درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 21
ہمارے ایک راجپوت اور بڑے محلص دوست چودھری وجے پال سنگھ موضع کول کے رہنے والے ہیں اور یہیں کھولہ سے ملا ہوا ان کا ابہت بڑا فارم ہے۔کھولہ دراصل کوسوں میلوں میں پھیلے ہوئے انتہائی گھنے جنگلوں کا ایک سلسلہ ہے جس میں درندے، پرندے اور چرندے کثرت سے ملتے ہیں۔چودھری صاحب کا فارم موضع محمود پور سے کوئی ایک میل کے فاصلے پر ہے۔پروگرام یہ بنا کہ پہلے کول چلیں اور وہاں سے چودھری صاحب کے ہمراہ ان کے فارم پہنچیں۔ میں،میرا نواسا اطہر اور میرا چھوٹا لڑکا خالد، کول کے لیے روانہ ہوئے۔سرشام ہی ہم کول پہنچ گئے۔ راستے میں اطہر اور خالد نے دس بارہ کالے اور بھورے تیتر مار لیے تھے جو رات کے کھانے کے لیے بہت تھے۔ اگلے روز وجے پال کے چھوٹے بھائی نین سنگھ کے ساتھ شکار کی مہم پر روانہ ہونے کی تفصیلات طے پائیں اور رات کول ہی میں کاٹی۔
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 20 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دوسرے دن منہ اندھیرے ہم اپنی مہم پر روانہ ہوگئے۔ٹریکٹر لیا اور اس میں ٹرالی لگا لی۔ ہمارا یہ شکاری قافلہ آٹھ آدمیوں پر مشتمل تھا جس کا سالار مجھے بنایا گیا، ان کی فہرست سن لیجیے۔میرا نواسا اطہر،لڑکا خالد، چودھری وجے پال سنگھ کا بیٹا سنسار سنگھ، وجے پال کے بھائی نین سنگھ اور ایک فارسٹ گارڈ ہری چند جودہرہ دون سے چھٹی لے کر آیا ہوا تھا، کول کا ایک شوقین شکاری خزاں سنگھ اور ہمارا ایک مستقل شکاری ساتھی عباسی۔۔۔ہری چند نہایت عجیب و غریب آدمی تھا۔ جسم مائل بہ فربہی، اس کی پتلون ہمیشہ توند سے کھسکتی رہتی جسے بار بار سنبھالنا اس کا مشغلہ تھا۔ اس شخص نے اپنی بہادری اور جی داری کے کارنامے سنا سنا کر کان کھالیے۔ظالم نے باتوں باتوں میں سینکڑوں شیروں اور چیتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جاتا کہ آپ لوگوں کو شاید ان واقعات پر یقین نہیں آرہا ہے۔خیر، اگر درندہ سامنے آیا تب میرا تجربہ دیکھیے گا۔ معلوم ہوا کہ تفریح طبع کے لیے یہ شخص بہت موزوں ہے۔چنانچہ لڑکوں نے اسے بنانا اور چھیڑنا شروع کر دیا۔ میں بھی ان کی چھیڑ چھاڑ سے خاصا لطف اندوز ہو رہا تھا۔ عباسی اور نین سنگھ بڑے بھاری شکاری تھے۔ وہ بھی ہری چند کی باتوں پر مسکرارہے تھے۔
دوپہر تک یہ شکاری قافلہ فارم پر پہنچ گیا۔ راستے میں لڑکوں نے چند تیتر اور مار لیے جو فارم پر بھونے گئے۔ اپنے ہاتھ کا یہ کھانا شاہی رکاب داروں کے پکائے ہوئے پکوانوں سے کہیں لذیذ تھا۔۔۔کھانے کے بعد پروگرام یہ بنا کہ بیلیا کاہانکا کرایا جائے۔بیلیا قریب ہی ایک شکاری علاقہ تھا جس میں جنگلی قد آدم گھاس پیڑا اور بولا بہت گھنی تھی۔گرمیوں کے موسم میں یہ علاقہ خاصا ٹھنڈا رہتا ہے،اس لیے جنگلی درندے پناہ لینے اور مزے کی نیند سونے کے لیے کثرت سے اس گھاس میں آجاتے ہیں۔یہاں یہ واضح کر دوں کہ ہانکا یا ہنکو ایک خاص شکاری اصطلاح ہے جس میں درندوں کی راہ گزر پر شکاری کھڑے ہو جاتے ہیں اور راہ گزر کو شکار کی زبان میں ڈگر کہتے ہیں۔مخالف سمت سے دوسرے لوگ پیڑے اور بولے میں شور مچاتے ہوئے چلتے ہیں۔اس کی وجہ سے درندے خوفزدہ ہو کر ڈگر سے باہر نکلتے ہیں اور شکاری فائر کرکے انہیں ڈھیر کرتا جاتا ہے۔ہانکا کرانے کے لیے محمود پور سے آدمی بلوائے گئے۔
ہمارے پاس بارہ بور کی چار بندوقیں تھیں۔یہ بندوقیں میرے،اطہر،خالد اور سنسار کے ہاتھوں میں تھیں۔ہم چاروں چارڈگریوں پر کھڑے ہو گئے۔ہانکا شروع ہو گیا۔ سب سے پہلے ایک نیلا(نیل گائے کانر)اطہر کے سامنے نکلا۔ میں نے تسلی کرلی کہ یہ نیلا ہی ہے ناں،کیونکہ یہ مادہ سے زیادہ سخت جان ہوتا ہے اور سب سے پہلے شکاری کو اسکی پہچان کرنا ہوتی ہے کہ وہ نیل گائے ہے یا نیلا ؟خیراطہرنے فائر کیا۔ گولی نیلے کی گردن میں لگی، لیکن نیلا بہت بڑا اور نہایت سخت جان ہوتا ہے،اس کی ایک گولی کو وہ کیا خاطر میں لاتا؟اطہر کا دوسرا فائر بھی نیلے کو گرانے میں ناکام رہا۔ یہ گولی اس کی پیٹھ پر لگی۔ خالد،اطہر سے دائیں سمت ذرا آگے کھڑا تھا وہ بے اختیار نیلے کی طرف بھاگا اور کوئی بیس گز کے فاصلے سے اس پر فائر کیا۔نیلا گرا، لیکن فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔خالد کے دوسرے فائر نے اس کی کھوپڑی میں سوراخ کر دیا اور وہ بری طرح ڈکراتا ہوا ڈھیر ہو گیا۔بعد میں جب اس کا وزن کیا گیاتو سات من نکلا۔نیلے کو ذبح کر کے ہم اپنی جگہ واپس آگئے۔ اس کے بعد ایک پاڑا نکلا۔ اس پر بیک وقت میں نے ،اطہر نے اور خالد نے فائر کیا۔ تینوں گولیاں اس کے جسم میں پیوست ہوئیں اور وہ ایسا گرا کہ دوبارہ نہ اٹھ سکا۔ ہم نے نیلے اور پاڑے کی کھالیں اتار کر سارا گوشت گاؤں والوں کے حوالے کر دیا۔ محمود پور کے مسلمانوں کی تو گویا بقر عید ہو گئی۔
رات کا اندھیرا،دن کے اجالے کو اپنی آغوش میں لے چکا تھا۔ چنانچہ ہم بیلیا سے فارم کی جانب روانہ ہو گئے۔ جووہاں سے ڈھائی میل دور ہو گا۔ دوسرا دن بڑی مصیبت کا گزارا۔نہ جانے صبح صبح کس کا چہرہ دیکھا کہ پھرتے پھرتے دوپہر ہو گئی اور ہزار کوششوں کے باوجود چند تیتروں کے سوا کوئی بڑا جانور ہاتھ نہ آیا۔سہ پہر کے وقت اطہر اور خالد نے فارم ہی پر ایک قوی ہیکل جنگلی سور مارا جو تیتروں کی آلائش کی بوپا کر آیا تھا، سہ پہر سے شام ہو گئی۔تیتروں سے جی بہلاتے ہوئے ہم لوگ ایک کھتے پر پہنچے۔اس علاقے میں کھتے کی تعریف یہ ہے کہ گوالے جنگل کے جس حصے میں جھونپڑیاں ڈال کر گنائیں بھینسیں پالتے ہیں،اسے کھتہ کہتے ہیں۔گوالوں نے ہماری آؤ بھگت کی ہمیں دودھ پلایا۔اس دوران میں گوالے نین سنگھ اور عباسی کو ایک طرف لے جاکر کچھ باتیں کرنے لگے۔ دیر تک ان میں زور شور سے باتیں ہوتی رہیں۔اس کے بعد وہ میرے پاس آئے۔گوالوں نے بتایا کہ ایک گل دار(چیتا)ان دنوں اس علاقے میں موجود ہے اور وہ اب تک ان گوالوں کے پانچ قیمتی مویشی ہلاک کر چکا ہے۔ان میں دو بچھڑے، ایک گائے اور دوبیل شامل ہیں۔میں نے ان گوالوں سے جرح کی کہ کیا بیل ابھی بچھڑے ہی تھے؟ انہوں نے بتایا کہ پورے تندرست اور توانا بیل تھے۔ تب میں نے انہیں بتایا کہ بے وقوفو بیل کو مارنا گل دار کے بس کی بات نہیں۔یہ کام صرف شیر کا ہے اور ہمارے پاس صرف بارہ بور کی بندوقیں ہیں۔جن سے شیر مار نے کا خیال بھی دل میں لانا صریح حماقت اور موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے، تاہم میں نے ان سے وعدہ کیا کہ ہم جلد واپس آئیں گے اور رائفل لانا نہ بھولیں گے۔(جاری ہے)
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 22 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں