احتساب کا شور اور نیب کا کچھوا

احتساب کا شور اور نیب کا کچھوا
احتساب کا شور اور نیب کا کچھوا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اب یہ سوال تو واقعی بنتا ہے کہ احتساب کا سلسلہ اگر اتنی شدومد سے چل رہا ہے تو اُس کا کوئی نتیجہ کیوں نہیں نکل رہا؟ چیئرمین نیب آئے روز ایک اجلاس کرکے یہ نوید سنا جاتے ہیں کہ کسی بدعنوان کو نہیں چھوڑیں گے، مگر وہ اپنے ابھی تک کے عرصے میں کسی ایک ملزم کو بھی سزا نہیں دلا سکے، نہ ہی کوئی بڑی ریکوری کرسکے ہیں، پلی بارگین کی دو چار مثالوں کے ساتھ نیب اپنی فخریہ داستان نہیں سنا سکتا۔ عام آدمی تو رہا ایک طرف، خود چیف جسٹس میاں ثاقب نثار بھی یہ کہتے کہتے تھک گئے ہیں کہ نیب کرکیا رہا ہے، آخر کوئی کیس اختتام کوکیوں نہیں پہنچتا؟ اول تو نیب کی تفتیش ہی مکمل نہیں ہوتی، اتفاق سے مکمل ہو جائے تو ریفرنس دائر نہیں ہوتا، وہ بھی ہو جائے تو عدالت کا فیصلہ ہی سال ہا سال تک نہیں آتا، حالانکہ نیب قانون کے مطابق ایک ماہ میں فیصلہ ضروری ہے۔

اُدھر وزیر اعظم عمران خان اور اُن کے وزیر اطلاعات فواد چودھری آئے دن یہ اعلان کرتے ہیں کہ کسی بدعنوان کو نہیں چھوڑیں گے۔ فواد چودھری نے تو آئندہ چند ہفتوں میں 40 سے زائد سیاستدانوں کے جیل جانے کا شگوفہ بھی چھوڑ دیا ہے۔ عوام پوچھتے ہیں کہ یہ جیل جانے سے کیا حاصل ہوتا ہے، اصل کام تو لوٹی دولت کو واپس لانا ہے، وہ تو کہیں نظر نہیں آرہی؟ وزیر اعظم کو قومی خزانہ بھرنے کے لئے قرضے اور امداد مانگنا پڑ رہی ہے۔ بعض اوقات تو یوں لگتا ہے کہ نیب عوام کے ساتھ کوئی بڑی گیم کر رہا ہے۔ بڑے بڑے لٹیروں کو کئی کئی ماہ حراست میں رکھنے کے باوجود کچھ بھی نہیں نکلتا، اُلٹا انہیں کلین چٹ مل جاتی ہے اور وہ بڑی دلیری سے دندناتے پھرتے ہیں۔ نیب کو سوچنا چاہئے کہ وہ کب تک عوام کو احتساب کی جھوٹی تسلیاں دے سکتا ہے؟ ڈاکٹر عاصم حسین کو بڑی شدومد سے گرفتار کیا گیا، ساڑھے چار سو ارب روپے کی کرپشن کے الزامات لگائے گئے، یوں لگا جیسے نیب نے ملک کا سب سے بڑا مالی چور پکڑ لیا ہو، پھر کیا ہوا کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ بس ریفرنس بنے، عدالت میں گئے، ڈاکٹر عاصم حسین ضمانت پر باہر آگئے اور اب آئے روز صرف یہی خبر آتی ہے کہ انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی گئی ہے یا وہ واپس آگئے ہیں۔

