قدرت اللہ چودھری کے دفتر میں 

قدرت اللہ چودھری کے دفتر میں 
قدرت اللہ چودھری کے دفتر میں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


میں نے واشنگٹن سے لاہور پہنچ کر سیدھا قدرت اللہ چودھری کے سابق دفتر میں ان کی سیٹ کے سامنے اسی کرسی پر بیٹھ کر یہ کالم لکھنا شروع کیا ہے۔ میں یہی ارادہ کر کے آیا تھا۔ شامی صاحب کو خبر تھی کہ میں نے دفتر آنا ہے اور ان کے آنے میں تقریباً دو گھنٹے باقی ہیں۔ باقی دوست اوپر کی منزل پر نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس طرح مجھے تنہائی میں وہ چند آنسو بہانے کا موقع مل گیا،جو بڑی مشکل سے سنبھال سنبھال کر رکھے تھے۔ دفتر کے ایڈمن آفیسر فاروق صاحب مجھے ملنے، اور اپنے دفتر میں لے جانے کے لئے آئے۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے کچھ نہیں چاہئے۔ بس تھوڑی سی تنہائی چاہئے، تھوڑا تھوڑا لکھوں اور تھوڑی تھوڑی ان کی یاد تازہ کر سکوں۔


روزنامہ ”پاکستان“ کے فنانس ڈائریکٹر ارشد صاحب ہر روز ویٹس اَیپ پر رسمی خیر سگالی پیغام بھیجتے رہتے ہیں۔ اس طرح ان کے پیغامات کی نوٹیفکیشن آئی۔ مجھے اندازہ تھا یہ ”صبح بخیر“ کے ساتھ محبت بھری دعاؤں پر مشتمل ہو گا۔ تھوڑا ٹھہر کے مجھے خیال آیا کہ یہ پیغامات اتنے زیادہ کیوں ہیں۔ مجھے تجسس ہوا اور کھول کر دیکھا۔ سکتے کا عالم میں نے سُن رکھا ہے۔ یہ کیسا ہوتا ہے وہ کیفیت مجھ پر طاری ہوئی۔ ایک لمحے کے لئے سوچا کہ یہ کوئی خواب تو نہیں ہے۔ اگر یہ واقعی حقیقت تھی تو دِل اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اخبار کو مسلسل آن لائن پڑھتا رہا، فیس بُک پر بھی ان کی کہانی چل رہی تھی۔بے یقینی اور یقین کے درمیان ذہن الجھا رہا۔
وحید رضا بھٹی صاحب کی طویل کال سے ان کے ساتھ چودھری صاحب کے پرانے گہرے تعلقات کے بہت سے اوجھل پہلو مجھ پر آشکار ہوئے۔ شامی صاحب کے کالم میں ان کے ہربنس پورہ میں خاندان اور ان کی زندگی کے آغاز کے بارے میں بہت سی معلومات میرے لئے نئی تھیں۔

میرا ان سے جو تعلق تھا وہ تو ان کی کہانی کا صرف ایک منظر تھا،جو میں براہ راست دیکھ رہا تھا، میں اسے ہی ان کی مکمل داستان سمجھتا رہا، میں اس خوش فہمی میں رہا کہ شاید پاکستان میں مجھ سے زیادہ ان کے کوئی قریب نہیں تھا۔ ان کی کمال درجے کی قابلیت، تحریر کے فن پر مکمل عبور کے ساتھ ساتھ ان کی دیانت داری، بے نیازی اور ملنگ طبیعت کا میں نے براہ راست مشاہدہ کیا، لیکن ان کے بارے میں تحریریں پڑھ کر پتہ چلا کہ ایک زمانہ ان کی خوبیوں کا معترف تھا۔ ان کی تمام معاملات میں ایک مخصوص سوچ اور رائے تھی،جس سے مجھے بھی دوسروں کی طرح اختلاف ہو سکتا تھا۔ لیکن اس کے پس منظر میں ان کا کوئی مفاد موجود نہیں تھا۔ جن کی حمایت وہ کرتے تھے ان سے ملنا بھی انہیں پسند نہیں تھا کہ انہیں اس کے لئے کسی انعام کی ضرورت نہیں تھی۔


پرانی باتیں یاد کرتے ہوئے میں نے کبھی سال اور مہینے بیان نہیں کئے۔ایسا حساب کبھی نہیں رکھا۔ بس اتنا یاد ہے کہ ایم اے جرنلزم کرنے کے بعد عملی صحافت میں قدم رکھا تو ٹریڈ یونین میں بھی دلچسپی پیدا ہو گئی۔مال روڈ پر دیال سنگھ منشن میں پرانی پریس کلب میں پنجاب یونین آف جرنلسٹس(پی یو جے) کے انتخابات میں مجلس عاملہ کا رکن منتخب ہو کر آیا تو قدرت اللہ چودھری  بھی ”نوائے وقت“ سے ایسے ہی رکن بن آئے۔ہلکا پھلکا تعارف اس سے تھا۔ان سے قربت پی یو جے کی کابینہ میں مل جل کر کام کرنے سے پیدا ہوئی،اگلے سال میں پی یو جے کا جائنٹ سیکرٹری بنا اور چودھری صاحب دوبارہ مجلس عاملہ کے رکن منتخب ہوئے۔ٹریڈ یونین کی پالیٹکس میں ہماری کوئی ہم آہنگی نہیں تھی،لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا،اور غیر محسوس طریقے سے باہمی پسندیدگی میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا۔
یہ پسندیدگی کیسے گہری دوستی میں بدلی۔ اسے بیان کرنے کا  موقع ہے اور نہ ہی اس کی تفصیل میرے پاس ہے۔یہ ضرور بتا سکتا ہوں کہ ادارے بدلے، شہر،حتیٰ کہ ملک بدلا اور ان سے تعلق کا بانڈ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔


وہ لاہور سے باہر اسلام آباد اور پشاور میں جاب کرتے رہے۔ چند ایک مرتبہ ان سے اسلام آباد میں اپنی فیملی کے ہمراہ ملے اور وہ اکثر ہمیں وہاں اپنے پسندیدہ ایرانی ریسٹورنٹ میں کھانا کھلانے لے جاتے۔البتہ پشاور میں ان کے پاس کبھی نہیں گیا،پھر میں کچھ عرصہ کے لئے صحافت کو  ترک کر کے پبلک ریلیشنز کے شعبے میں چلا گیا، میں امریکی حکومت کے ایک ادارے ”یو ایس آئی ایس“ کے لاہور مرکز میں ڈپٹی انفارمیشن ایڈوائزر منتخب ہوا اور چند سال بعد شعبے کا سربراہ،یعنی انفارمیشن ایڈوائزر بن گیا۔میرے معاملات میں اس تبدیلی کے بعد جن خاص دوستوں کا مشورہ مجھے میسر رہا ان میں چودھری صاحب بھی شامل رہے۔مجھے ہر سال آٹھ دس مقامی صحافیوں کو امریکی حکومت کے مہمان کے طور پر ”انٹرنیشنل وزیٹر پروگرام“ میں نامزدگی کا اختیار تھا۔ امریکی افسروں سے تو میں بس مہر تصدیق کا انگوٹھا لگواتا تھا۔میری کھلی پالیسی رہی اور میں برملا کہتا تھا کہ جس کو بھی نامزد کروں گا اس کا میرا دوست ہونا ضروری ہے،جو اس کے ساتھ ساتھ پراجیکٹ کے تقاضوں کے مطابق پورا کوالیفائی بھی کرے گا۔

میں اپنے انتہائی قریبی سرکل کے جن چند ایک دوستوں سے اس سلسلے میں مشورہ لیتا تھا ان میں قدرت اللہ چودھری کی رائے میرے لئے بہت معتبر تھی۔میں ان سے ہمیشہ کہتا کہ آپ کے مشورے پر دوسرے دوستوں کی نامزدگی ہوتی ہے،لیکن آپ کو خود بھی امریکہ جانا چاہئے لیکن وہ ہمیشہ طرح دے جاتے۔پھر ایک موقع آیا اور میں نے ان کو پکڑ لیا۔ان سے کہا کہ اس سال کا پورا گروپ امریکی دورے پر چلا گیا اور میں نے آپ کے لئے ایکExclusive پروگرام کی تجویز دی ہے۔ اس کے لئے منظوری بھی جلد آ جائے گی۔اب بستہ تیار کر لیں اور اس مرتبہ آپ نے نہ نہیں کرنی۔ وہ تھوڑی پس و پیش کے ساتھ مان گئے اس وقت تک روزنامہ ”جنگ“ سے جن دوستوں کو میں بھجوانا چاہتا تھا ان میں صرف خالدہ یوسف رہتی تھیں۔ چودھری صاحب کا پراجیکٹ دو افراد کے لئے تھا اور پھر ان کی رضا مندی سے خالدہ کو اس میں شامل کیا۔اس طرح چودھری صاحب اور خالدہ یوسف مل کر امریکی دورہ کر کے آئے۔خالدہ بہت خوش ہوئیں کہ چودھری صاحب کے ساتھ ان کا پروگرام بنا، جس کے ساتھ وہ کسی مسئلے کے بغیر پورے اعتماد کے ساتھ امریکہ میں وقت گزار سکتی تھیں۔


میری بیگم اور تینوں بیٹیوں کے ساتھ قدرت اللہ چودھری کی خوب جان پہچان تھی، میری منجھلی بیٹی شاہ رخ”لمز“ میں پڑھتی تھی، اور ہوسٹل میں رہتی تھی۔ ویک اینڈ میں میرا معمول تھا کہ اس کو ہوسٹل سے لے کر  گھر کا چکر لگواتا،اور باہر ضروری شاپنگ وغیرہ کے لئے لے جاتا تھا۔ میرے بچے چودھری صاحب کی کمپنی میں بھیComfortable محسوس کرتے تھے۔ اس لئے اکثر میں اس ڈیوٹی پر نکلتا تو چودھری صاحب کو ساتھ لے لیتا اور بیٹی کو واپس چھوڑنے تک تقریباً نصف دن چودھری صاحب گاڑی میں میرے ساتھ موجود  رہتے تھے ۔


پھر ایک وقت آیا جب بچوں کی اعلیٰ تعلیم کی خاطر مجھے امریکن سنٹر کے جاب سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا سخت فیصلہ لینا پڑا، اور امریکہ منتقل ہو گیا۔اس مشورے میں بھی ان کی تائید شامل تھی،اور ان کے حوالے سے واشنگٹن میں موجود ان کے ایک عزیز نے چند روز ہماری فیملی کی میزبانی بھی کی،پھر2006ء میں تقریباً ڈیڑھ سال کے لئے ورلڈ بنک نے مجھے انفارمیشن ایڈوائزر کے طور پر کنٹریکٹ پر بھرتی کیا۔مجھے پشاور ہیڈ کوارٹر میں صوبے کے محکمہ آبپاشی میں نہری نظام کی ترقی کے منصوبے میں تعلقات عامہ کی ذمہ داری نبھانا تھی۔میری سرکاری رہائش گاہ کی تیاری میں کچھ دیر تھی،اس لئے  پشاور میں میرے پہنچنے سے پہلے ہی چودھری صاحب نے وہاں روزنامہ ”پاکستان“ کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے ذریعے ایک فوجی ریسٹ ہاؤس میں میری رہائش کا بندوبست کرا دیا۔میں واپس امریکہ چلا گیا تو ان کی ترغیب پر غالباً 2008ء میں روزنامہ ”پاکستان“ سے واشنگٹن بیورو چیف کے طور پر وابستہ ہوا اور یہ تعلق ابھی تک جاری ہے۔پھر یوں ہوا کہ لاہور میں ان کا دفتر میرا بھی مرکز بن گیا۔

جب بھی پاکستان آتا تو لاہور میں جتنے دن موجود ہوتا تو بغیر کسی ناغے کے صبح تیار ہو کر سیدھا ان کے دفتر پہنچتا اور ان کے ڈیسک کے دائیں طرف اپنے لئے مخصوص کرسی پر جا کر براجمان ہو جاتا۔ان کے کام میں مداخلت نہ کرتا۔میں اپنی پڑھائی لکھائی یا فون پر رابطے کرنے میں مصروف رہتا۔کسی دوست کے ساتھ کھانے یا کسی اور کام کے لئے جاتا تو واپس اسی جگہ آجاتا۔البتہ شام کو ان کی سہولت کے مطابق کام میں وقفہ ہوتا تو اس میں عموماً وہ شامل ہوتے۔ہم اکیلے یا چند ایک دوستوں کے ہمراہ باہر نکل کر کچھ انجوائے کرتے۔
ان کو شوگر کا مسئلہ تھا اور میں اپنی عادت کے مطابق ان کو  پھل سبزیاں اور ہربل اشیاء کے استعمال کے مفید  مشورے دیتا رہتا۔وہ چیک اپ بھی کرواتے رہتے تھے،اور ان کی  شوگرکنٹرول میں ہی تھی۔کورونا وائرس کا دور آیا تو اس کی احتیاطی تدابیر پر بھی بات ہوتی رہتی تھی۔ ویکسین لگنے کا مرحلہ آیا تو اس کا ذکر ہوتا۔میں نے ڈبل ویکسین لگوانے کے بعد بو سٹر کا انجکشن بھی لگوایا تو ان کو باخبر رکھا۔میں نے نوٹ کیا کہ وہ ویکسین لگوانے میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے تھے،لیکن مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ ویکسین لگوانے کے حق میں ہی نہیں تھے۔


 یہ معمول تھا کہ ہفتے میں ایک دو بار لازماً ان سے فون پر بات ہوتی تھی،لیکن ان کے اِس دنیا سے خصت ہونے سے تقریباً ایک ماہ پہلے یہ سلسلہ ٹوٹ گیا۔مجھے ان کو کورونا ہونے کی اطلاع بھی دوسروں سے ملی۔یہ بھی دوسروں سے پتہ چلا کہ انہوں نے ویکسین نہیں لگوائی۔ میری تمام تر جدوجہد کے باوجود انہوں نے میری کال کیوں اٹینڈ  نہیں کی،اس کی مجھے سمجھ نہیں آئی،جس دن اُن کی دنیا سے رخصتی کی بری خبر سنی اس سے ایک ہفتہ قبل میں نے لاہور میں اخبار کے رپورٹنگ ایڈیٹر سعید چودھری کی مدد لی۔انہوں نے چودھری صاحب کو فون کر  کے میرا بتایا کہ میں ان سے بات کرنے کو بے چین ہوں۔ سمجھ سے باہر معاملہ ہے کہ وہ پھر بھی حرکت میں نہیں آئے،اور میں نے یہاں واشنگٹن میں وہ خبر سن لی،جس کو سننے کی مجھ میں تاب نہیں تھی۔ اخبار کے ایڈیٹوریل صفحے کے انچارج،میرے بہت پرانے دوست اور میرے بڑے بھائی مجھ سے ملے اور چھوٹتے ہی گلہ کرنے لگے کہ آپ کے چودھری صاحب سے پیار محبت کے قصے سب کو معلوم ہیں، لیکن آپ نے ابھی تک ان کے بارے میں نہیں لکھا۔اب میں کیا لکھوں،کس کو بتاؤں کہ دنیا سے ناطہ توڑنے سے بہت دن قبل مجھ سے رابطہ توڑ چکے تھے۔انہوں نے ذرا پروا ہ نہیں کی۔دوسروں کی طرح وہ مجھے بھی بے چین حالت میں چھوڑ کر پتہ نہیں کہاں چلے گئے۔میں نے لاہور دفتر میں پہنچ کر خود دیکھ لیا کہ اُن کی کرسی خالی تھی۔

مزید :

رائے -کالم -