تعلیمی اداروں کی نجکاری ہرگز قبول نہیں، وزیراعلیٰ ہاؤس کا گھیراؤ کرینگے: گرینڈ ٹیچرز الائنس پنجاب
لاہور(لیاقت کھرل) صوبے بھر کی اساتذہ تنظیموں کے ہے کہ دسمبر کے پہلے ہفتہ تک تعلیمی اداروں کی نجکاری ، انتقامی کارروائیوں کے فیصلے واپس اور اَپ گریڈیشن نہ کی گئی تو صوبائی سطح پر احتجاجی تحریک،تعلیمی افسروں کے دفاتر کا گھیراؤ، احتجاجی دھرنے اور احتجاجی کیمپ لگائے جائیں گے، جبکہ لاہور میں ایوانِ وزیر اعلیٰ کا گھیراؤ اور بچوں سمیت شرکت اور تعلیمی اداروں کی تالہ بندی سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا اور مطالبات کی منظوری تک احتجاجی دھرنوں اور احتجاجی کیمپ ختم نہیں کیے جائیں گے۔ اس امر کا اظہار گرینڈ ٹیچرز الائنس پنجاب کے راہنماؤں سید سجاد اکبر کاظمی، رانا عطاء محمد، ظفر جمیل، چودھری سرفراز، ظفر اقبال، قاضی طارق جمیل ، چودھری محمد علی، مشتاق احمد ڈھڈی، محمد اقبال ڈولہ، رانا لیاقت علی اور زاہد بٹ نے ’’پاکستان فورم‘‘ میں کیا ہے۔ اس موقع پر مرکزی صدر سید سجاد اکبر کاظمی نے کہا کہ تعلیمی اداروں کی نجکاری اور ٹھیکے پر دینا تعلیمی نظام کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے غریب اور مزدوروں کے بچوں سے تعلیم کی سہولت چھن جائے گی اور وزیر اعلیٰ کا تعلیمی انقلاب لانے کا اعلان محض خواب بن کر رہ جائے گا۔ حکومت کے ساتھ نجکاری اور اساتذہ کی اَپ گریڈیشن کے ایشو پر متعدد بار اجلاس ہو چکے ہیں اور حکومت نے اساتذہ کی تنظیموں کے مشترکہ اتحاد گرینڈ ٹیچرز الائنس پنجاب کے راہنماؤں کے ساتھ کیے گئے معائدوں میں یقین دہانی اور طے کیا تھا کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری نہیں ہو گی۔ اس کے باوجود تعلیمی اداروں کی نجکاری اور ٹھیکے پر دینے کے سلسلہ کو واپس نہیں لیا جا رہا ہے جبکہ اساتذہ کی کئی برسوں سے اَپ گریڈیشن نہیں کی جا رہی ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ دیگر محکموں کے افسران اور کلرکوں کے سکیلوں کو اَپ گریڈ کر دیا گیا ہے۔ اساتذہ مسلسل سڑکوں پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر رانا عطاء محمد نے کہا کہ اساتذہ کو آواز اٹھانے پر امتحانات ، انرولمنٹ مہم ڈراپ آؤٹ اور پیک کے امتحانات کا بہانہ بنا کر دور دراز اضلاع میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور یہ سلسلہ شب و زور جاری ہے۔ بلاوجہ انتقامی کارروائیوں سے ہزاروں اساتذہ ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی محکمہ کو خیرباد کہہ چکے ہیں جس سے تعلیمی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب حکومت کو دسمبر کے پہلے ہفتہ تک مہلت دی جاتی ہے کہ چارٹر آف ڈیمانڈ پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو پھر دما مست قلندر ہو گا۔ اب کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے اور صوبائی سطح پر احتجاجی تحریک کا دائرہ کار بڑھا دیا جائے گا، جس میں پہلے مرحلہ میں پریس کلب ، دوسرے مرحلہ میں ضلعی تعلیمی سربراہوں کے دفاتر کے سامنے احتجاجی مظاہرے اور کیمپ لگائے جائیں گے۔ دوسرے مرحلہ میں لاہور میں سول سیکرٹریٹ کا گھیراؤ کیا جائے گا۔ تیسرے مرحلہ میں ناصر باغ س پنجاب اسمبلی تک احتجاجی ریلی نکالی جائے گی اور پنجاب اسمبلی کا گھیراؤ کر کے احتجاجی کیمپ لگایا جائے گا۔ پنجاب اسمبلی تک احتجاجی ریلی نکالی جائے گی۔ اس کے باوجودبھی تعلیمی اداروں کی نجکاری ، ٹھیکے پر دینے اور انتقامی کارروائیوں کا فیصلہ واپس نہ لیا گیا اور اساتذہ کی اَپ گریڈیشن سمیت دیگر مطالبات منظور نہ کیے گئے تو ایوانِ وزیر اعلیٰ کا گھیراؤ کیا جائے گا جس میں ایوانِ وزیر اعلیٰ کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا جائے گا اور احتجاجی کیمپ میں بچوں کو بھی شامل کیا جائے گا اور آخری مرحلہ میں تعلیمی بائیکاٹ اور تعلیمی اداروں کی تالہ بندی کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے اور مطالبات کی منظوری تک احتجاجی تحریک ختم نہیں کی جائے گی۔ اس موقع پر ظفر جمیل نے کہا کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں غریب اور مزدور کا بچہ تعلیم حاصل کرتا ہے۔ نجکاری اور ٹھیکے سے عام آدمی کا بچہ تعلیم سے محروم ہو جائے گا۔ حکومت نجکاری کی بجائے خود سرپرستی کرے۔ تعلیمی پالیسی بناتے وقت نام نہاد ماہرین کی بجائے اساتذہ تنظیموں کے نمائندوں سے مشاورت کی جائے۔ اس موقع پر چودھری سرفراز نے کہا کہ حکومت تعلیمی پالیسی خود بناتی ہے اور فلاپ یا ناکام ہونے پر سزا ٹیچر کو دیتی ہے۔ حکومت کو یہ رویہ ترک کرنا ہو گا اور بلاوجہ پیڈا ایکٹ لاگو کر کے اساتذہ سے نوکریاں چھیننے کا سلسلہ بند کرنا ہو گا۔ اب اساتذہ چین سے نہیں بیٹھیں گے اور اپنا حق لے کر گھروں کو واپس آئیں گے۔ کسی قسم کی حکومتی دھمکی میں نہیں آئیں گے۔ اس موقع پر محمد ظفر اقبال نے کہا کہ جس سکول کا رزلٹ بہتر کیا جاتا ہے اسے دانش اتھارٹی، کسی این جی او کے حوالے کر دیا جاتا ہے جبکہ مزید 2700 سکولوں کو پیف کے حوالے کیا جا رہا ہے جو کہ معائدہ کی خلاف ورزی ہے۔ وزیر اعلیٰ نوٹس لیں اور اساتذہ تنظیموں کے ساتھ خود مذاکرات اور معامالات کا جائزہ لے کر تعلیمی نظام کو تباہی سے بچائیں۔ وگرنہ تعلیمی انقلاب کا خواب محض نعرہ رہ جائے گا۔ اس موقع پر چودھری محمد علی نے کہا کہ100 فیصد کارکردگی یا ٹارگٹ زمینی حقائق کے برعکس ہے۔ وزیر اعلیٰ اس معاملے پر نام نہاد تعلیمی ماہرین کے اعداد شمار پر انحصار کرنے کی بجائے اصل حقائق پر غور کریں۔ تعلیمی اداروں کی نجکاری یا ٹھیکے پر دینے کے بجائے حکومت خود سرپرستی کرے۔ اس سے تعلیمی نظام تباہ ہو جائے گا۔ غریب کا بیٹا تعلیم سے محروم ہو کر رہ جائے گا۔ اس موقع پر رانا لیاقت علی نے کہا کہ حکمران استاد دشمنی کی بجائے استاد دوستی کا رویہ اپنائے۔ تعلیمی ادارے پرائیویٹ کرنے یا کسی این جی اوز کے حوالے کرنے کی بجائے آبادی کے تناسب سے تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھائی جائے۔ قاضی طارق جمیل نے کہا کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک درجنوں تعلیمی پالیسیاں بنائی گئیں جو کہ حکمرانوں کی نااہلی کے باعث تمام کی تمام فلاپ اور ناکام ہوئی ہیں۔ آج تک کسی کو سزا تک نہیں دی گئی نہ کسی سے پوچھا گیا ہے۔ موجودہ دور میں پالیسی خود بناتے ہیں اور سزا اساتذہ کو دی جا رہی ہے۔ اس موقع پر قاضی طارق جمیل اور مشتاق احمد ڈھڈی نے کہا کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں غریب کا بچہ، ریڑھی بان اور مزدور کا بیٹا تعلیم حاصل کرتا ہے۔ حالیہ امتحانات میں تندور چلانے والے، جھونپڑی والے کا بچہ اور ریڑھی بان کے بچے پوزیشن ہولڈر ہیں جو کہ سرکاری سکولز کے بچے ہیں۔ محمد اقبال ڈولہ نے کہا کہ سرکاری سکولوں رزلٹ 77.7 فیصد جبکہ پرائیویٹ سکولوں کا 54.1 فیصد ہے جبکہ گھوسٹ سکولز اور اساتذہ کی غیر حاضری کا سلسلہ ختم ہو کر رہ گیا۔ سرکاری سکولوں میں بہترین رزلٹ، بہترین پوزیشن ، بہترین ٹارگٹ دے رہے ہیں۔ معلوم نہیں کہ کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ سیکرٹری تعلیم اور محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار بغیر سوچے سمجھے کلہاڑا چلا رہے ہیں۔ زاہد بٹ نے کہا کہ حکومتی غلط پالیسیوں اور بیورو کریسی کی نااہلی کے باعث سرکاری سکولز ویران ہو رہے ہیں۔ گزشتہ سال 33 ہزار اساتذہ بھرتی کیے گئے جبکہ اس کے مقابلہ میں انتقامی کارروائی کے خوف سے 36ہزار اساتذہ خود چھوڑ گئے۔ حکومت ایک طرف اساتذہ کی بھرتی کر رہی ہے تو دوسری طرف پیڈا ایکٹ کے تحت بلاوجہ اور بغیر کسی انکوائری یا سماعت استاد کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ ذاتی طور پر مداخلت کریں تاکہ تعلیمی نظام میں بہتری اور نظام تعلیم بچ سکے۔