ہائبرڈ نظام زمین بوس
مارشل لا لگانے کی تہمت سے بچنے کے لئے نہایت سوچ و بچار اور طویل منصوبہ بندی کے بعد ہائبرڈ نظام کا جو ماڈل نافذ کیا گیا وہ مکمل طور پر زمین بوس ہوچکا۔ خود اس کے خالق بھی اب یہ کہنے سے نہیں ہچکچاتے کہ حالات و واقعات کا دھارا ملکی انتظام انصرام چلانے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنتا جارہا ہے۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل مشرف تک کے ہر مارشل لا نے نہ صرف آئین و قانون کو روندا بلکہ معاشرے میں بے شمار خرابیاں پیدا کیں۔ تمام تر نقصانات کے باوجود کام اس لئے چل جاتا تھا کہ مارشل لا حکومتوں کے آنے کے بعد امریکا، یورپ اور مالدار عرب ممالک بہت فراخدلی سے مالی امداد دینا شروع کردیتے تھے۔ ہائبرڈ سسٹم کے تجربے میں یوں تو کئی خرابیاں سامنے آئیں مگر بنیادی وجہ یہی رہی ہے کہ بیرونی مالی امداد میسر نہ آسکی اور اندرون ملک ایسی ٹیم ہی نہیں بن پائی جو روز مرہ کے امور چلا سکے۔ یوں پورا“ ایک پیج“ صرف تین سالوں میں ہی بدترین مشکلات سے دوچار ہوگیا۔ اقتدار سے جنرل مشرف کی شرمناک بے دخلی کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں پاک فوج کی قیادت اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ آئندہ مارشل لا لگانا ممکن نہیں ہوگا۔
آنے والے کل کو مگر کون دیکھ سکتا ہے؟ مارشل لا کو روکنے کے لئے جو ہائبرڈ نظام لایا گیا تھا اس نے بہت مختصر وقت میں ملک اور عوام کو اتنے شدید جھٹکے دئیے کہ اب اس بحران سے نکلنے کے لئے مارشل لا لگانا بھی ممکن نہیں۔ ایک بدترین دشمن کی خواہش یہی ہوسکتی تھی کہ ملک میں کوئی ادارہ غیر متنازعہ نہ رہے۔ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں یہ ٹاسک اسی حکومت کے ہاتھوں پورا ہوگیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے لئے جو نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا اس میں یہ حکومت کی طرف سے یہ شرط رکھ دی گئی ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم 20 نومبر کو اپنے نئے عہدے کا چارج سنبھالیں گے اور تب تک لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ہی آئی ایس آئی کو چلائیں گے۔ یہ مسئلہ بظاہر تو حل ہوچکا مگر ملٹری کمانڈ کی اتھارٹی کے بارے میں بعض ایسے سوالات کھڑے کرگیا جو یقیناً مسلح افواج کے اندرونی حلقوں کے نزدیک بھی واضح جواب کے متقاضی ہوں گے۔
ڈی جی آئی ایس آئی کی سمری پر الجھنیں پیدا ہوئیں تو سیاسی وفاداریاں بدلنے کے حوالے سے بدنام ایک وزیر ایک مقتدر شخصیت کے حوالے سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کئے جانے کے دعوے کرتا رہا۔ ہوسکتا ہے ایسا کچھ ہوا بھی ہو لیکن مقصد ہرگز یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے ادارے کی نمائندگی کرتے ہوئے ایسا کہہ رہا ہو۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ عہدیدار یہ چاہتا تھا کہ کسی روحانی حوالے سے وزیر اعظم کی ضد کا معاملہ سب کے سامنے نہ آئے اور بات بند کمرے میں ہی طے پا جائے۔
ملک اور خود اپنے ساتھ اتنا کچھ ہوجانے کے باوجود مقتدر حلقے پہلے کی طرح اپوزیشن جماعتوں کے خلاف نہیں تو ان سے خائف ضرور ہیں۔ ایک طرف بات چیت اور پیغام رسائی کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بعض اپوزیشن رہنماوں کے تیور درست نہیں۔ شہباز شریف اور ان جیسے کرداروں کو سراہا جارہا ہے۔ حالانکہ یہ بات اب راز نہیں رہی کہ شہباز شریف جو کچھ بھی کہتے اور کرتے ہیں اسے بڑے بھائی کی مکمل تائید حاصل ہوتی ہے۔عوامی اور پارٹی سطح پر اس کا اقرار نہ کرنا ایک سوچی سمجھی پالیسی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ پی ڈی ایم میں مسلم لیگ ن اپنی الگ منصوبہ بندی کے تحت چل رہی ہے ورنہ جے یو آئی سمیت دیگر رکن جماعتیں تو کب سے ایک ہی جھٹکے میں فیصلہ کن اقدام کے لئے تلی بیٹھی ہیں۔ احتجاج تو کالعدم ٹی ایل پی بھی کررہی ہے۔ حیرانی ہے کہ وہ پہلے کئی بار یہ معاہدہ کرکے اپنی تحریک ملتوی کیوں کرتی رہی کہ فرانسیسی سفیر کا معاملہ پارلیمنٹ میں جائے گا۔
ٹی ایل پی کا قیام اور پرورش پرانے سیاسی کھلاڑیوں کے ووٹ کاٹنے کے لئے ہی نہیں بلکہ انہیں جسمانی حوالے سے بھی خطرے میں ڈال کر ان پر زمین تنگ کرنے کے لئے کی گئی۔ آج عالم یہ ہے کہ اسی تنظیم نے لاہور سے مارچ شروع کیا تو روکنے کی تمام حکومتی کوششیں دھری رہ گئیں۔ ان سطور کے تحریر کئے جانے تک پرتشدد واقعات کے باوجود ٹی ایل پی کا مارچ اسلام آباد کی جانب بڑھ رہا ہوگا۔صورتحال کو کنٹرول کرنے کی ایک اور کوشش کرتے ہوئے پنجاب کو دو ماہ کے لئے رینجرز کے حوالے کردیا گیا۔ اس کے باوجود صاف نظر آرہا ہے کہ ریاست کی رٹ کا جنازہ نکل چکا۔ ملک کے حالات اس حد تک خراب ہوچکے ہیں کہ اب کسی کو یہ بھی پتہ نہیں کہ آگے چل کر ہائبرڈ نظام کی جگہ کونسا سسٹم آئے گا۔ یہ اٹل حقیت ہے کہ مؤثر اور سب کے یکساں احتساب کے بغیر آئینی نظام بھی لاگو نہیں ہوسکتا۔ہمارے ہاں ججوں اور جرنیلوں کے احتساب کا سرے سے کوئی تصور ہی موجود نہیں۔ ان دونوں طبقات میں بھی ایک فرق ہے۔
جنرل ایوب 1965 کی جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند سے شروع ہونے والے عوامی احتجاج کے باعث پوری طرح زچ ہوکر رخصت ہوئے، جنرل یحییٰ مرتے وقت تک خوفزدہ رہے، جنرل ضیا طیارہ پھٹنے سے پہلے ہی بہت حد تک گھیرے میں آچکے تھے اور گھبرائے ہوئے تھے۔ جنرل مشرف کا حال سب کے سامنے ہے۔ دوسری جانب ان کے ساتھی جج حضرات کا معاملہ باکل مختلف ہے۔ جسٹس منیر سے جسٹس کھوسہ تک کسی حد تک سائیڈ لائن تو ہو جاتے ہیں مگر حاضر سروس ججوں اور وکلا رہنماوں سے رابطے رکھ کر“ معزز“ بنے رہتے ہیں۔ جسٹس (ر) اعجاز افضل، ثاقب نثار ٹولے کے سرگرم رکن تھے۔ پچھلے دنوں اراضی کے معاملے ان کی کیپٹن ر صفدر کے ایم این اے بھائی سے مقدمے بازی ہوئی تو عدلیہ میں میرٹ کا مطالبہ کرنے والی وکلا تنظیمیں بھی سابق جج کے حمایت میں بیانات داغنے لگیں۔ پاکستان میں یہ تماشہ مزید نہیں چل سکتا - اللہ نہ کرے کہ انصاف کے معاملے میں ہمارے منافقانہ طرزعمل کے سبب ہمیں کسی اور سنگین سانحے کا سامنا کرنا پڑے۔