مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:76
اس مقبرے کا کل رقبہ کوئی 9ہزار مربع فٹ ہے اور صرف اس کے مدفن والے ہال کا رقبہ 2 ہزار مربع فٹ سے زیادہ ہے۔ اتنی وسعت ہونے کے باوجود یہاں بھی گھٹن کا احساس ہوتا ہے حالانکہ مصنوعی طریقوں سے یہاں مناسب ہوا کی آمدو رفت کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اندر کا ماحول کچھ ایسا تھا کہ ذرا سی سرگوشی بھی سنگلاخی ستونوں، درو دیوار اور چھتوں سے ٹکرا کر شور بن کے ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ جگہ جگہ گائیڈ اپنے اپنے ساتھی سیاحوں کے ساتھ ان کمروں میں گھوم رہے تھے اور ہلکی آواز میں ان کی تاریخ بیان کر رہے تھے، جو درو دیوار سے ٹکرا کر پوری شدت سے سماعتوں کی طرف پلٹ آتی اور نا گوار سا تاثر پیدا کرتی تھی۔
میں نے ایک بار پھر اس سرخ بالوں والے بابے کے بارے میں سوچا جو قاہرہ کے عجائب گھر میں بے بس اور لاچار پڑا تھا۔ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ اس نے اپنے لئے اتنا بڑا اور عظیم ا لشان مقبرہ تعمیر کروایا،لیکن اسے وہاں چین سے رہنا نصیب نہ ہوا اور اب وہ ممی کی شکل میں جگہ جگہ بھٹکتا پھر رہا تھا۔ اب جب وہ اپنے عقیدے کے مطابق اپنی حیات ثانیہ کے لئے جاگے گا تو کسی عجائب گھر میں اپنے اردگرد پڑی ہوئی اشیاء اور ممیوں کو حیرانگی سے دیکھ کر سوچے گا کہ یہ وہ جگہ تو نہیں ہے جس کو اس نے اپنا دائمی مسکن بنایا تھا۔
وہاں ابھی مزید دیکھنے کو بڑا کچھ تھا لیکن میں وہی چیزیں بار بار دیکھ کر تنگ پڑ گیا تھا۔ احمد کو اشارہ کیا اور واپس جانے کا کہا اور پھر ہم آہستہ آہستہ چوبی سیڑھیاں چڑھتے اترتے اس عظیم فرعون کے اس مقبرے سے باہر نکل آئے۔ باہر ابھی تک سیاحوں کا ایک جم غفیر موجود تھا جو اندر جانے کے لئے بے چین تھے۔
بھوک لگ گئی تھی۔ ایک چھوٹے سے کیفے سے چکن سینڈوچ اورجوس لیا اور پھر وہیں کسی مقبرے کی مسمار شدہ دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ احمد بتا رہا تھا کہ ابھی کم از کم5 اور مدفن ہیں جو سیاحوں کے لئے کھلے ہیں اور وہاں جایا جاسکتا ہے۔ تاہم میں اب اکتا گیا تھا کیونکہ اندر ایک ہی طرح کے دیو ہیکل ستون اورمنقش دیواروں پر بنی ہوئی تصاویر اور تحریروں کو بار بار دیکھنا بڑا ہی صبر آزما کام تھا اور جو کوئی ایسا خوش کن بھی نہیں تھا۔ اسے کہا کہ باقی ہم اگلے کسی وقت کے لئے چھوڑ دیتے ہیں تاہم ان میں جو ایک آدھ مقبرہ کسی اہمیت کا حامل ہے وہ دیکھ آتے ہیں۔ اس نے حامی بھر لی اور کہا کہ ٹھیک ہے پھر ہم بادشاہوں کی وادی سے نکل کر ملکاؤں کے مقبروں کو کھوجتے ہیں اور فرعونی دور کی چند خوبصورت اور طاقتور ترین ملکاؤں کی ذاتی زندگیمیں بھی کچھ تانک جھانک کر لیتے ہیں۔
ملکہ حسن، نفرتاری
وہاں تھوڑا سا سستا کر احمد نے ایک بار پھرمجھے اپنے پیچھے لگایا اور بائیں طرف واقع ایک وسیع و عریض وادی کی طرف روانہ ہوا جو فرعون ملکاؤں کے مقبروں اور مدفنوں کے لئے مخصوص تھی۔ راستے میں اس نے مجھے بتایا کہ ہم لوگ اب فرعون رعمیسس ثانی کی انتہائی خوبصورت اور مصر کی ایک طاقتور ملکہ نفرتاری کے مقبرے کی طرف جا رہے ہیں۔ اس کے مقبرے کا نمبر سروے کے مطابق QV66 تھا۔ ویسے اس وادی میں مجموعی طور پر ملکاؤں اور شہزادیوں کے80 سے زائد مقابر موجود تھے۔ جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں