پاکستان پر ملکی تاریخ کا بلند ترین قرض
پاکستان کے بیرونی قرضوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہورہا ہے اور پی ٹی آئی دور حکومت میں یہ قرضے 100 ارب ڈالر کی نفسیاتی حد عبور کرکے 113 ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ گئے ہیں جس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان پر بڑھتے قرضوں کا انکشاف گزشتہ دنوں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی شائع رپورٹ سے ہوتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے گزشتہ دو سالوں میں بیرونی قرضوں میں 17 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ یاد رہے کہ2018ءمیں مسلم لیگ (ن) دور حکومت کے آخری ایام میں پاکستان پر بیرونی قرضوں کا حجم 95.3 ارب ڈالر تھا جو پی ٹی آئی حکومت کے دو سالہ دور حکومت میں 17 ارب ڈالر کے اضافے سے 113 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ حکومت نے یہ قرضے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، مقامی بینکوں اور دوسرے مالیاتی اداروں سے حاصل کئے۔
بیرونی قرضوں کے علاوہ پی ٹی آئی دور حکومت میں ملکی قرضوں میں بھی ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا اور حکومت نے مالی خسارے کو پورا کرنے کیلئے گزشتہ دو سالوں میں مرکزی اور نجی بینکوں سے 11.5 ہزار ارب روپے (11.5 کھرب روپے) سے زائد قرضہ حاصل کیا جو مسلم لیگ (ن) کے 5 سالہ دور حکومت میں لئے گئے مجموعی قرضوں سے بھی زیادہ ہیں۔ اِس طرح پی ٹی آئی دور حکومت میں دو سالوں کے دوران اندرونی اور بیرونی قرضوں کے مجموعی حجم میں 36.5 ہزار ارب روپے (36.5 کھرب روپے)کا اضافہ ہوچکا ہے جو جی ڈی پی کا 87 فیصد بنتا ہے۔ واضح رہے کہ 2018ءمیں مسلم لیگ (ن) دور حکومت میں مجموعی قرضوں کا حجم 25 ہزار ارب روپے تھا جو جی ڈی پی کا 72.5 فیصد بنتا تھا مگر گزشتہ دو سالوں میں لئے گئے قرضے جی ڈی پی کا 87 فیصد ہوگئے ہیں اور اس طرح آج ہر پاکستانی ایک لاکھ 80 ہزار روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دور حکومت میں 10سالوں کے دوران 30 ہزار ارب روپے (30 کھرب روپے) کا اضافہ ہوا تھا جبکہ موجودہ حکومت نے صرف دو سالوں میں ملکی قرضوں میں 36 ہزار ارب روپے (36 کھرب روپے) کا اضافہ کیا جو یقینا ایک تشویشناک امر اور لمحہ فکریہ ہے۔ پی ٹی آئی دور حکومت میں قرضوں کے حجم میںجس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، وہ ہماری مجموعی قومی پیداوار سے زیادہ ہے اور قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کی وجہ سے حکومت میں اِن قرضوں کی واپسی کی استطاعت نہیں رہی جو اب ایک خطرناک صورتحال اختیار کرگیا ہے تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ کورونا کی صورتحال کے باعث مالیاتی اداروں کی جانب سے قرضوں کی واپسی کی مدت میں ڈیڑھ سے چار سال تک اضافہ کردیا گیا ہے جس سے پاکستان کو قرضوں کی واپسی میں کچھ مہلت مل گئی ہے۔
قرضے لینا کوئی معیوب بات نہیں بشرطیکہ یہ قرضے ملک کے ترقیاتی منصوبوں پر لگائے جائیں جس سے نہ صرف جی ڈی پی میں اضافہ ہو بلکہ عوام کیلئے ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہوں۔ دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک امریکہ ہے جس نے چین سے ایک کھرب ڈالر، جاپان سے ایک کھرب ڈالر اور دیگر ذرائع سے اربوں ڈالر قرضے حاصل کئے ہوئے ہیں مگر یہ قرضے امریکی عوام کی فلاح بہبود کے منصوبوں پر خرچ کئے جارہے ہیں۔ اِسی طرح وزیراعظم میاں نواز شریف کے دور حکومت میں جو بیرونی قرضے لئے گئے، اُن سے بجلی کے کئی پروجیکٹس لگے جن سے 12 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی پیدا ہوئی اور ملک میں نہ صرف لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوا بلکہ صنعتوں کا پہیہ رواں ہوا۔ نواز شریف دور حکومت میں انفرااسٹرکچر پر بھی بھاری رقوم خرچ کی گئیں اور تقریباً 2 ہزار کلومیٹر موٹر ویز کا اضافہ ہوا لیکن گزشتہ ڈھائی سالوں میں موجودہ دور حکومت میں ملک بھر میں کوئی نئے پروجیکٹس نہیں لگائے گئے اور عوام یہ جاننے میں حق بجانب ہیں کہ ملک میں کوئی ترقیاتی کام نہ ہونے کے باوجود حکومت نے 36 کھرب روپے کا مجموعی قرضہ کس مقصد کیلئے لیا اور ان قرضوں کو کہاں خرچ کیا گیا؟
عمران خان ماضی میں ہمیشہ سابقہ حکومتوں کی قرض لینے کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور عوام کو یہ یقین دلاتے رہے کہ وہ برسراقتدار آنے کے بعد قرض لینے کی یہ روایت ختم کردیں گے لیکن افسوس کہ یہ روایت تو ختم نہ ہوسکی مگر ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پہنچ گیا۔ ایسی صورتحال میں ہر شخص یہ سوال کررہا ہے کہ ”تبدیلی“ اور ”ریاست مدینہ“ کے نام پر عوام کو کیوںبے وقوف بنایا گیا، اِس کا ذمہ دار کون ہے اور کیا موجودہ حکومتی ٹیم میں معیشت چلانے کی صلاحیت موجود ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی کوئی مربوط پالیسی نہیں اور حکومتی پالیسی کے بجائے آئی ایم ایف کی دی گئی پالیسی کا ہی ملک میں نفاذ ہے جس سے مہنگائی اور قرضوں میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔ آج پاکستان پر ملکی تاریخ کا بلند ترین قرضہ تشویشناک منظر پیش کررہا ہے۔ اگر پی ٹی آئی 5 سال برسراقتدار رہی اور قرضے لینے کا یہ سلسلہ اِسی رفتار سے جاری رہا تو اِس بات کا قوی امکان ہے کہ ملکی مجموعی قرضے گزشتہ 70 سالوں میں لئے گئے قرضوں سے تجاوز کرجائیں گے اور حکومت کا اِن قرضوں کا ڈیفالٹ کرنا یقینی ہے۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.