بحران حل کریں، بڑھائیں نہیں!
اب تو یہ یقین سا ہونے لگا ہے کہ برسر اقتدار حضرات عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لئے خود ہی بحران پیدا کرتے ہیں اور ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ابھی تو کل ہی کی بات ہے کہ ایک قاعدے قانون کا مسئلہ ہی تنازعہ بنا کر پیش کیا گیا،اور بالآخر ہوا وہی جو ہونا تھا، لیکن شاید کسی حکمت عملی کا تقاضہ تھا یا پھر اَنا کا معاملہ،بہرحال طے شدہ معاملے کو الجھا دیا گیا۔اصولی طور پر تو وزیر داخلہ فرزند ِ راولپنڈی شیخ رشید کو اپنے بارے میں کوئی اہم فیصلہ کر لینا چاہئے تھا کہ انہوں نے جو معاہدہ کیا اسے وزیراعظم کی مرضی کے مطابق کابینہ نے رد کر دیا،اب محترم شیخ رشید تاویلیں کر رہے اور بہانے بنا رہے ہیں۔یہ بھی عجیب صورتِ حال ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے میڈیا میں اس کا صرف ایک ہی رخ اور ایک ہی موقف سامنے آ رہا ہے۔دوسرے فریق کی کوئی بات نشر یا شائع نہیں ہوئی،ایسے میں میڈیا کے پاس کیا چارہ کار ہے وہ صرف اور صرف عوامی مشکلات ہی کے ذکر پر مجبور ہے۔مَیں نے قصداً اس معاملہ پر قلم نہیں اٹھایا،لیکن ایک عرض کر دوں کہ ہمارے بھائی ایک صفحہ کی بات تو کرتے ہیں،لیکن دوسرے صفحہ والوں کے عمل سے کچھ نہیں سیکھتے،بہتر ہوتا کہ آئی ایس پی آر کے طرزِ عمل کو ملاحظہ کیا جاتا،ہمارے یہ شعبہ والے حضرات زیادہ پروفیشنل نظر آئے، اور ان کی کہی بات پر یقین بھی آ جاتا ہے۔ ابھی گذشتہ روز ہی کی خبر ملاحظہ کر لیں،جس میں یہ بتایا گیا کہ ہمسایہ ملک سے در اندازی کی کوشش کی گئی،جو ناکام بنا دی گئی،جوابی کارروائی میں دو جوان شہید ہو گئے، اس پریس ریلیز میں یہ ذکر ہے کہ حملہ اور داخل ہونے کی کوشش ناکام ہوئی،ساتھ ہی دیانت داری سے بتا دیا گیا کہ دو جوان وطن کے تحفظ پر قربان ہو گئے۔یہ دعویٰ نہیں ہوا کہ حملہ آوروں کے درجن بھر لوگ مار دیئے گئے، ایسا ہی حساس امور کے حوالے سے بھی ہوتا ہے۔ یہ شعبہ اپنا نقصان چھپانے کی بالکل کوشش نہیں کرتا، اسی لئے اس کی ساکھ بھی ہے،لیکن اس کے برعکس ہمارا مہذب ترین، جدید تر آلات اور بہت بڑے عملے کے ساتھ پورا محکمہ معہ وزارت یکطرفہ پروپیگنڈے میں مصروف ہے،محترم اگر آپ ہی سب کچھ کہتے رہو گے تو پھر دوسرے فریق کے حوالے سے خبریں اور افواہیں تو پھیلیں گی۔
یہ جو کچھ ہوا،اور جو ہو رہا ہے،اسے کسی طور پر بہتر قرار نہیں دیا جا سکتا،جس اذیت سے بارہ ربیع الاوّل کے بعد سے لاہور سے راولپنڈی، اور اسلام آباد تک کے شہری گذرے اور گذر رہے ہیں اس کا اندازہ انہی کو ہے،جو روزانہ پریشان ہوتے تھے،اور ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک ابہام ہے، جسے دور کرنے کی بجائے وزیر داخلہ نے بڑھا دیا ہے۔ تحریک لبیک یا رسولؐ اللہ کو کالعدم کہا جاتا ہے،لیکن شیخ صاحب نے دبئی سے واپس آ کر مذاکرات کئے۔معاہدہ کیا تو فرمایا کہ ہم نے سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا۔تحریک لبیک والوں نے الیکشن میں حصہ لیا،اور پھر انہوں نے یہ بھی مانا کہ ان کا ووٹ بنک تیسرے نمبر پر ہے۔ا صل حقیقت تو یہ ہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی ایک دفعہ کے تحت تحریک لبیک کو کالعدم قرار دیا گیا،لیکن سیاسی جماعت کے طور پر اس پر پابندی کے لئے تو سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا،اور نہ ہی اس جماعت کی بطور سیاسی جماعت رجسٹریشن منسوخ ہوئی۔یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ ہے۔
اب حالات یہ ہیں کہ وزیر داخلہ کو تاویلیں کرنا پڑ رہی ہیں۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں،معاہدے پر قائم ہیں اور دوسری طرف آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی بات کرتے ہیں یہ بات بالکل درست ہے اور سبھی لوگ اس سے اتفاق بھی کرتے اور کریں گے کہ انتہا پسندی کسی بھی طرح کی ہو،بہتر نہیں ہوتی فرانس کے سفیر کے حوالے سے وزیر داخلہ جو اب فرما رہے ہیں یہ تو پہلے ہی روز سے کہا جا رہا ہے،تو پھر جب آپ نے یہ مانا کہ اس مسئلہ کو قومی اسمبلی میں زیر بحث لایا جائے گا تو اب کس طرح کہہ رہے ہیں کہ دنیا کا دباؤ ہے۔فرانس کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔محترم جب خاکوں کا معاملہ سامنے آیا تو پوری اسلامی دنیا نے مذمت کی،پاکستان میں شدت سے مظاہرے ہوئے،اس دور کے خود سرکاری بیانات پر غور کر لیں تو آپ کو خود ہی اپنی باتوں کا جواب مل جائے گا۔میری گذارش یہ ہے کہ اس سارے معاملے کو ایک اور پہلو سے بھی دیکھیں کہ آپ کے ساتھ کون کون سے مذہبی رہنما ہیں، اور جن کو آپ اب دہشت گرد قرار دے رہے ہیں،وہ کون ہیں۔ یہ درست کہ آج کی صورت حال میں چونکہ یہ لوگ انتہا پسندی کے الزام کی زد میں ہیں،اور بقول حکومت،ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں، تو ان کے ہم خیال،ہم مسلک خاموش ہیں انہی کو تلقین کر رہے ہیں،لیکن اگر برعکس احساس اُجاگر ہوا تو پھر آپ سے یہ معاملہ بالکل ہی نہیں سنبھل پائے گا۔