شرجیل میمن کا قصہ بھی سب کے سامنے ہے، نیب نے آخر کیا ثبوت اکٹھے کئے ہیں جو ابھی تک عدالت میں ثابت نہیں ہو رہے، انہیں کبھی ہسپتال میں داخل ہونے کا ڈرامہ کرنا پڑتا ہے اور کبھی وہ جیل چلے جاتے ہیں، کہاں ہے نیب آرڈیننس کا وہ قانون کہ ایک خاص مدت میں ریفرنسوں کا فیصلہ ہونا چاہئے۔ یہاں تو ایسا لگتا ہے کہ صرف چوہے بلی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور کچھ بھی نہیں۔ نیب عدالتوں میں صرف اُن کیسوں پر شاید بروقت فیصلے آتے ہیں، جن کی نگرانی سپریم کورٹ کرتی ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف فیصلہ بھی مدت میں اضافہ در اضافہ کرنے کے بعد آیا۔ یہ کیا تماشا ہے، کوئی اس پر بھی روشنی ڈالے۔ ایک طرف احتساب کا اتنا غلغلہ اور دوسری طرف یہ کچھوے کی چال، کیا ان دونوں میں کوئی تال میل نظر آتا ہے؟ چیئرمین نیب سے کون پوچھے اور وہ کیوں بتائیں، سب کچھ خفیہ ہے،

نیب کے ترجمان گاہے بہ گاہے اخبارات میں ایک آرٹیکل چھپوا دیتے ہیں، جس میں نیب کی اعلیٰ کارکردگی کے یکطرفہ ڈھنڈورے پیٹے گئے ہوتے ہیں، حالانکہ زمینی حقائق ان سے قطعاً لگا نہیں کھاتے۔ سرکاری ملازمین، پٹواریوں اور اسی قبیل کے دوسرے افراد سے پلی بارگین کے ذریعے پیسے نکلوانے کی داستانوں کے سوا نیب کی پٹاری میں کچھ بھی نہیں۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ خزانہ لوٹنے والوں کو جیلوں میں ڈالیں گے، جبکہ نیب کہتا ہے جیلوں میں کسی کو نہیں ڈالنا، بس جو پیسے دیتا جائے وہ نیٹ اینڈ کلین ہو کر ہنسی خوشی زندگی گزارے۔ اس پلی بارگین کا فیصلہ بھی نیب ہی کرتا ہے، جس پر سپریم کورٹ نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔ اب کوئی نیب سے پوچھے کہ اس نے فواد حسن فواد اور احد چیمہ کو پکڑ رکھا ہے، اتنا عرصہ بندہ پنجاب پولیس کی تحویل میں رہے تو اپنے اگلے جنم کے جرائم بھی تسلیم کر لیتا ہے، لیکن نیب ہے کہ ابھی تک ان کے خلاف کوئی مضبوط کیس ہی نہیں بنا سکا۔ کل کلاں اگر یہ دونوں قانونی مدت گزر جانے کی وجہ سے ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں تو نیب کی ساری کہانی پانی کا بلبلا ثابت ہو گی اور عوام میں احتساب کے حوالے سے شدید مایوسی پھیل جائے گی۔

نیب نے ہر چیز کو خفیہ رکھا ہوا ہے۔ اس کا پُراسرار نظام ہی اس کی سب سے بڑی خرابی ہے۔ شفاف احتساب کی باتیں تو بہت ہوتی ہیں، لیکن احتساب بیورو کے عمل میں شفافیت مفقود ہے۔ بات نیب کے طلبی نوٹسوں سے آگے بھی بڑھنی چاہئے۔ طلبی کا نوٹس جاری ہوتے ہی میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے، جیسے کل ہی اس بندے کو سزا ہونے جا رہی ہو، جسے طلب کیا گیا ہے۔ شہباز شریف کو طلب کر کے گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد ان سے کیا اُگلوایا گیا، کیا منوایا گیا؟ گرفتار بندہ تو ایک دن میں سب کچھ بتا دیتا ہے، نیب نوے دن تک اپنی حراست میں رکھنے کے باوجود خالی ہاتھ کیوں نظر آتی ہے، کیا اس نے ہوم ورک نہیں کر رکھا ہوتا یا پکڑے جانے والا بہت سخت جان ہوتا ہے، جس رفتار سے نیب احتساب کر رہا ہے۔

اس سے تو آئندہ پچاس برسوں میں بھی نہیں لگتا کہ کرپشن میں کمی آئے گی۔ عمران خان جتنا مرضی بلند بانگ دعوے کرتے رہیں، انہوں نے خود تو احتساب کرنا نہیں، یہ کام تو نیب کا ہے، اس کے کام میں تو کوئی تیزی یا بہتری نظر نہیں آ رہی ،عوام رفتہ رفتہ احتساب کے دعوے سے مایوس ہو رہے ہیں۔ انہیں لگ رہا ہے کہ پاکستان میں لوٹنا آسان ہے، اس لوٹے ہوئے کو واپس لانا تقریباً نا ممکن ہے۔ سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل کئی بار اس کا اظہار کر چکے ہیں کہ بیرون ملک جائیدادوں کے مالکان کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کے اندر بھی جن کے اثاثے ان کی آمدنی سے لگا نہیں کھاتے، ان پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں۔ گھوم پھر کر بات وہیں آ جاتی ہے کہ نیب صرف سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہوتا ہے، وہ ایک دو ایسے کیسز لیتا ہے، جو سیاسی طور پر بہت ہائی پروفائل ہوں، پھر انہی کی بنیاد پر بے لاگ احتساب کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے، کیا اس طرح سے ملک کو کرپشن فری بنایا جا سکتا ہے؟ کیا ایسے سست رفتار اور منتخب احتساب سے کوئی تبدیلی آسکتی ہے؟ نہیں صاحب نہیں، ایسے خواب نہ ہی دکھائے جائیں تو بہتر ہے۔

مجھے تو وزیر اعظم عمران خان کی بے بسی پر رونا آرہا ہے، وہ احتساب کا ایک بڑا ایجنڈا لے کر اقتدار میں آئے، اب بھی اپنی ہر تقریرمیں وہ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ کسی بدعنوان اور لٹیرے کو نہیں چھوڑیں گے، کوئی این آر او نہیں کریں گے، مگر اُن کے پاس احتساب کے لئے جو مشینری ہے، وہ از کار رفتہ اور زنگ آلود ہے، انہیں خود اپنی تقریر میں یہ کہنا پڑا کہ چیئرمین نیب احتساب کی رفتار کو تیز کریں، انہیں جو مین پاور اور وسائل چاہئے ہیں، وہ لیں، مگر ’’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ کے مصداق نیب تو کچھوے کی رفتار ہی سے چل رہا ہے۔ جس ملک کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہاں بدعنوانی اور لوٹ مار بہت ہے، اُسی ملک میں نیب کسی کو سزا کی ایک مثال بھی پیش نہیں کرسکتا، کیا یہ بہت بڑا تضاد نہیں؟ سوال یہ ہے کہ حکومت اپنے احتساب کا ایجنڈا کیسے پورا کرے گی؟

حالت یہ ہے کہ چیئرمین نیب اگر اپنے ادارے کے مسائل پر وزیر اعظم سے ملاقات بھی کرلے تو اعتراضات شروع ہو جاتے ہیں، وہ اگر اپنے خطاب میں یہ کہہ دے کہ آنے والے دنوں میں بڑی بڑی گرفتاریاں ہونے والی ہیں تو اسے نیب اور حکومت کی ملی بھگت سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں حکومت نیب کو کیسے مجبور کرسکتی ہے کہ وہ احتساب کا عمل تیز کرے۔ نیب کو اتنی خود مختاری دے دی گئی ہے کہ وہ اپنی مرضی کا آپ مالک ہے۔ سپریم کورٹ کی سنتا ہے اور نہ حکومت کی، پھر یہ بیل کیسے منڈھے چڑھے گی؟ سیدھی سی بات ہے احتساب کا عمل تیز کرنا ہے تو نیب عدالتوں کی تعداد بڑھانا پڑے گی۔

نیب کے پراسیکیوشن نظام کو بہتر کرنا پڑے گا۔ یہ تین تین ماہ جو انکوائریاں ہی چلتی رہتی ہیں، اُن کی مدت کم کرنا ہوگی۔ ریفرنس کی تیاری اور اُسے عدالت میں دائر کرنے کے عمل کوتیز رفتار بنانا ہوگا۔ کرنے کے بہت کام ہیں، مگر بظاہر صرف یہی نظر آتا ہے کہ چیئرمین نیب جاوید اقبال کبھی اسلام آباد، کبھی لاہور اور کبھی کراچی میں اجلاس کرتے ہیں اور یہ سنیریو ٹائپ بیان جاری ہو جاتا ہے کہ نیب کسی بدعنوان کو نہیں چھوڑے گا، جبکہ بد عنوان ہیں کہ ہر گلی محلے میں دندناتے پھرتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -