1946ء میں لاڈر پیتھک لارنس کانگریس اور مسلم لیگ کے لیڈروں کے ساتھ اقتدار کی منتقلی کی بات چیت کرنے کے لئے ایک وفد لے کر آئے۔ منصوبہ یہ تھا کہ پانچ یا سات صوبے بنا کر انہیں وسیع تر داخلی خود اختیاری دے دی جائے۔ ان صوبوں کو یہ حق ہوگا کہ دس سال بعد وہ چاہیں تو وفاق سے الگ ہوسکتے ہیں۔ یہ منصوبہ کیبنٹ پلان کے نام سے مشہور ہوا۔ اس منصوبہ کے تحت مصوبوں کی مجوزہ گروپ بندی اس طرح کی گئی تھی۔ پنجاب شمالی صوبجات اور بنگال (ان میں سے ہر ایک میں مسلمانوں کی اکثریت تھی) مدارس اور جنوبی ہند (جن کی آبادی دارادڑنسل کے لوگوں کی ہے) بمبئی اور اس سے متصل صوبجات، یوپی اور وسطی صوبجات، وفاقی حکومت کو صرف دفاع، مواصلات، کرنسی اور خارجہ تعلقات کے محکمے سپرد ہونے تھے۔ اس منصوبہ میں درپردہ یہ مقصد کارفرما تھا کہ ہندوستانی فوج حسب سابق متحد رہے۔ اس منصوبہ پر غور کرتے وقت مسٹر جناح کے ذہن میں بنگال اور پنجاب کی اُس وقت کی جغرافیائی حدود تھیں۔ ان صوبوں کی تقسیم کا کسی کو خیال تک نہ تھا۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 64 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پیتھک لارنس نے چند شرائط پیش کی تھیں اور اعلانیہ کہہ دیا تھا کہ اگر ہندو اور مسلمان ان شرائط کے تحت حکومت کی ذمہ داریاں قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوئے تو برطانیہ حکومت اس پارٹی کے حوالے کردے گا جو ان شرائط کو منظور کرے گی۔ مسٹر جناح نے وہ شرائط منظو رکرلیں۔ ہندوؤں نے مسترد کردیں لیکن برطانیہ نے حکومت مسلمان اقلیت کے حوالے نہیں کی جو ملک کی مجموعی آبادی کا صرف 25 فیصد تھی۔ چنانچہ بعض لوگوں نے کہا کہ برطانیہ کی مذکورہ بالا پیشکش کا مقصد کانگریس اور ہندوؤں کو دھمکی دے کر اس امر پر آمادہ کرنا تھا کہ وہ کابینہ کا منصوبہ منظور کرلیں لیکن مسلمانوں سے زیادہ برطانوی حکومت کے مزاج دان ہندو تھے۔ انہوں نے اس دھمکی کی پرواہ نہیں کی۔
برطانوی حکومت کی مخلصانہ کوشش یہ تھی کہ ہندوستان کس طرح مطمئن ہوجائے اور وہ اپنی خوشگوار یادیں چھوڑ کر یہاں سے رخصت ہوں۔ ان کی خواہش تھی کہ ہندوستان کے ساتھ نفع بخش تجارت اور کاروباری تعلقات اس کے بعد بھی باقی رہیں۔ جب مسلم لیگ کی جانب سے منصوبہ کی منظوری کے باوجود برطانوی حکومت اپنے دعوے سے پھر گئی اور اس نے اقتدار مسلمانوں کے سپرد کرنے سے انکار کردیا تو مسٹر جناح نے بمبئی میں ایک عام جلسہ منعقد کیا۔ وہ تمام مسلمان، جنہوں نے برطانوی حکومت کی زبردست خدمات انجام دی تھیں ڈائس پر فرداً فرداً آتے اور یہ اعلان کرتے کہ ہم برطانوی حکومت کے عطا کردہ اعزازات اور خطابات کو آئندہ استعمال نہیں کریں گے۔ آج کے بعد سے ہماری تمام کوششیں پاکستان کے مطالبہ کو تقویت پہنچانے کے لئے وقف ہوں گی۔
اس واقعہ کے بہت دنوں بعد ایک دن بعض انگریز اپنے چند مسلمان دوستوں کے ساتھ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کررہے تھے۔ مسلمان دوستوں نے مسلمانوں کی اس عام شکایت کا ذکر کیا کہ انگریزوں نے ہندوؤں کی تو ہر طرح دلدہی کی لیکن مسلمان اقلیت کی دل شکنی کا کبھی خیال نہیں کیا۔ حالانکہ اقلیت گزشتہ پچاس سال میں ہر مشکل وقت پر برطانیہ کے آڑے آئی ہے۔ ایک انگریز نے جب یہ سنا تو پلٹ کر کہا ’’ادھر دیکھو میری بات سنو! بڑا ملک کون ہے۔ ہندوستان یا پاکستان؟ تجارت، لین دین، سودے اور دولت میں زیادہ مضبوط کون ہے؟ اخبارات کس ملک میں زیادہ بااثر ہیں۔ ہمیں تاجروں کی قوم کہا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے ہم تاجر ہی ہیں۔ ہم نے ہندوستان اور پاکستان کو ترازو میں تول کر دیکھ لیا ہے۔ ہم نے طے کیا ہے کہ ہندوؤں کی خوشنودی ضرور حاصل کرنی چاہیے اور اگر اس کے لئے مسلمانوں کو نظر انداز بھی کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے۔‘‘
انگریز اس وقت ہندوؤں کو خوش کرنے پر اس قدر بضد تھے کہ انہوں نے ایک مخلوط آئین ساز اسمبلی کے لئے نمائندوں کے انتخاب کا انتظام بھی کرلیا تھا اور ان میں میرا نام بھی شامل تھا لیکن مسلم لیگ نے اس سے عدم تعاون کا فیصلہ کیا اور اس کے پہلے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
دلبھ بھائی پٹیل (پٹیل کے معنی ہیں گاؤں کا مرہٹہ سردار)جو ہندوؤں میں ایک بہت بڑی طاقت درہستی تھے۔ لارڈمونٹ بیٹن کی عبوری کابینہ میں مرکزی وزیر تھے۔ اس کابینہ میں کانگریس اور مسلم لیگ کی طرف سے نہرو اور نواب زادہ لیاقت علی خاں جیسے لیڈر شامل تھے۔ بہرحال پٹیل نے اصرار کیا کہ مسلمان اگر پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں تو کم سے کم دو صوبوں میں ہندوؤں کے اکثریتی علاقوں کو ہندوستان میں شامل کرنا پڑے گا۔ اگر مسلمانوں کو ہندوؤں کی حکومت میں رہنا منظور نہیں تو ہندوؤں کو مسلمانوں کے زیر اقتدار پاکستان میں رہنے پر کس طرح مجبور کیا جاسکتا ہے۔ یہ دلیل قابل فہم تھی اور منصفانہ بھی یہ مسلمانوں کی خوش قسمتی تھی کہ پٹیل اس مطالبہ میں کامیاب ہوگئے اور بنگال اور پنجاب کو ہندو انڈیا اور پاکستان کے درمیان تقسیم کردیا گیا۔ مَیں نے اسے مسلمانوں کی خوش قسمتی تھی کہ پٹیل اس مطالبہ میں کامیاب ہوگئے اور بنگال اور پنجاب کو ہندو انڈیا اور پاکستان کے درمیان تقسیم کردیا گیا۔ میں نے اسے مسلمانوں کی خوش قسمتی اس لئے کہا ہے کہ میرے خیال میں ہندو اگر مغربی پاکستان میں رہ جاتے تو وہ سکھوں کے ساتھ مل کر ایک نہایت مضبوط اقلیت بن جاتے اور اس صوبہ کی سیاسی اقتصادی زندگی کو اپنے مقصد کے لئے اس طرح استعمال کرتے جس مشرقی بنگال کے ہندو کررہے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے بھی سکھوں کے ساتھ ہماری ہمیشہ ٹھنی رہتی۔ فروری 1947ء میں تقسیم پر اتفاق رائے ہوگیا اور جون میں پنجاب، بنگال اور آسام کی قانون ساز اسمبلیوں کے ارکان سے دریافت کیا گیا کہ آیا انہیں اپنے صوبوں کی تقسیم منظور ہے؟
ان ارکان نے پنجاب، آسام اور بنگال کی تقسیم کا فیصلہ کیا۔ بعض لوگ بڑے وثوق سے یہ کہتے ہیں کہ ہندوستانی فوج کو جو مکمل طور پر وفادار تھی اگر ہندوستان کے تصرف میں نہ دیا جاتا اور اس کی امداد کے لئے برطانوی فوجی دستے بھی متعین کردئیے جاتے تو ملک میں امن قائم رہتا اور دس لاکھ مسلمان مردوں اور عورتوں کا قتل عام نہ ہوتا جس کے ساتھ لاکھوں مسلمانوں کے ترک وطن کا سلسلہ بھی شامل ہوگیا تھا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انسانی تاریخ میں نقل مکانی کی اتنی بڑی مثال نہیں ملتی۔ اس نظریہ کو مَیں قبول نہیں کرتا۔ فوج اگر انگریزوں کے ہاتھ میں ہی رہتی تو انگریزوں کو اسے جلد ہی ہندوؤں کے حوالے کرنا پڑتا اور اس کے بعد پاکستان کبھی قائم نہ ہوتا۔
(جاری ہے )