کئی راتیں رویا، تنہائی کاٹی، دل پر بوجھ رہا، اتنے دکھ سہے کہ بحرالکاہل بھی داد دیتا رہا کہ تیرے دکھ مجھ میں اترتے تو شاید ماؤنٹ ایورسٹ کو بھی ڈبو دیتا

Nov 29, 2024 | 11:43 PM

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:3
میرے والد نے اپنے بچپن کی باتیں مجھے سنائی تھیں۔ اپنے والد اور بابا کے قصے بتائے تھے۔ وہ میں نے کہیں نوٹ بھی کئے تھے مگر جب ان کی ضرورت پڑی تو مل نہ سکے۔ والد کے ایک ہی دوست حیات ہیں وہ بھی ماشاللہ94 برس کے ہیں لیکن یاداشت اب بھی بلا کی ہے۔ انہوں نے وہ سب باتیں سنا ڈالیں جو میرے والد نے سنائی تھیں۔ یہ سرمایا بھی اس کتاب میں شامل کرکے میں نے اس نسل کا قرض بھی اتارنے کی کوشش کی ہے جن کاپاکستان بنانے میں کوئی نہ کوئی کردار تھا۔ اللہ انکل سیلم شاہ کو سلامت رکھے۔ آمین۔
 میں زندگی کی کئی راتیں رویا ہوں۔ تنہائی کاٹی ہے۔ میرے دل پر تکلیف اور بوجھ کا بحر الکاہل رہا ہے۔ اتنے دکھ سہے کہ بحرالکاہل بھی داد دیتا رہا کہ میں تو غصے میں لہروں کو سینکڑوں فٹ اوپر اچھال دیتا ہوں، جہازوں کو غرق کر دیتا ہوں اور ایک تو ہے کہ سب کچھ حوصلہ سے خود پر برداشت کر گیا۔تیرے دکھ اگر مجھ میں اترتے تو شاید میں ماؤنٹ ایورسٹ کو بھی ڈبو دیتا۔خیرزندگی ہے۔ گلے شکوؤں، دکھ دینے والوں کا بھی کیا کر سکتا ہوں۔ بس دعا ہے اللہ اسے ہدایت دے۔ میں واحد مرد ہوں جو بڑا کمزور اور چھوٹے دل کا تھا۔ کچھ نہ کہہ سکا۔ بس اللہ کے کرم سے صبر کا پہاڑ ہی رہا۔ مجھے یقین ہے اللہ صبر کا پھل ضرور دے گا۔ میرا ماننا ہے کہ دکھی انسان سہارے کی تلاش میں رہتا ہے۔ میرا سہارا ویرانے اور دمکتے نظارے تھے، چندا ماموں تھا اور ستارے تھے یا کچھ دوست جو میرا دکھ بانٹ کر میرا غم ہلکا کردیتے تھے۔جب بھی مانگا اللہ سے ہی مانگا، مانگتا ہی رہا اور وہ دیتا ہی رہا کیانکہ صرف وہی دے سکتا ہے۔
تلخ حقیقت ملا حظہ ہو سچ بولنا اس خطے میں ناممکن ہوتا جا رہاہے۔ وہ بھی اس مملکت میں جو خدا کاتحفہ گنی جاتی ہے کہ یہ رمضان المبارک کی سب سے جلیل القدر رات میں وجود میں آ ئی۔ بقول شوکت تھانوی؛”سچ بولنا دنیا کا سب سے بڑا گناہ ہے۔ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھتے جائیے مصیبت میں آپ ان ہی کو مبتلا پائیں گے جو سچ بولنے والے گزرے ہیں۔ قانون بھی انہی کے خون کا پیاسا ہو جاتا ہے۔ جھوٹ بولتے رہیے، دھوکے دیتے جائیے، بے ایما نیاں کرتے جائیے۔ سب مطمئن رہیں گے۔ زندگی بھر کی ایمانداری کے بعد ایک بے ایمانی کر لیں، مقدمہ چل جائے گا۔ سزا ہو جائے گی۔ سچ بولیں۔ شاید ہی کوئی کہے گا اللہ نے اسے سچ بولنے کی توفیق دی ہے۔“
لکھنا شروع کیا تو میری پہلی اور تہہ دل سے کوشش تھی کہ میں سچ ہی لکھوں۔ ان باتوں کا تذکرہ کروں جو ان سالوں میں پیش آئے یا جن سے سامنا ہوا۔ لکھنا شروع کیا تو میری منصوبہ بندی کے برعکس واقعات اور یادیں آمڈتی چلی آئیں اور یہ آپ بیتی نہ چاہتے ہوئے بھی طویل ہوتی گئی۔ جب بھی لکھنے بیٹھتا تو کوئی نہ کوئی نئی بات یاد آ جاتی جسے نہ لکھنا نا مناسب تھا یوں صفحات بڑھتے چلے گئے۔ کہیں اگر بوریت محسوس کریں تو میں معذرت خواہ ہوں۔ بہت ہی جگہوں پر گو فیصلہ میرا ہی تھا لیکن ان میں دوستوں اور رفقاء کی محبت اور راہنمائی شامل تھی۔ یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ کہیں کہیں الفاظ ان جذبات کی تشریح نہیں کر سکے جس سپیرٹ سے بات ہوئی تھی۔ میری نالائقی سمجھ لیجیے گا۔
ریٹائیرمنٹ کے تین سال بعد لکھنے کا خیال آیا تو پہلا مسودہ چھ ماہ میں لکھ چکا تھا اور اگلے کچھ ماہ اس مسودہ کی نوک پلک درست کرتے گزر گئے اور پھرکچھ وقت کتاب کی چھپائی کے لئے پیسے اکٹھے کرنے میں گزر گیا۔ لکھنا آسان اور چھپوانا مشکل ہے کہ مہنگائی نے چیزیں پہنچ سے بہت زیادہ  باہر کر دی ہیں۔آپ بیتی کبھی بھی آپ تک نہ پہنچتی اگر میرا یار غار آغا بابر سعید اور اس کے دوست زاہد خاں اور شہاب بھائی کراچی والے(سبھی کیلے فورنیا امریکہ رہتے اور ماشا اللہ خوشحال ہیں۔) رقم مہیا نہ کرتے۔ میں تہہ دل سے ان کا شکر گزار ہوں۔ بابر تو میں ہی ہوں لیکن زاہد اور شہاب بھائی کاخاص طور پر ممنون ہوں۔ انہوں نے مل کر پاکستان میں آئی ٹی کا ایک بڑا پراجیکٹ Datarox  کئی ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری سے اسلام آباد میں شروع کیا ہے۔اللہ انہیں خوش رکھے اور ان کے کاروبار میں برکت دے۔ آمین۔ 
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں