے اختیار کی ہے، بلکہ اختیار کر رکھی ہے، وہ بنی اسرائیل کے بعض انتہائی مکروہ اعمال سے بھی زیادہ گھناؤنی دکھائی دیتی ہے۔ ہماری بدیوں، برائیوں کی فہرست، بنی اسرائیل کی برائیوں کی فہرست کو شرمائے دیتی ہے…… ہاں! جیسے کلمہ گو ہونے کے باوجود ہمارے اندر کلمہ گویانِ حق کے اوصاف باقی نہیں رہ گئے، اسی طرح پاکستان کی خاطر خواہ قدرو منزلت نہ کرنے کے نتیجے میں ہم نے خود ہی اس کو اس عظیم الشان عظمت و رفعت سے محروم کر رکھا ہے جس کے لئے ہمارے بھولے بھالے آباؤ اجداد کی دعاؤں اور مساعی کے نتیجے میں اس ملک کا وجود وقوع پذیر ہوا تھا۔ ہم نے خود اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی عزیز وطن کو خاکستر میں بدلنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی:
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
قوموں کی تنزلی اتنی مضر نہیں ہوتی، جتنی اس سے متعلق پیدا شدہ بے حسی خطرناک ہوتی ہے۔ اس ضمن میں اگر اہلِ وطن، یعنی پاکستانی مسلمانوں کے جذبات کا مطالعہ کیا جائے تو قومی روحِ حیات کمزور ہونے کے باوجود زندہ دکھائی دیتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ:
مجھ کو احساس دلا دو کہ مَیں زندہ ہوں ابھی(محمد افضال)
کے مصداق احساسِ حیات کو بیدار کیا جائے، کیونکہ زندہ قومیں ہمیشہ حیات کے احساس کی خوشبو سے خود کو معطر رکھتی ہیں، کوئی شعبہئ حیات ہو، ان کے افعال و اعمال زندگی کے اعلیٰ معیاروں سے نیچے کبھی نہیں آنے پاتے۔ زندگی کا یہ گراں مایہ احساس اس وقت تک توانا نہیں ہو سکتا جب تک درجِ ذیل عوامل پر ہم سب صدق دل سے عمل پیرا نہیں ہوتے۔
-1 مکمل تعلیمی بیداری
-2دین و دنیا کا صحیح ادراک و عملی نفاذ
-3مسلکی و گروہی رسا کشی سے دست برداری
-4اپنے مفادات پر ملی و ملکی مفادات کی ترجیح
-5اکرامِ باہم
مکمل تعلیمی بیداری کے لئے ضروری ہے کہ شعبہئ تعلیم کو منظم و موثر بنایا جائے، حصولِ تعلیم کو عامۃ المسلمین کے لئے مفت و قطعی بلا معاوضہ کر دیا جائے، جہاں مکمل مفت ممکن نہ ہو، وہاں نہایت سستے داموں اسے میسر کیا جائے۔ وہ امت کس طرح عالمی قیادت کی اہل ہو سکتی ہے جس نے یہ بھی بھلا دیا ہو کہ جب اللہ کے سب سے پیارے نبی و رسول و پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اقراء (پڑھو!) کے بغیر وحی الٰہی (قرآنِ حکیم) جیسی عظیم الشان و بے مثل ذمہ داری نہیں سونپی گئی تھی، جب تک کہ اقراء پر عمل نہ کروا لیا، تو مسلمانوں کو آج تعلیم میں پیچھے، بلکہ سب سے پیچھے رہ کر قیادتِ عالم کیونکر سونپی جا سکتی ہے؟ لہٰذا لازمی ہے کہ ہم سو فیصد تعلیم یافتہ قوم ہو جائیں، اس کے لئے تمام ضروری اقدامات کئے جانے چاہئیں۔
-2 دینِ متین اسلام، دیگر مذاہب عالم یا ازموں (ISMS) اور فلسفوں کی طرح نہیں ہے کہ جس کا تعلق زندگی سے کچھ ہو اور پوجا پاٹ میں کچھ اور ہو۔ اسلام نام ہی زندگی کو سلامتی کے ساتھ گزارنے کے طریقوں اور سلیقوں کا ہے۔ یہ ادراک عام کیا جائے اور دین کو چند مخصوص شکلوں، عمارتوں اور مسلکوں سے نکال کر عوام وخواص میں جدید تقاضوں کے کماحقہ مطابق بنایا جائے یا بالفاظ دیگر جدید تقاضوں کو دین کے مطابق اختیار کیا جائے۔
