مفاہمت کا بند راستہ کھولنے کی ضرورت

   مفاہمت کا بند راستہ کھولنے کی ضرورت
   مفاہمت کا بند راستہ کھولنے کی ضرورت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گزشتہ کئی ماہ میں نجانے کتنے کالم میں اس موضوع پر لکھ چکا ہوں کہ انا کے گنبد بے در سے نکلیں، ملک کو مذاق نہ سمجھیں اور اس ڈیڈ لاک کا حل نکالیں جو ہمارے پورے وجود کو اندر ہی اندر سے کمزور کررہا ہے مگر کون سنتا ہے فغانِ درویش، وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں کے مصداق نظام کو دھکا سٹارٹ گاڑی کی طرح چلایاجا رہا ہے۔ جب ملک کے اندر اتنی دوریاں، دراڑیں، فاصلے اور اختلافات ہوتے ہیں اور ان کا حل نکالنے کی بجائے طاقت یا ضد سے کام لیا جاتا ہے تو اسلام آباد کے ڈی چوک پر جو ہوا، اس سے بچا نہیں جا سکتا۔ اب اس پر باتیں،قیاس آرائیاں، الزام تراشیاں، صفائیاں اور نجانے کیا کیا کچھ ہوتا رہے گا۔بہرحال چاہے اصل حقائق سامنے نہ آئیں، چاہے یہ معلوم نہ ہو کوئی اس رات مرا یا نہیں، چاہے یہ فیصلہ نہ ہو کہ اپنی بڑی مشق کے باوجود بھی لوگوں کو اسلام آباد داخلے سے کیوں نہ روکا جا سکا، گولیاں چلیں یا پٹاخے چھوڑے گئے، لائٹ خود چلی گئی یا بند کر ائی گئی۔ کچھ بھی سامنے نہ آئے تو بھی اس واقعہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ 26نومبر رات ڈی چوک میں کچھ نہ کچھ تو ہوا تھا۔ سوال یہ ہے ہماری سیاست میں یہ رویے کہاں سے آ گئے ہیں۔ ہم نے اپنی تاریخ میں بڑی بڑی تحریکیں دیکھی ہیں۔ ایوب خان کے خلاف بڑی تحریک چلی، جس کے بارے میں کہتے رہے ہیں بھٹو اس کا ہیرو تھا، پھر ضیاء الحق کے خلاف تحریکیں چلیں، اس کے بعد پرویز مشرف کا دور آیا تو سیاسی قوتیں اپنا کام دکھاتی رہیں، درمیان میں کبھی بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف دیگر جماعتیں کمربستہ ہوئیں تو پھر نوازشریف کے خلاف بے نظیر بھٹو نے سیاسی جماعتوں کا اتحاد بنا کر تحریک چلائی، غرض یہ کوئی انہونی بات نہیں کہ ہم اچانک یہ سوچنے لگیں، ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ دھرنے بھی ہوتے رہے، جلسے اور ریلیاں بھی نکلتی رہیں۔ لانگ مارچوں کی روایت بھی پڑی، یہ سب کچھ ہوتا رہا اور ہمارے سیاسی نظام نے اسے معمول سمجھ کے قبول کرلیا۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے سیاسی قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطے اور مذاکرات بھی ہوتے رہے، یعنی راہیں نکلتی رہیں۔ ملک چلتا رہا، نظام آگے بڑھتا رہا۔ مجھے یاد ہے جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 1977ء میں تحریک چل رہی تھی تو ملتان میں حالات بے قابو ہو گئے تھے۔ فوج کو طلب کرلیا گیا تھا۔ ملتان کا علاقہ حسین آگاہی اور چوک بازار میدان جنگ بنا ہوا تھا تاہم ذوالفقار علی بھٹو کی حتی الامکان کوشش تھی معاملہ سیاسی رابطوں سے حل کیا جائے۔ ملتان میں فوج موجود ہونے کے باوجود اس نے ایک گولی بھی نہیں چلائی بلکہ یہ سن کر کہ فوج آ گئی ہے اس وقت  کے بے تاج سیاسی و روحانی بادشاہ مولانا حامد علی خان نے گرفتاری دینے کا فیصلہ کیا اور تمام مظاہرین کو کسی بھی قسم کے احتجاج سے روک دیا۔ وہ چوک بازار کی مسجد سے باہر آئے اور انہوں نے حسین آگاہی آکر گرفتاری دے دی۔ معاملہ  وقتی طور پر ٹھنڈا ہو گیا۔ فوج واپس چلی گئی۔ یہ وہ معاملہ فہمی تھی جو دونوں طرف سے دکھائی گئی اور کسی بڑی خونریزی سے بچا لیا گیا۔ اب تو یوں لگتا ہے ہم اپنے دشمن آپ بن گئے ہیں ایک ہی ملک کے ادارے اور عوام بھلا ایک دوسرے کے سامنے کیسے آ سکتے ہیں۔ ایسی نوبت آئے ہی کیوں کہ ہم دنیا کے لئے ایک تماشا بن جائیں۔ ایسے واقعات میں کسی کی ہار یا کسی کی جیت نہیں ہوتی بلکہ ملک ہار جاتا ہے، قوم ہار جاتی ہے۔ وزراء کو تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ایسے بیانات بھلا کون دیتا ہے کہ گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی تو یہ سب بھاگ جائیں گے۔اس میں انوکھی بات کیا ہے۔ گولیوں کی بوچھاڑ سے تو سبھی بھاگ جاتے ہیں۔ گولیوں سے حاصل ہونے والی فتح نہ پائیدار ہوتی ہے اور نہ فتح کے زمرے میں آتی ہے۔

اب یہ سوچنا بھی حماقت ہے کہ اس واقعہ کے بعد استحکام آ جائے گا جو آنے والوں کو واپس بھیجنے میں کامیاب رہے ہیں اگر وہ سمجھتے ہیں اب سب کچھ نارمل ہو جائے گا تو وہ سیاست کی رمز سے آگاہ نہیں۔ سیاست میں معاملات کو حل کیا جاتا ہے طاقت سے دبایا نہیں جاتا۔ طاقت سے صرف جنگیں لڑی جاتی ہیں اور ان جنگوں کے نتائج بھی میز پر بیٹھ کے مذاکرات سے نکلتے ہیں۔ اگر کوئی ذی شعور ہے تو وہ بخوبی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ پچھلے دواڑھائی برسوں میں جو حکمت عملی اختیار کی گئی اس نے ملک کو استحکام کی بجائے انتشار اور بے یقینی سے دوچار کیا ہے۔ اب ان یکطرفہ بیانات سے تو بات نہیں بن سکتی کہ دھرنے چھوڑ دو، ملک کو آگے بڑھنے دو، معاملات باتوں سے نہیں عملی اقدامات سے حل ہوتے ہیں۔ سیاست کو سیاست کی طرح چلائیں، اس سے خوف محسوس نہ کریں۔ ایک سیاسی جماعت ہے تو اس سے نفرت نہ کریں، اپنے اقدامات اور فیصلوں سے اس کا مقابلہ کریں۔ ایک ہڑتال یا احتجاج کی کال اگر پورا ملک بندکرا دیتی ہے تو اس خوف اور خبط سے نکلیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر تحریک انصاف کو اسلام آباد میں احتجاج کرنے دیا جاتا اور اسے روکنے کے لئے پورے ملک کی موٹرویز بند کرکے کشیدگی کی فضا کو ملک بھر میں نہ پھیلا جاتا تو اسلام آباد میں جو کچھ ہوا وہ بھی نہ ہوتا۔ اس واقعہ سے حکومت کے امیج کو اندرون و بیرون ملک جو نقصان پہنچا ہے، احتجاج کی اجازت دے کر اتنا ہی امیج بہتر ہو جاتا، مگر اس کا کیا کریں کہ ضد اور انا کی آندھی دونوں طرف چل رہی ہے۔ نقصان عوام کا ہوتا ہے اور جانیں ان کی جاتی ہیں۔ سیکیورٹی کے اہلکار ہوں یا عام سیاسی ورکر، وہ ہمارے ہی بیٹے ہیں، انہیں ایسی صورتِ حال میں لاکھڑا کرنا کہ جہاں دشمن کھڑے ہوتے ہیں ایک انتہا درجے کی بے حسی، بے تدبیری اور خود غرضی ہے۔

کیا 26نومبر کو جو کچھ اسلام آباد میں ہوا، اس سے دونوں فریقین کوئی سبق سیکھیں گے؟ کیا انتہا کا راستہ چھوڑ کردرمیان کا راستہ اختیار کریں گے۔ عمران خان جیل میں ہیں، ان کے لئے کوئی نرمی دکھائی جائے گی تو ڈیڈلاک میں نرمی آئے گی، انہیں صرف یہ کہہ دینا کہ وہ قوم پر رحم کھائیں اور خاموش ہو کر جیل میں دن گزاریں ایک غیر منطقی بات ہے۔ ان سے اگر باتیں منوانی ہیں تو اس پالیسی میں تبدیلی لانا ہوگی جو گزشتہ ڈیڑھ دوبرس سے جاری ہے جس کے تحت سختیاں کرکے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے اور اس کا نتیجہ ہم ڈی چوک کے سنگین واقعہ کی شکل میں دیکھ چکے ہیں۔ مفاہمت کی فضا پیدا کئے بنا ملک میں سیاسی استحکام نہیں لایا جا سکتا۔ سیاست کو سیاسی انداز سے آگے بڑھایا جائے تو راہیں کھلتی جاتی ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کل کلاں پی ٹی آئی ایک بار پھر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی کال دیتی ہے تو کیا اس سے نمٹنے کے لئے بھی یہی حکمت عملی اختیار کی جائے گی۔ کیا اس روایت کو آگے بڑھانا چاہیے یا اسے ختم کرنے کی تدبیر کرنی چاہیے۔ اب زمینی حقائق یہ ہیں کہ عمران خان اڈیالہ جیل میں ہیں۔ ان تک رسائی مشکل رہتی ہے۔ باہر ان کی جماعت مختلف گروپوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ لیکن تحریک انصاف کے کارکن اب بھی بانی چیئرمین کے لئے متحدہ ہیں اس صورتِ حال میں معاملات کا بگڑنا زیادہ ممکن ہوتا ہے۔ میری ناقص رائے میں حکومت کو ایک جرائت مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے تحریک انصاف کی قیادت بشمول عمران خان سے رابطہ کرکے حالات کو کشیدگی سے نکال کے مفاہمت کی طرف لانے کا راستہ کھولنا چاہیے۔ یہ راستہ کھولنا بہت ضروری ہے۔

مزید :

رائے -کالم -