سراج الحق کی حکمت عملی رنگ لائے گی؟
وہاں جشن کا سماں تو تھا، لیکن عاشورۂ محرم کے احترام اور سادگی کی پالیسی کے باعث انتظامات میں میانہ روی اختیار کی گئی تھی۔ ’’منصورہ‘‘ کے باہر ملتان روڈ عبور کرنے کے لئے بنائے گئے آہنی پل پر جماعت اسلامی کے پرچموں کی بہار تھی۔ منصورہ گیٹ پر مہمانوں کے لئے پروٹوکول اور سیکیورٹی کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔ سیکیورٹی گارڈز، مہمانوں اور گاڑیوں کو چیکنگ کے بعد اندر جانے کی اجازت دے رہے تھے۔ آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ منصورہ میں کوئی خاص تقریب ہو رہی ہے۔ جی ہاں !ایک اہم اور یادگار تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا،اوربلوچستان کے نو منتخب امراء کی تقریب حلف برداری ہو رہی تھی۔ جماعت کی مرکزی، چاروں صوبوں اور اضلاع کی قیادت کے علاوہ مقامی ذمہ داران بھی موجود تھے۔ مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے مقررہ وقت پر سٹیج سیکرٹری کے فرائض سنبھال لئے، اورکارروائی کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ لیاقت بلوچ نے اپنے مخصوص انداز میں بتایا کہ سٹیج پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے دائیں جانب نو منتخب امیر پنجاب میاں مقصود احمد اور بائیں طرف چودھری محمد سرور موجود ہیں۔ چودھری محمد سرور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ جماعت الدعوۃ کے امیر پروفیسرحافظ محمد سعید اہم مصروفیات کے سبب نہیں آ سکے، ان کی نمائندگی کے لئے امیر حمزہ موجود ہیں۔ اسی طرح مرکزی جمعیت اہلحدیث کے قائد علامہ زبیر احمد ظہیر اور انجمن شہریان لاہور کے تا حیات صدر رانا نذر الرحمن بھی موجود ہیں سٹیج پر بیٹھے ہوئے جماعت کے سینئر اور اہم رہنما فخر و انبساط اور عزم و ہمت کی تصویر دکھائی دے رہے تھے کہ جماعت اسلامی واحد دینی اور سیاسی جماعت ہے جس کے طے شدہ نظم و ضبط کے تحت مقررہ وقت پر ہر سطح کے انتخابات مقررہ مدت کے اندر بخیر و خوبی مکمل ہوتے ہیں جن میں جمہوری تقاضوں اور غیر جانبداری کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔جماعت اسلامی کے مرکزی امیر کا انتخاب پانچ سال کے لئے کیا جاتا ہے تاہم صوبائی امراء اور ضلعی امیر تین سال کے لئے، منتخب ہوتے ہیں۔ رواں مدت کے لئے پنجاب سے میاں مقصود احمد، سندھ سے ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی، خیبر پختونخوا سے مشتاق احمد خان اور بلوچستان سے مولانا عبدالحق ہاشمی کا انتخاب خفیہ رائے دہی کے ذریعے عمل میں لایا گیا۔
حسنِ اتفاق کہئے کہ آبادی کے لحاظ سے پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے تو اس کے منتخب امیر میاں مقصود احمد اپنے تجربے اور عمر کے حوالے سے دیگر تینوں امراء سے سینئر ہیں، اسی طرح دیگر امرأ بھی آبادی اور تجربے کے لحاظ سے دوسرے تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔ روایت کے مطابق نو منتخب امرأ سے کسی شخصیت نے حلف نہیں لیا،بلکہ چاروں امرا نے باری باری خود حلف کی عبارت پڑھی اور مرکزی امیر سراج الحق نے انہیں مبارک باد دی۔ خلاف روایت بات یہ ہوئی کہ سندھ کے امیر ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی کی آواز حلف کی عبارت پڑھتے ہوئے بھرّا گئی ا ور انہوں نے رقت کے عالم میں حلف اٹھایا۔ سراج الحق نے انہیں دلاسا دیا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنی نشست تک لائے پھر ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی سے پوچھا کہ آپ کی طبیعت خاصی جذباتی ہے۔ کیا آپ پر معمول کے مطابق رقت طاری ہوئی یا کوئی خاص وجہ تھی کہ آپ رونے لگے؟ انہوں نے پوری سنجیدگی سے جواب دیا: ’’بھائی!سچی بات ہے، خوفِ خدا سے رو پڑا کہ حلف کی عبارت کے مطابق عمل نہ کر پایا تو کیا کروں گا!‘‘