-3 دینِ اسلام نے عرب جاہلوں کو علم و اخلاق اور اتحاد سے آراستہ کیا تو وہ مخالف قوتوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر سینہ سپر ہو گئے اور فاتح ہوئے، مگر آج ہم آپس میں لڑتے مرتے و مارتے ہیں اور اغیار ہمارے بالمقابل سیسہ پلائی دیوار بن کر ڈٹے کھڑے ہیں۔ اسلام کے فقہی اور پُر خیر اختلافی معاملات کو خواصَانِ دین، یعنی علمائے حق (علمائے سو ہرگز نہیں!) پر چھوڑ کر تمام مشترک باتوں کو عام کیا جائے اور مسلکوں کو باقاعدہ مذہب اور مخالفت کا باعث نہ بنایا جائے، بلکہ دین کی متفقہ و متحدہ روح کو بیدار کیا جائے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر فرقہ و فتنہ اور فساد سے مکمل گریز و پرہیز کیا جائے۔
-4ایثار کے بغیر کوئی قوم اعلیٰ و ارفع مقام پر ہرگز فائز نہیں ہو سکتی۔ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی قربانیاں ہی ہیں جن کے طفیل انہوں نے قیصر و کسریٰ کے مغرور تاج پیروں میں رول دیئے اور ہر طرف اسلام کا برحق پیغام پہنچایا۔ ایثار کا اولین تقاضہ ہے کہ اپنے ذاتی و خانگی، گروہی و مسلکی، تمام جزوی و کلی قسم کے مفادات کو، ملی و دینی مفادات کے سامنے ہیچ جانا جائے۔ حضرت محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ خدا کی قسم تم میں سے کوئی اس وقت تک سچا مسلمان نہیں ہو سکتا، جب تک مَیں اس کو اس کی عزیز ترین شئے سے بھی زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں۔ یہاں ایثار کی تعلیم مدِ نظر ہے۔
-5 اکرامِ باہم ایک ایسی مقناطیسی قوت ہے جو بکھری ہوئی افرادی قوت کو اس طرح یک جا کرتی ہے جس طرح الگ الگ پانچ انگلیوں کی انفرادی طاقتوں کو ”مُکے“ کی شکل میں یک جا کر کے ایک مضبوط قوت بنا لیا جاتا ہے۔ افراد کا باہم متحد ہونا قومی یکجہتی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ متحد افراد چاہیں تو ملت کی تقدیر بدل ڈالیں۔ علامہ اقبالؒ صحیح فرماتے ہیں کہ:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ!
یہ اتحادِ باہم اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہم ایک دوسرے کا ادب، لحاظ اور اکرام پورے خلوص اور دل و جان سے نہیں کرتے۔ اللہ کرے کہ ہم ان ضروری لوازماتِ اتحاد کو سمجھیں اور ان پر عمل پیرا ہو جائیں،تاکہ مسلمانِ پاکستان میں بالخصوص اور اقلیتوں میں بالعموم اتحاد قائم ہو جس سے قومی یکجہتی کا مسئلہ حل ہو، پھر پاکستان عالم ِ اسلام کی عالمی و ملی یک جہتی کی راہِ کامرانی پر بہ صد افتخار گامزن ہونے میں کامیاب ہو جائے۔ آمین ثم آمین!
اللہ تعالیٰ ہمیں انفرادی کوتاہیوں کے ساتھ ساتھ اجتماعی غیر ذمہ دارانہ رویوں کو ختم کرکے ذمہ دار بننے کی توفیق عطا فرمائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانونِ فطرت اگر افراد کی زیادتیاں نظر انداز کر بھی دے تو ملت کی مجموعی کوتاہیاں معاف نہیں کرتا:
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف!
اللہ تعالیٰ ہمیں انفرادی و ملی گناہگار ہونے سے بچائے، ثم آمین!