ہمارے ”مثالی حکمران“ اور ہم

ہمارے ”مثالی حکمران“ اور ہم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


                                                                        جناب ِ من!مشہور یوروپی دانشور میکا ولی کا کہنا ہے کہ لیڈر بنائے نہیں جاتے بلکہ پیدا ہوتے ہیں ۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے مگر یہ بات اس چیز سے تعلق رکھتی ہے کہ عظیم ماﺅں کے بچے بھی عظیم ہی پیدا ہوتے ہیں اور وہ مائیں جو اپنے اندر وفا ، قربانی اور صبر ورضا کا مادہ رکھتی ہیں ان کی کوکھ سے جنم لینے والے بچے ہی دھرتی کے سپوت کہلاتے ہیں اور اس فلسفہ کو پنجابی زبان کے مشہور صوفی شاعر میاں محمد بخش ؒ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
ول تمے دی کوڑی ہوندی اثر ہوندا وچ بیجاں
جیہڑا کم کردیاں ماواں اوہی کردیاں دھیاں
عالم اسلام کی تاریخ ایسے رہنماﺅں سے بھری پڑی ہے کہ جنہوں نے ایمانداری اور وفا شعاری کے وہ اعلیٰ نمونے دکھائے کہ جریدہ عالم پر وہ تا قیامت ستاروں کی طرح جگمگاتے رہیں گے مگر انتہائی دکھ کی بات ہے کہ ہمارے آج کے حکمران اس نکتہ کو سمجھنے سے حقیقی معنوں میں قاصر ہیں کہ قوم کا خادم ہی قوم کا سردار ہوتا ہے اور وہ دعوے تو ایسے کرتے ہیں کہ گویا عوام کے حقیقی نجات دہندہ اور ہمدرد اور غم خوار ہیں ان کے دن کا چین اور رات کا سکون جیسے عوام کی بہتری اور بھلائی کے لئے غارت ہوگیا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے کہ وہ عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ۔ غریب اور بے بس عوام کی خون پسینے کی کمائی کو قومی خزانے سے بے دریغ نکال کر ذاتی ضروریات کے لئے پانی کی طرح بہانے میں ہر قسم کی حدیں پھلانگ چکے ہیں اور اپنے حقیقی مقام کو یکسر فراموش کرکے اپنے اسلاف کی تاریخ کو یا تو مکمل طور پر بھلا چکے ہیں یا تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے شِمّہ برابر بھی دکھی عوام کے زخموں پر پنبہ اور مرہم رکھنا گوارا نہیں کرتے ۔ قرونِ اولیٰ کے اسلاف کے حالات کو پڑھ کر دیکھ لیں کہ ان کا اس ضمن میں کیا نمونہ تھا تو ایک وجد کی سی کیفیت انسان پرطاری ہو جاتی ہے مثلاً ایک دفعہ ہرقل (شاہ روم) نے بہت سے قیمتی موتی حضرت عمر ؓ کی خدمت میں روانہ کئے جب مدینہ پہنچے تو جوہریوں نے ان موتیوں کو بہت ہی قیمتی بتایا۔ دوسرے صحابہ کرام ؓ نے آپس میں مشورہ کرکے حضرت عمر فاروق ؓسے فرمایا کہ یہ ہدیہ ہے آپؓ کو مبارک ہو ! اس پر آپ ؓ نے فرمایا کہ” تمہارے کہنے سے یہ کس طرح میرے لئے جائز ہو سکتا ہے جب تک سارے مسلمان مجھے اس کی اجازت نہ دیں یہاں تک کہ وہ بچے بھی جو ماﺅں کے رحموں میں ہیں اور عمرمیں اتنی طاقت نہیں کہ قیامت کے دن ان بچوں کی حق تلفی کا جواب دے سکے ۔“ چنانچہ آپ ؓ نے ان موتیوں کو بیچ کر حاصل شدہ رقم بیت المال میں جمع کرادی ۔ جی ہاں ایسے ہوتے ہیں عوام کے حقیقی خیر خواہ کہ خود تو بھوکے رہتے ہیں مگر یہ گوارا نہیں کرتے کہ ان کے عوام قوت لا یموت تک کے محتاج رہیں لہٰذا عوام شکم سیر ہو کر کھاتے ہیں اور وہ خود رات کو جاگتے ہیں مگر ان کے عوام چین کی نیند سوتے ہیں ۔ یہ ایسے ہر دلعزیز اور پیارے وجود ہوتے ہیں کہ اپنے عمل اور کردار کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لئے زندہ رہتے ہیں اور کبھی نہیں مرتے ۔ ایسے لوگ ہی درحقیقت فاتح زمانہ ہوتے ہیں ۔
جناب من! اس وقت ہمارے نام نہاد حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ ان کی جائیدادیں ، کاروبار اور ان کی اولادیں غرضیکہ ان کا سب کچھ باہر کے ممالک میں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ تو اس ملک کے مہمان ہیں اورحصہ بقدر جثہ وصول کرنے کی سعی بلیغ میں مصروف ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ ملک کے اسی (80)فیصد وسائل پر یہی پانچ سو خاندان قابض ہیں اور اس ملک کے اصل مالک یعنی غریب اور بے بس عوام تو ملکی وسائل میں سے بس واجبی سا حصہ وصول کررہے ہیں ، نہ معیاری خوراک ان کو میسر ہے نہ ہی معیاری تعلیم کا حصول ان کے لئے ممکن ہے اور نہ ہی معیاری رہائش سے وہ بہرہ مند ہوتے ہیں اور جب بھی کسی آفت جیسے زلزلہ یا سیلاب وغیرہ کا شکار ہوتے ہیں تو حسرت اور یاس کی مجسم تصویر بنے نظر آتے ہیں بقول محسن نقوی مرحوم
محسن غریب لوگ بھی تنکوں کے ڈھیر ہیں
ملبے میں دب گئے ، کبھی پانی میں بہہ گئے
اس وقت جب عوام مصیبت کا شکار ہوتے ہیں تو ان کے نام نہاد ہردلعزیز اور الیکشن کے دنوں میں خوشحالی کی نوید سنانے والے اور وعدے، تسلیاں اور” لارے“ لگانے والے ہمدردحکمران دکھی عوام کو کُنج خمول اور گوشئہ ذہول میں چھوڑ کر نجانے کہاں چمپت ہوجاتے ہیں ۔ مگر اب عوام آہستہ آہستہ ایسے لوگوں سے آگاہ ہوتے جا رہے ہیں اور اب ان کو مزید بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا ۔ یہ حقیقت ہے کہ عوام کے حکمران اتنے دولت مند ہیں کہ ان کا شمار دنیا کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے اور اگر یہ چاہیں تو عوام کی راتوں رات تقدیر بدل سکتی ہے مگر ہنوز دلی دور است کے مصداق ان کے تیور ایسے نہیں لگتے اور کسی بھی قسم کی ایسی پالیسی یہ نازک مزاج بادشاہ تشکیل دینے کے موڈمیں نظر نہیں آتے جس میں کمزور اور پسے ہوئے طبقہ کو کچھ ریلیف مل سکے ۔ حالات یہ ہیں کہ بد عنوانی اور کرپشن کے جو مقدمات ان پر قائم ہیں ان کو سیاسی مقدمات کہہ کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ اعلیٰ عدالتوں تک کو آنکھیں دکھاتے نظر آتے ہیں کہ وہ کبھی عدالت کے سامنے پیش نہ ہونگے ایک سابق وزیراعظم کی مثال ہمارے سامنے ہے مگر ان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ ایک عالم الغیب ہستی انہیں ہر لمحہ دیکھ رہی ہے اور اسی کے حضور ایک دن تمام لوگوں نے لوٹ کر جانا ہے اس لئے اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرلیں کہ اب بھی ان کے پاس وقت ہے۔   ٭

مزید :

کالم -