مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:63
پہلی قسم سب سے زیادہ مروج ہے۔ لٹل ہوپ نامی بچی دوسری جماعت میں ہے۔ وہ ہر روز اپنی مصوری کی جماعت میں بہت بہت خوش جاتی ہے اور رنگوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بہت اطمینان و مسرت حاصل کرتی ہے۔ اس کی استانی اسے بتاتی ہے کہ درحقیقت وہ مصوری میں کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے لہٰذا یہ بچی اپنی استانی سے دور رہنا شروع کر دیتی ہے کیونکہ وہ اپنے بارے میں استانی کی متضاد رائے پسند نہیں کرتی، پھر فوراً ہی اس کی ذات میں یہ شناخت وعلامت پیدا ہونا شروع ہوگئی: ”میں مصوری میں بہت کم زور ہوں۔“ آہستہ آہستہ مصوری کی جماعت سے الگ رہنے کے باعث اس کے اس روئیے کو مزید تقویت پہنچتی ہے اور جب بالغ ہونے پر جب ا س سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ مصوری کیوں نہیں کرتی تو پھر اس کا جواب یہ ہوتا ہے: ”اوہ مجھے مصوری زیادہ اچھی نہیں آتی، میری تو ہمیشہ ہی یہی عادت ہے۔“ علامتیں اور شناختیں بچپن سے ہی آپ کو لاحق ہو جاتی ہیں، یہ اس وقت سے آپ پر سوار ہیں جب آپ نے اس قسم کے فقرات سنے تھے: ”وہ تو بڑا فضول قسم کا انسان ہے، اس کا بھائی بہت اچھا کھلاڑی ہے لیکن وہ بہت محنتی ہے ”یا“ تم بالکل میرے جیسے ہو‘ میرے بچے ہمیشہ سے کمزور تھے ”یا“ بل ہمیشہ سے ہی بہت شرمیلا تھا۔”یا“ وہ عین اپنے باپ کی مانند ہے، وہ بانسری نہیں بجا سکتی۔“ یہ وہ تمام پیدائشی علامات و شناختیں ہیں جو زندگی بھر قائم رہتی ہیں، جنہیں آپ کبھی بھی دور نہیں کر سکتے۔ انہیں محض معمولاتِ زندگی کی حیثیت سے قبول کر لیا جاتا ہے۔
ان لوگوں کے ساتھ گفتگو کریں جنہوں نے آپ کی زندگی میں آپ کو یہ شناختیں اور علامتیں عطا کیں۔ مثلاً والدین، خاندانی دوست، سابقہ اساتذہ، دادا دادی وغیرہ)۔ ان سے پوچھیے کہ ان کا کیاخیال ہے کہ آپ نے یہ عادات کیسے اپنائیں اور کیا آپ ہمیشہ سے ہی ان عادات میں مبتلا تھے۔ انہیں بتایئے کہ آپ یہ علامات تبدیل کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور دیکھیں کہ کیا وہ آپ کی اس صلاحیت پر یقین کرتے ہیں کہ نہیں۔آپ ان کی تشریح سن کر بہت ہی حیران ہوں گے کہ وہ کس طرح محسوس کرتے ہیں کہ آپ یہ عادات تبدیل نہیں کر سکتے کیونکہ آپ ہمیشہ سے ہی اس طرح کا رویہ اور طرزعمل اپناتے تھے۔
ان شناختوں اور علامات کی دوسری قسم وہ ہے جن کا ماخذ آپ کا وہ سہل پسند رویہ ہے جس کے باعث آپ مشکل اور پیچیدہ کام کرنے سے ہمیشہ اجتناب کرتے رہے۔ میں اپنے ایک گاہک کے ساتھ کام کر رہا تھا، جس کی عمر چھیالیس سال تھی، جسے کالج میں داخل ہونے کی شدید خواہش تھی، کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے باعث اسے کالج میں داخلہ لینے کا موقع نہیں ملا تھا لیکن یہ شخص اس امکان سے خوفزدہ تھا کہ اسے نوجوانوں کے ساتھ مسابقت میں شریک ہونا پڑے گا۔ ناکامی کے خوف اور اپنی عقل و سمجھ پر شک کے باعث اس کے دل میں خوف بیٹھ گیا تھا کہ وہ کالج میں داخلہ لینے کے قابل نہیں پھر اس نے باقاعدگی کے ساتھ مختلف کالجوں کے متعلق معلومات حاصل کرنا شروع کر دیں اورپھر وہ ایک نہایت ہی مناسب داخلہ امتحان میں شریک ہوا۔ داخلہ افسر نے اس کا انٹرویو لیا لیکن وہ پھر بھی اپنی کمزوری اور نااہلی پر مشتمل شناختوں اور علامتوں کا شکار ہے اور داخلہ امتحان کے عملی مراحل طے کرنے سے گھبراتا ہے، وہ اپنی اس غیرفعالیت کو ان فقرات کے ذریعے جائز قرار دیتا ہے۔ ”میں اس قدر بوڑھا ہو چکا ہوں کہ کالج میں مجھے داخلہ نہیں مل سکتا۔“ میں اس قدر قابل اور ذہین نہیں ہوں کہ کالج میں داخل ہو سکوں اور درحقیقت کالج میں داخلہ لینے میں مجھے کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں ہے۔“ یہ شخص اپنی اس شناخت و علامت کو اس امر سے محفوظ رہنے کے لیے استعمال کرتا ہے جو وہ واقعی چاہتا ہے۔ میرا ایک دوست ان کاموں کو سرانجام دینے سے انکار کر دیتا ہے اور اپنی بیوی سے یہ کہتا ہے: ”میں اب کارآمد نہیں رہا۔“ اس قسم کی شناختیں اور علامتیں خود آپ کی اپنی اختیارکردہ ہیں لیکن بہرحال یہ تمام عذرہائے لنگ ہیں، جب آپ یہ کہتے ہیں: ”یہ تو بہت ہی بیزارکن اور غیردلچسپ کام ہے اور میں اس وقت یہ کام نہیں کر سکتا (جو بالکل صحیح منطقی اور تعمیری ہے) تو اس وقت ایک اپنی شناخت و علامت کو نہایت آسانی کے ساتھ خود کے لیے جائز قرار دے لیتے ہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