کیا پارا چنار پاکستان کا حصہ نہیں؟

   کیا پارا چنار پاکستان کا حصہ نہیں؟
   کیا پارا چنار پاکستان کا حصہ نہیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس وقت ملکی حالات ہر طرف ناقابل بیان، ناقابل تحریر اور ناقابل اظہار ہیں۔ مختلف علاقوں میں شر پسند قوتیں امن و امان کو درہم برہم کر رہی ہیں جیسا کہ پارا چنار کے ایک مکتبہ فکر کے لوگوں کانہ صرف جینا حرام کردیا گیا ہے۔بلکہ وقفے وقفے سے مسلح گروہ حملہ آور ہوتے ہیں، جس سے کاروبار، آمد و رفت اور تعلیمی ادارے بند ہو جاتے ہیں۔ پورے علاقے میں خوف و ہراس، دہشت اور وحشت کی فضا ہے۔بے گناہ انسان قتل ہوتے ہیں۔ان قاتلانہ حملوں کی وجہ سے علاقے کی ناکہ بندی کر دی جاتی ہے۔یہ ناکہ بندی حکومتی ادارے نہیں کرتے بلکہ پشاور سے پاراچنار جانے والوں کے راستے میں مکین مخالفین کرتے ہیں۔ حکومت اور امن و امان کی ذمہ دار انتظامیہ تماشہ دیکھتی ہے۔اتنی بے بس ہے کہ راستے خالی نہیں کرواسکتی۔کیا حکومت اور ادارے نہیں سمجھتے کہ پارا چنار تین اطراف سے افغانستان کے علاقے میں گھرا ہوا ہے اور یہاں باڑ لگادی گئی ہے،اب کوئی شخص افغانستان کے راستے پشاوربھی نہیں جاسکتا۔چوتھی طرف کا علاقہ جس کا تعلق پاکستان کے دوسرے علاقوں سے ملتاہے،یہاں پر طالبان اور اس کے حمایتی مقامی گروہ افغانستان سے بھی حملہ آور ہوکراس راستے کو بند کر دیتے ہیں۔اب صورت حال یہ ہے کہ پارا چنار کے لوگوں کی آمد و رفت اور ضروریات زندگی کی سپلائی کا واحد راستہ کافی عرصے سے بند پڑا ہے۔حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ پاراچنار کے مخالفین اسلحہ لے کر راستے کی ناکہ بندی کیے ہوئے ہیں۔ کسی کو باہر جانے دیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی باہر سے اندرآسکتا ہے۔ حتیٰ کہ اشیائے خوردو نوش اور ادویات لے کر آنے کی بھی اجازت نہیں۔کچھ لوگوں نے اپنی ٹرانسپورٹ پر پاراچنار آنے کا خطرہ مول لیا،انہیں راستے میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ حکومت نے راستے کی بحالی اور آمدو رفت کے لیے فوجی گاڑیوں کے سکیورٹی حصار میں پشاور سے پارا چنار اور واپسی کے لئے کانوائے کی شکل میں اس علاقے سے مسافروں کو گزارنا شروع کیا۔ گزشتہ دنوں سیکیورٹی حصار میں ایک کارروان پشاور سے پارا چنار کے لئے چلا توجب یہ مخالف گروہ کے علاقے سے گزر رہا تھا تو مورچہ بند دہشت گردوں نے نہتے مسافروں پر حملہ کر دیا، جس میں سرکاری طور پر کہا جاتا ہے کہ بچوں خواتین اور معذور افراد سمیت 40 افراد شہید اور لا تعداد زخمی ہوئے۔ لیکن مقتولین کے ورثا کہتے ہیں مرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

پریشان کن بات تو یہ ہے کہ کبھی یہ وفاقی حکومت کے زیر انتظام قبائلی علاقہ تھا،پھر اسے صوبہ خیبر پختونخوا کی حدود میں شامل کردیا گیا۔ سالہا سال سے جاری قتل و غارتگری پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ماتھے پر پسینہ تک نہیں آیا۔عملی طور پر کوئی احساس ندامت بھی نہیں ہوا۔ وفاقی اور صوبائی حکومت میں سے ابھی تک مظلوموں کی داد رسی کے لئے کوئی نہیں گیا۔ جس وقت مسافروں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی،وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اپنے لیڈر عمران خان کی رہائی کے لئے صوبے کے تمام تر وسائل استعمال کر کے وفاق پر حملہ آور ہونے کی تیاری میں مصروف تھے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ چیف منسٹر صاحب خود مظلوم علاقے کے مکینوں سے ہمدردی کے لیے ان کے گھروں پر پہنچتے، اظہار تعزیت کرتے اور فوری سخت اقدامات کا حکم دیتے لیکن ان کے ذہن میں ایک ایسی سازش پنپ رہی تھی جس کے لیے وہ پوری قوت اور سوچ کے ساتھ تیاری میں مصروف تھے۔

میں یہ گلا کیوں نہ کروں کہ صوبائی حکومت کی بے حسی اپنی جگہ،کیا حکمران اورریاستی اداروں کے سربراہان عوام کو بتائیں گے کہ وفاقی حکومت نے مظلوموں کی داد رسی کے لئے کیا اقدامات کئے؟ انسانی حقوق کا واویلا کرنے والی پاکستانی اور بین الاقوامی این جی اوز کہاں ہیں؟ سندھ میں اونٹ کی ٹانگ کاٹ دی گئی تھی، تھر پارکر میں قحط سالی کے موقع پر جانور مرنا شروع ہوگئے تھے تو میڈیا روزانہ کی بنیاد پر شور مچاتا تھا۔لیکن چارسال تک پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران اور اب گذشتہ چھ ماہ سے پاراچنار کا محاصرہ جاری ہے، میڈیا پر مجرمانہ خاموشی کیوں چھائی ہوئی ہے؟ ملک کے مقتدر اداروں،عدلیہ، حکمرانوں، سیاسی جماعتوں،وکلا تنظیموں اور دانشور طبقے سے پوچھنا چاہتا ہوں،کیا پاراچنار پاکستان کا حصہ نہیں ہے؟کیا اس علاقے کے مکین پاکستان کے شہری نہیں ہیں؟ کیا آئین میں ہر شہری کودی گئی سہولیات کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا؟وہ بنیادی شہری حقوق جن کا ریاست نے ہر شہری سے وعدہ کیا ہے کہ ان کی جان مال عزت کا تحفظ اس کی ذمہ داری ہے،کیاانہیں دیے گئے۔ پاراچنار کے شہری بھی اتنے ہی حقوق رکھتے ہیں جتنے کہ اسلام آباد، کراچی، لاہور،پشاور کوئٹہ یا کسی اور علاقے کے۔کیا وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی صرف اسلام آباد کے وزیر داخلہ ہیں، ضلع کرم کو پرامن رکھنے کے لیے انہوں نے کون سا اقدام اٹھایا ہے یا متاثرہ فریق کی حوصلہ افزائی کے لیے کوئی احکام صادر کیے ہیں؟ 

اس سے بڑھ کر میں خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں اور آرمی چیف جناب جنرل حافظ سید عاصم منیر سے بھی گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ پاکستان کی سالمیت، بقا، امن و امان اور عوام کو تحفظ دینے کے لیے سخت ترین اقدامات کریں تاکہ علاقے کا امن برقرار رکھا جا سکے۔ ہم جانتے ہیں کہ افواج پاکستان ان شرپسندوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کئی جوانوں اور افسروں کی شہادت کو قبول کر چکی ہیں اور پاکستان کی سالمیت کے لیے قربانیاں دیتی رہی ہے۔ ہماری گذارش ہے کہ افواج پاکستان بلوچستان سے لے کر پارہ چنار اور دوسرے علاقوں میں امن کے دشمن دہشت گرد گروہوں کے خاتمے اور پاکستان کو پرامن رکھنے کے لیے سخت ترین اقدامات کریں۔ پاکستان کے 25 کروڑ عوام آپ کے ساتھ ہوں گے اور کسی جگہ پر بھی آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ ہندوستان ہمارا ازلی دشمن ہے۔ وہ پاکستان کی سرحدوں کو غیر محفوظ کرنے کے لیے ہر قسمی حربے استعمال کرے گا۔ دوسری طرف افغانستان جو کہ ہمارا ہمسایہ ملک بھی ہے،ہمارے عوام نے اپنی سرزمین پر افغان مہاجرین کی میزبانی کی اور انہیں تحفظ فراہم کیا۔لیکن افسوس افغانستان کی حکومت اچھے ہمسائے اور برادر اسلامی ملک ہونے کا ثبوت نہیں دے رہی۔اسی طرح بھارتی سرپرستی میں بلوچستان کے اندر بھی جو کچھ ہو رہا ہے۔اس کا سامنا خود پاکستانی جوان اپنی جانوں کی قربانی دے کر کر رہے ہیں۔ وہ ملک و محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اورشر پسند گروہوں کو ختم کرنے کے حوالے سے ملت پاکستان آپ کے ساتھ کھڑی ہے لیکن جس طریقے سے شر پسند لوگ باہر سے حملہ آور ہورہے ہیں۔انہیں روکنے کے لیے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا، ورنہ نفرت کے جو بیج بوئے جا رہے ہیں اس کے اثرات انتہائی تکلیف دہ ہوں گے۔

مزید :

رائے -کالم -