اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 68

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 68

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امیرالمومنین کی تالیف قلب ضرور ہوگئی تھی۔ اسے جعفر برمکی نے ایک بار پھر ایک نئی زندگی سے ضرور ہمکنار کر دیا تھا مگر اس کے ساتھ ہی خلیفہ کے دل میں برامک خاندان کی ہوس اقتدار کے خلاف ایک اور گرہ ضرور پڑگئی تھی۔ کچھ گرہیں پہلے ہی پڑ چکی تھیں۔ کیونکہ اس حقیقت کو عباسی دربار میں ہونے کے بعد ہی میں نے محسوس کر لیا تھا کہ امور سلطنت میں آل برامک کا بڑا زبردست عمل دخل ہے۔ میں جعفر برمکی کے ساتھ ہی واپس اس کے عالی شان محل میں آگیا۔ میں جعفر برمکی کے ندیم خاص کی حیثیت سے اس کے ساتھ رہ رہا تھا۔ وہ مجھ پر بڑا بھروسہ کرتا تھا۔ میں نے اس کے سلوک سے اندازہ لگایا کہ وہ مجھے اپنا دست خاص سمجھتا ہے اور یہ توقع رکھتا ہے کہ میں اس کی جان بچانے میں اپنی زندگی کی بھی پروا نہیں کروں گا۔ مجھے اس حقیقت کا بھی علم ہوا کہ اس نے مجھے جرجان بن سعی کی حیثیت سے ایک غلام کی شکل میں خریدا تھا اور میری عقل و ذہانت کے باعث مجھے اپنے ندیم خاص کا درجہ عطا کیا۔ ہر عہد میں جب میں کسی نہ کسی نئے ماحول میں نمودار ہوتا تو میری حیثیت کا تعین یوں ہی کیا جاتا تھا۔
جعفر برمکی کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ وہ مجھے ایک ذہین و فطین دوست اور محافظ سمجھتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ وقت آنے پر میں اس کی زندگی کی خاطر اپنی جان کی قربانی دے سکتا ہوں۔ مگر اسے یہ ہر گز معلوم نہیں تھا کہ میں پانچ ہزار سال سے زندہ چلا آرہا ہوں اور نہ جانے کب تک زندہ رہوں گا۔
آخر ایک وقت ایسا آگیا کہ وہ میری زندگی کے اس سب سے گہرے اور قیمتی راز سے واقف ہوگیا۔ آل برامک کے جہاں دوست اور غمخوار اور مداح خواں بہت تھے۔ وہاں کچھ ایسے دشمن بھی تھے جو عرب سلطنت پر عجم کے بڑھتے ہوئے اثرات اور پنجہ اقتدار کو آہستہ آہستہ آگے بڑھتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 67پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
لیکن سب سے پہلے میں آُپ کو یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ برامک کون تھے اور آل برامک کہاں سے چلی۔ ملک ایران کی آتش پرستی کے عہد میں میں موہنجودڑو میں تھا اور مجھے بلخ و بخارا جانے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن موصل کے ایک قدیم کے کتب خانے میں میں ایک بار آتش پرستوں کی تاریخ پڑھ رہا تھا تو میں نے ایک ذی شان اور باوقار آتش پرستوں کے خاندان کے بارے میں ایک باب دیکھا جس میں لکھا تھا کہ برامک نام کا ایک آتش پرست بخارا میں رہا کرتا تھا۔ اس شہر میں آتش پرستوں کا ایک بہت بڑا معبد تھا جہاں آگ کی پوجا ہوتی تھی۔ برامک اس معبد کا ایک پجاری تھا۔ وہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ بلخ سے آکر بخارا میں آباد ہوگیا تھا جو سلطنت ایران کا ایک تاریخی شہر تھا اس شخص برامک کا خاندان فراست ، تدبر ، سیاست کاری ، سخاوت ، چالاکی میں سارے بلخ و بخارا میں مشہور تھے۔ علم و دانش میں بھی اس شخص کا کوئی جواب نہیں تھا۔ آتش پرستوں کی دونوں مقدس کتابیں اس کو ازبر تھیں اور وہ علم و حکمت کی باتیں کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔
یہ بنو امیہ کے زوال کا دور تھا اور ابو مسلم خراسانی خلافت عباسیہ کی داغ بیل ڈال رہا تھا۔ برامک فوت ہوچکا تھا۔ اس کا بیٹا خالد علم و حکمت اور تدبر و دور اندیشی میں اپنے باپ سے کسی طرح کم نہیں تھا۔ اسی دور میں خالد نے اسلام قبول کرلیا اور پھر ابو مسلم خراسانی کی فوج کی چمک دمک دیکھ کر اسے فوج میں ایک اعلیٰ عہدہ دے دیا۔ بنوامیہ کی فوجوں سے میدان کار زار میں ایک آخری معرکہ گرم ہوا جس میں اموی فوجوں کو شکست ہوئی۔ افق بغداد پر آل عباس کا سورج طلوع ہوا اور ابو العباس مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوا۔ خالد نے اپنی فصاحت و بلاغت سے خلیفہ پر اپنا اس قدر اثر ڈالا کہ وہ ایک عجمی کو اس قدر بلیغ عربی میں بات کرتے دیکھ کر اس کا مداح ہوگیا اور اسے اہم عہدے پر فائز کردیا۔ اس کلیدی عہدے پر فائز ہوتے ہی خالد نے ایسے ضابطے وضع کئے جو عجمی تھے اور اس سے بیشتر عرب حکمران ناواقف تھے۔ خوش قسمتی سے ان ضابطوں کا نتیجہ حکمران کے حق میں بہت مفید نکلا۔ جس کی وجہ سے خالد برمکی خلیفہ کے اور قریب ہوگیا۔ اب وہ اپنے تدبر اور جوڑ توڑ سے خلیفہ کے دل و دماغ پر حکمران کرنے لگا۔ خلیفہ ابو العباس سفاع اس سے مشورہ لئے بغیر کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ جب منصور خلیفہ تھا تو اس نے خالد برمکی کو وزیر خزانہ کا اہم عہدہ سونپ دیا۔ خالد برمکی نے اپنا اثر و رسوخ بنانے کے لئے لوگوں میں خزانے کی دولت بے دریغ لٹانی شروع کردی۔ خلیفہ منصور کے ایک وزیر نے یہ کہہ کہ خالد برمکی کے خلاف خلیفہ کے کان بھرے کہ یہ شخص ایرانی اثرات کی تبلیغ و اشاعت کے لئے سرکاری خزانے کو بے محابا استعمال کر رہا ہے۔
خلیفہ نے خالد برمکی کو طبرستان اور رے کی عمل داری دے دی اور بغداد سے فارغ کر دیا لیکن یہ سب کچھ قدرت کی منشا کے عین مطابق ہو رہا تھا۔ رے میں ہارون الرشید کے والد مہدی کا خاندان آباد تھا۔ اس شہر میں برمکی خاندان کے ہارون الرشید کے والد مہدی کا خاندان آباد تھا۔ اس شہر میں برمکی خاندان کے ہارون الرشید کے خاندان سے تعلقات مربوط ہوئے۔ ہارون الرشید کی ولادت کے بعد آل برامکہ کی خواتین نے ہارون الرشید کو اپنا دودھ پلایا تو یہ تعلقات مزید گہرے ہوگئے۔
خلیفہ منصور کا انتقال ہوا تو اس کا بیٹا مہدی سربراہ سلطنت ہوا۔ خالد کا بیٹا یحییٰ برمکی جوڑ توڑ اور سیاست کاری میں اپنے باپ سے بھی دو قدم آگے تھا۔ وہ بہت جلد اپنے نوجوان خلیفہ کا اہم دم وہم جلیس بن گیا۔
فضل اور جعفر برمکی یحییٰ کے بیٹے تھے جو حکمت و تدبر میں ایک باپ سے کسی طرح کم نہ تھے۔ ہارون الرشید خلیفہ ہوا تو امور سلطنت پر یحییٰ برمکی حاوی تھا۔ خلیفہ کوئی کام یحییٰ برمکی سے صلاح لئے بغیر نہ کرتا تھا۔ یحییٰ برمکی نے اپنی ہی مرضی کے مطابق اپنے بیٹے فضل کو خراسان کا گورنر بنوایا۔ فضل برمکی نے خراسان میں ہی عباسی خزانے کے خرچ سے پانچ لاکھ کا ایک لشکر تیار کیا جس میں ایک بھی سپاہی عرب نہیں تھا۔ سارے کے سارے سپاہی غیر عرب اور ایرانی تھے ان کا سارا خرچ بیت المال سے ادا کیا جاتا تھا۔ ہارون الرشید کا ماتھا ٹھنکا۔ اس نے فضل برمکی کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سونپ دیا اور خراسان کی عمل داری سے سبکدوش کردیا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد ہارون الرشید نے اسے مشرقی حصے کا امیر بنا دیا اور وزارت عظمیٰ کا عہدہ جعفر برمکی کے حوالے کر دیا۔ یحییٰ ، فضل اور جعفر تینوں باپ بیٹوں نے امور سلطنت میں بے حد اثر و رسوخ بڑھا لیا تھا اور یہ اپنی مرضی سے لوگوں میں بڑے بڑے منصب تقسیم کرتے تھے۔ ان کے عظیم الشان محلات تھے جن میں سرسبزو شاداب کشادہ باغات تھے اور نہریں بہتی تھیں۔ ان کا سالانہ آمدنی کروڑوں دینار سے تجاوز کرگئی تھی۔ وہ شاعروں اور اپنے خوشامدیوں اور بہی خواہوں میں لاکھوں دینار لٹا دیتے تھے۔
برامکہ کے عروج کا زمانہ تھا جب میں یعنی عاطون جعفر برمکی کے ندیم خاص کی حیثیت سے نمودار ہوا۔ اب میں آپ کو وہ واقعہ سناتا ہوں جب جعفر برمکی پر میری شخصیت کا سب سے گہرا راز افشا ہوا۔ جعفر برمکی بہت ذہین او سخی اور حوصلہ مند تھا مگر اس میں اپنے باپ جیسی چالاکی، معاملہ فہمی اور موقع شناسی نہیں تھی بلکہ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں جعفر برمکی طبعاً ایک بھولا بھالا انسان تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے جگری دوست بھی اس کے کٹر دشمن بن گئے تھے۔ ان میں مصور ابن زیاد کے دل میں جعفر برمکی کے خلاف شدید نفرت کا جذبہ موجزن تھا۔ بظاہر وہ جعفر برمکی سے بڑی خوشامد اور لجاجت سے پیش آتا لیکن دل میں اس قدر خار رکھے ہوئے تھا کہ اس نے جعفر برمکی کو قتل کرنے کی سازش تیار کرلی۔

(جاری ہے۔۔۔اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)