سکھ برادری سے تعلق رکھنے والی ذہنی معذور لڑکی کا ریپ، ریسکیو 1122 کے دو اہلکار معطل،تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل

سکھ برادری سے تعلق رکھنے والی ذہنی معذور لڑکی کا ریپ، ریسکیو 1122 کے دو اہلکار ...
سکھ برادری سے تعلق رکھنے والی ذہنی معذور لڑکی کا ریپ، ریسکیو 1122 کے دو اہلکار معطل،تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ننکانہ صاحب(ڈیلی پاکستان آن لائن)ریسکیو 1122 کے 2 اہلکاروں کو مبینہ طور پر سکھ برادری سے تعلق رکھنے والی 15 سالہ ذہنی معذور لڑکی کے ریپ میں ملوث ہونے پر معطل کردیا گیا۔
ریسکیو ایمرجنسی سروس کے افسر اکرم پنوار نے بتایا کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی بنادی گئی ہے اور اگر الزامات ثابت ہوگئے تو ان اہلکاروں کےخلاف سخت محکمہ جاتی کارروائی کی جائے گی۔میڈیکو لیگل کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق متاثرہ لڑکی کے جسم پر کسی قسم کے تشدد یا زخموں کے نشان نہیں پائے گئے تاہم اسے مزید ٹیسٹ کے لیے لاہور لے جایا جائے گا۔اس حوالے سے تفتیشی افسر بشارت علی کا کہنا تھا کہ مزید ٹیسٹوں کی رپورٹ آنے میں ایک سے 2 ماہ تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ مشتبہ افراد سے مزید تحقیقات کے لیے ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا جائے گا۔واقعے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) ننکانہ صاحب پولیس تھانے میںمتاثرہ لڑکی کے اہلِ خانہ کی مدعیت میں درج کی گئی جس میں کہا گیا کہ ذہنی معذوری کا شکار 15 سالہ لڑکی اتوار کو لاپتہ ہوئی تھی۔جس پر اہلِ خانہ نے ہر جگہ اس کی تلاش کی لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا، تقریباً رات ڈیڑھ بجے اہلِ خانہ کو سڑک پر کافی دیر سے کھڑی ریسکیو 1122 کی ایمبولینس پر شک گزرا۔مذکورہ ایمبولینس کی تلاشی لینے پر اہلِ خانہ کو علم ہوا کہ دونوں مشتبہ افراد ان کی بیٹی کو ریپ کا نشانہ بنا رہے تھے۔
ایف آئی آر کے مطابق جب لڑکی کے اہلِ خانہ نے شور مچایا تو دونوں افراد ایمبولینس کو بھگا لے گئے اور آگے جا کر ننکانہ روڈ پر شوگر مل کے نزدیک متاثرہ لڑکی کو پھینک کر فرار ہوگئے۔واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے ضلعی پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ مقدمے کا اندراج ہونے کے بعد دونوں مشتبہ افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔ترجمان پولیس کا مزید کہنا تھا کہ لڑکی کا تعلق سکھ برادری سے ہے جن کی شکایت پر تحقیقات کا ا?غاز کیا جاچکا ہے اس سلسلے میں انصاف کی فراہمی کے لیے ہر ممکن اقدام کیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ مذکورہ واقعے کا وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی نوٹس لے لیا ہے جن کا کہنا تھا کہ ’کمزور شہریوں کا یہ استحصال برداشت نہیں کیا جائے گا۔