وچوں وچوں کھائی جاؤ ،اتْوں نعرے لائی جاؤ

میں جب جب ایف آئی اے کی دوبئی جائیدادوں کے متعلق سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی فہرست دیکھتا ہوں تو اپنے گرد احتساب اور انصاف کی باتیں کرنے والوں کی شخصیات کے وہ رنگ بھی دیکھتا ہوں کہ جن سے الفاظ کی خوبصورتی اور ان کی سچائی پھیکی اور حرفوں سے اعتبار اٹھتا سا دکھائی دیتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے بنائے نیب اور احتساب نے کس کس کا دامن داغدار اور کس کس کو بقا بخشی ہے میرے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ وہی نیب اور ایف آئی اے جو پانامہ کیس کے دوران سپریم کورٹ کے احکامات پہ بھی پرانے ریفرنس کھولے جانے سے انکاری اور عاری نظر آتی تھیں آج جس تیزی سے متحرک ہیں تو مجھے یقین ہی نہیں آتا کہ حاکم بدلنے سے کتنا دباؤ اترتا ہے اور کتنا دھر دیا جاتا ہے کہ کیس ایک سو اسی ڈگری کا موڑ کاٹتے منزلوں کی طرف دوڑنے لگتا ہے۔ کمر کے درد میں کئی مبتلا ہیں ، کچھ تو ایسے ہیں کہ وہ جیلوں میں ہیں اور کچھ ایسے ہیں کہ شاید ان کی طرف سے آنکھیں ہی بند ہیں ، شاید ان کی ہستی میں چمکتے زمینی یا آسمانی ستارے انہیں وہ مراعات دیتے ہیں جو دوسروں کو حاصل نہیں ہیں اور اْن کے ستارے گردش میں ہیں۔
سابق سینٹر انور بیگ کی اہلیہ عائشہ انور بیگ، عرفان اللہ مروت، ممتاز احمد مسلم، مخدوم امین فہیم مرحوم کی اہلیہ رضوانہ فہیم، پرویز مشرف صاحب کے پرسنل سیکریٹری طارق عزیز کی صاحبزادی طاہرہ منظور ، وزیر اعظم پاکستان کی بہن علیمہ خان قابل ذکر ہیں ، یوں تو اس فہرست میں اور بھی بہت سے نام ہیں جن میں ملکی سرکاری اداروں کے ملازمین اور کاروباری شخصیات ہیں مگر قابلِ غور یہ چیز ہے کہ ان سب نے پاکستان سے باہر متحدہ عرب امارات میں اتنی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے کہ گھر میں بہاریں روٹھ گئی ہیں اور پاک وطن کے نصیب کی بارشیں اور ہی چھتوں پہ برس گئی ہیں، ملکی پیشانی کے سجے چاند ستارے پاکستان کے علاوہ کہاں کہاں چمکتے رہے ہیں کاش ان کی اس چمک کا احاطہ بھی ممکن ہوتا اور ہم سب ایک ہی صف میں کھڑے معلوم ہوتے لیکن شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات کے مصداق میرے یہ الفاظ وہ سورج اور وہ کرنیں بھی بکھریں جو ان ذہنوں کو روشن کر دیں کہ جن سے سب کے لئے قانون ایک ہو اور ان کا احتساب ایک ہو ، ایک جیسے ادارے ہوں اور ایک جیسے اصول، ہماری آنکھوں نے ہی ماضی میں وہ کچھ دیکھا ہے کہ جب ملکی وزیراعظم میاں نواز شریف اس دوراہے پہ تھے کہ عمر قید کاٹیں یا معاہدہ لکھ کے وطن سے جائیں ۔
میں یہاں نہ تو نواز شریف صاحب اور نہ ہی مرحومہ بی بی صاحبہ کے دفاع میں بیٹھا ہوں لیکن میں یہ بھی کہتا ہوں کہ جب بازی پلٹی تو مشرف کے دفاع میں وہ غیر مرئی طاقتیں بھی تھیں کہ نہ وہ جیل گئے اور نہ ہی انہیں کوئی معاہدہ لکھنا پڑا۔میں یہ بھی مانتا ہوں کہ پہلے دونوں اور پھر ان کے اہل و عیال نے کرپشن کی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ ہی نہیں دھوئے بلکہ جی بھر اشنان بھی کیا ۔لیکن جب ان کا احتساب ہو رہا ہے تو ان کے احتساب کے ساتھ ساتھ ان کا احتساب بھی ہو جائے گا جن کے احتساب کے بارے میں سوچنے سے پہلے میری ٹانگیں کانپتیں ۔ جب یہ عالم ہے تو ملکی محلِ وقوع میں ہارس ٹریڈنگ اور لوٹا ازم کیسے ختم ہو ۔
راولپنڈی کے ایک بیٹے نے آزاد دو نشستیں جیت کر میاں صاحب کے قدموں میں نچھاور کی تھیں ۔ میاں صاحب کی شان میں قلابے ملا دینے والا وہ فرزندِ پنڈی مشرف کا وزیر تھا اور آج بھی وزارت میں ہے ۔ نواز شریف صاحب کے خلاف بولنے کے لئے مشرف کی کابینہ میں شامل جہانگیر ترین ،فواد چوہدری ، شفقت محمود، فروغ نسیم، زبیدہ جلال، عمر ایوب، خسرو بختیار اور علیم خان جیسے اعلیٰ پائے کے محترم کہاں ہیں اور کس کی مدح سرائی میں مشغول ہیں یہ جواب تو وہ ہی دے سکتے ہیں ۔ اس دور میں بڑھ کے جو اٹھا لیتا ہے ہما اْسی کا ہے یا یوں کہوں کہ کانٹوں کو گلاب اور گلاب کو بھبھول بنا دینے والا ہی وہ فنکار ہے جس کی پرواز کے لئے آسمان کھلا ہے باقی پر کاٹ کے پابندِ سلاسل کر دیے جاتے ہیں ۔ میں تو یہ بھی جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کون سے عوامل ہیں کہ جن کی وجہ سے میرے وزیراعظم صاحب کا اس عہدے پہ پہنچنا ممکن نہ تھا۔ مجھے خان صاحب دل سے پسند ہیں ، مجھے کہیں لے جائیے اور حکومت کسی کی بھی ہو میں یہ ببانگِ دہل یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرا وزیر اعظم ایماندار ، عوام کی خدمت کے لئے برسرِ پیکار اور دردِ دل رکھنے والا وہ انسان ہے کہ جس پہ انگلی اٹھانے سے پہلے میں کئی دفعہ سوچتا ہوں لیکن کیا میں مذکورہ بالا ایک بھی سیاسی راہنما کی گواہی دے سکتا ہوں تو میری تربیت اور میری تعلیم میرے آڑے آ جاتی ہے۔ کوئی مجھ سے پوچھے کہ کیا نئے پاکستان کے خواب اور پاکستان کی ترقی کے لئے یہ لوگ لازم ملزوم ہیں تو میں اپنے وزیر اعظم صاحب کی محبت میں ڈنڈی مارتا ہوا چپ ہو جاتا ہوں اور خود کو خائن پاتا ہوں۔
میرے کئی دوست ہیں جو محبتوں میں یوں آگے ہیں کہ کسی کی کرپشن پہ تو بات نہیں کرتے لیکن جب محبتوں کی لوٹ مار پہ پتھر برستے ہیں تو دوسروں کے دامن پہ بھی کیچڑ اچھالتے ہیں ، سوشل میڈیا پہ وہ وہ تحریک چلتی ہے اور وہ وہ الزامات سامنے آتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ پاکستان کی بجائے شخصیتوں کے محافظ کھڑے ہوتے ہیں اور دنگل سجا دیتے ہیں ، ایسے معرکہ میں نہ کسی کی عزت محفوظ ہے نہ توقیر ، کئی معاملات میں تو ان مقابلوں کے پیچھے ایسے میڈیا سیل پائے گئے ہیں کہ ماہانہ مشاہروں کو حلال کرتے پھبتی کسنے والے ان حدوں کو بھی عبور کر جاتے ہیں جہاں وطن بہت پیچھے رہ جاتا ہے اور ان کا سیاسی نظریہ سب سے آگے۔ یہ ان پڑھ نہیں ہیں ، ان میں بہت ہی پڑھے لکھے بھی شامل ہیں لیکن " وچوں وچوں کھائی جاؤ اتوں نعرے لائی جاؤ" تحریک کے روح رواں ان کی وفاداریاں کیسے خریدتے ہیں اس پہ بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ، میں ان معزز پاکستانی بھائیوں سے کہتا ہوں اپنا سیاسی نظریہ مت بدلیں لیکن پاکستان کے مفاد کا خیال کرتے ہوئے صدقِ دل سے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ ضرور کہیں اس سے پاکستان کھاؤ تحریک اور ایک عام پاکستانی کی آواز کھل کے سامنے آئے گی جو کسی بھی معذوری و مجبوری سے مبراء اسے ان منزلوں تک لے جائے گی جہاں سے فلاح کا سفر شروع ہوتا ہے ۔
۔
یہ بلاگرز کا ذاتی نقطہ نظرہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