حلف برداری کی تقریب کا آخری آئٹم امیر جماعت سراج الحق کا خطاب تھا۔ انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ جماعت اسلامی کسی وڈیرے یا سرمایہ دار کی قیادت کے بغیر نہایت خوش اسلوبی سے اپنا سفر طے کر رہی ہے۔ کسی بھی سطح کا انتخاب ہو، غیرجانبداری، جمہوری اور خفیہ طریقے سے مکمل ہوتا ہے۔ کوئی پراپیگنڈہ، جھگڑا یا گروپ بازی نہیں ہوتی۔ خوش اسلوبی سے قیادت تبدیل ہو جاتی ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارا بنیادی ایجنڈا طے شدہ ہے۔ اسی ایجنڈے کے تحت ہم اس ملک اور معاشرے میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ اسی ایجنڈے کے تحت ظالم، استحصالی اور غیر منصفانہ نظام کو تبدیل کریں گے، انشاء اللہ۔ جماعت اسلامی ملک کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر بہت جلد سامنے آئے گی۔ سراج الحق کی یہ قوی امیدیں اور توقعات فطری ہو سکتی ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہر جدوجہد اور آمرانہ دور میں جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں نے قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے سٹیج پر بیٹھے ہوئے مرکزی سیکرٹری اطلاعات امیر العظیم کا ذکر خاص طور پر کیا اور یاد دلایا کہ امیر العظیم نے عدلیہ بحالی تحریک میں اپنی پیشانی پر زخم کھایا تھا، ایسے زخم ہمارے لئے باعث افتخار ہیں، لیکن چیف جسٹس چودھری افتخار نے بھی مایوس کیا۔ ظلم، نا انصافی اور سودی نظام کے خاتمے کے لئے پارلیمینٹ اور عدلیہ فیصلہ کن کردار ادا کرے گی تو بات بنے گی۔
ہم موجودہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوششوں کی ڈٹ کر مخالفت کریں گے۔ سراج الحق نے بھارت سے تعلقات اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے حکمرانوں پر بھی تنقید کی اور اس رائے کا اظہار کیا کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے آنے والے دور میں کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اپنے جذباتی انداز میں حکمرانوں کے ساتھ انہوں نے اپنی اتحادی جماعت، تحریک انصاف کو بھی ’’رگڑا‘‘ لگا دیا اور بھول گئے کہ چودھری محمد سرور کو انہوں نے اپنے ساتھ سٹیج پر بٹھا رکھا ہے۔ بطور مہمان ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا مناسب نہیں تھا۔ دراصل استحصالی اور غیر منصفانہ نظام کی بات کرتے ہوئے سراج الحق نے حال ہی میں قومی اسمبلی کے حلقہ 122میں الیکشن مہم کے حوالے سے کہہ دیا کہ وہ کسی منشور یا عوامی مسائل کے حل کے ایجنڈے کی مہم نہیں تھی، وہ دولت کے بل بوتے پر لڑی گئی جنگ تھی۔ ایسی جنگ ، سیاست ا ور جمہوریت کے حوالے سے کبھی مفید نہیں ہوتی۔ کوئی انقلاب نہیں لایا جا سکتا۔ ظاہر ہے، چودھری سرور تقریب میں ایسی گفتگو سننے کے لئے تونہیں آئے تھے۔
جہاں تک یہ سوال ہے کہ اپنی موجودہ ٹیم کے ساتھ تنظیمی معاملات اور سیاسی کامیابی کو سراج الحق کس طرح یقینی بنائیں گے؟ تو اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ تجربے اور جواں عزم کے ساتھ ناممکن کو ممکن بنایا جائے گا۔ چاروں صوبوں کے نئے امراء اور دیگر عہدیداروں کا جائزہ لینے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ سراج الحق اپنی حکمت عملی کو عملی شکل دے کر حصول منزل کی جانب رواں ہو رہے ہیں۔ پنجاب کے نئے امیر میاں مقصود احمد تجربے اور عمر کے لحاظ سے، سینئر ترین ہیں۔ ان کے بعد سندھ کے امیر ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی کا نمبر آتا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے امراء نسبتاً ’’جوان‘‘ ہیں۔ مرکزی قیادت میں بھی ایسا ہی اشتراک عمل پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میاں مقصود پنجاب کے سیکرٹری جنرل اور مرکزی نائب امیر بھی رہ چکے ہیں۔ انہیں پچھلے سال جب ضلع لاہور کا امیر مقرر کیا گیا تھا تو جماعت اسلامی کے ملک گیر’’اجتماع عام‘‘ کی میزبانی کے فرائض انہوں نے جس خوبی اور مہارت سے ادا کئے تھے، انہیں دیکھتے ہوئے سراج الحق نے اسی وقت سوچ لیا تھا کہ آئندہ انتخابی مرحلے میں اگر اراکین جماعت نے ان کے حق میں ووٹ دیئے تو بطور امیر جماعت وہ میاں مقصود احمد کو پنجاب کے امیر کی ذمہ داری سونپ دیں گے۔ ویسے بھی میاں مقصود احمد اپنے وسیع تجربے اور تنظیمی مہارت سے ماضی میں خود کو منوا چکے ہیں۔ دیکھئے اب وہ اپنی ذمہ داری کو کس طرح شاندار بناتے ہیں؟ قریب ترین مرحلہ بلدیاتی انتخابات ہیں۔ میاں مقصود نے اس کے لئے اچھی طرح منصوبہ بندی کر لی ہے، نتائج سامنے آئیں گے تو مزید پیش رفت زیادہ یا با اعتماد ہو گی۔ اسی طرح دوسرے صوبوں میں بھی امراء اپنی کارکردگی کو ثابت کریں گے تو سراج الحق کی توقعات بہتر انداز میں پوری ہوں گی۔