ابھرتا ہوا معاشی استحکام
پہلی سہ ماہی، جولائی تا ستمبر کے دوران ادائیگیوں کا توازن معاشی استحکام کے لیے بہت حوصلہ افزا رہا کچھ مزید پیش رفت بھی اس تصور کو تقویت دیتی ہے۔ ستمبر میں ہونے والی درآمدات کم ہوکر 4,822 ملین ڈالر پر آگئیں۔ ستمبر 2021ء میں درآمدات کا حجم 6,057ملین ڈالر تھا گو یا ان میں 20فیصد کمی ہوئی۔اگست 2022ء کے مقابلے ان میں مزید17فیصد کمی دیکھنے میں آئی جب ان کا حجم 5,848 ملین ڈالر تھا۔
سہ ماہی بنیادوں پردرآمدات 16,018 ملین ڈالر رہیں گزشتہ سال اسی سہ ماہی کے دوران درآمدات کا حجم 17,395 ملین ڈالر تھا، اس طرح سہ ماہی بنیادوں پر 11 فیصد کمی واقع ہوئی اگر رواں مالی سال کے اگلے آٹھ ماہ تک درآمدات کو پانچ بلین ڈالر سے کم رکھا جائے تو ملک اقتصادی مشکلات کے گرداب سے اس سال نکل سکتا ہے۔
اس سہ ماہی کے د وران برآمدی شعبے کی کارکردگی بہتر رہی، اگرچہ ماہانہ کارکردگی میں قدرے سست روی دکھائی دی۔ جولائی تا ستمبر کے دوران برآمدات کا حجم 7,594 ملین ڈالر رہا گزشتہ برس اس سہ ماہی کے دوران 7,201 ملین ڈالرکی برآمدات کی گئی تھیں، اس طرح اس سہ ماہی کے دوران چھ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
ستمبر 2022ء کے دوران برآمدات کا حجم 2,501 ملین ڈالر رہا۔ گزشتہ ستمبر کے دوران 2,627 ملین ڈالر کی برآمدات ہوئی تھیں، اس طرح5فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ اگست 2022ء میں 11فیصد کمی کے ساتھ 2,813 ملین ڈالر برآمدات ہوئیں۔ ہمارے تجزیے میں، موجودہ عالمی کساد بازاری کو دیکھتے ہوئے اگر برآمدات گزشتہ برس کی سطح پر بھی برقرار رہتی ہیں تو بھی یہ ایک قابل تحسین کاوش قرار پائے گی۔
حیرانی کی بات نہیں کہ ٹریڈ اکاؤنٹ بھی صحت مند بہتری دکھارہا ہے گزشتہ برس کی پہلی سہ ماہی میں 10,194 ملین سے تجارتی توازن17 فیصد کمی کے ساتھ 8,424 ملین ڈالر تک آ گیا۔ سروس کے حوالے سے مجموعی پوزیشن مشکلات کا شکار ہے، بیرونی ممالک سے بھیجی جانے والی رقوم 8,199 ملین ڈالر سے چھ فیصد کم ہوکر7,685 ملین ڈالر تک آگئیں۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ گراوٹ عارضی ہے اس کا تعلق عالمی سطح پر کم ہوتی ہوئی ڈیمانڈ سے نہیں ہے کیونکہ جن ممالک سے زیادہ رقوم بھجوائی جاتی ہیں،وہ موجودہ اقتصادی حالات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
بلاشبہ حکومت کی وضع کردہ پالیسیاں نتائج دے رہی ہیں۔ جولائی تا ستمبر 2022ء میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1,152 ملین ڈالر سے کم ہو کر 316 ملین ڈالر تک آگیا یہ کمی 68 فیصد ہے، دوسری طرف جولائی اور اگست میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بالترتیب 1,215 اور 676 ملین ڈالر تھا، جائے حیرت نہیں کہ کپیٹل اکاؤنٹ کو دباؤ کا سامنارہا ہے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، جو پہلے ہی برائے نام تھی، 418 ملین ڈالر سے مزید سمٹ کر157 ملین ڈالر رہ گئی، جب کہ دیگر ذرائع سے آنے والا سرمایہ بھی 4,364 ملین ڈالر سے کم ہوکر محض 254 ملین ڈالر رہ گیا۔بیرونی قرضوں کی گزشتہ سال واپسی کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر 19.4 بلین ڈالر سے کم ہوکر 8.1 بلین ڈالر رہ گئے۔ درحقیقت زرمبادلہ کے ذخائر کی نکاسی کی راہ محدود کرنے سے معاشی بحران کا پائیدار حل ممکن ہوتا۔معیشت کو نئے صدمات کا سامنا کرنے کے لیے زرمبادلہ کی ضرورت ہوگی۔
دو ماہ، جولائی اور اگست کے دوران ایل ایس ایم (بڑی مصنوعات کی تیاری) کا مواد اب دستیاب ہے۔ اگست 2022ء میں ایل ایس ایم کی پیداواری شرح میں اگست 2021 ء کے مقابلے میں 0.6 فیصد، اور جولائی 2022ء کے مقابلے میں 3.9 فیصد اضافہ ہوا۔ جولائی میں رجحان منفی سولہ رہا جس کی عکاسی ہر ماہ بڑھنے والی مہنگائی سے ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر ایل ایس یم کے شعبے میں جولائی اور اگست 2022-23ء کے دوران گزشتہ سال انہی ماہ کے مقابلے میں 0.4 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ یہ پیش رفت کفایت شعاری کی پالیسی کی وجہ سے ہے جو طلب میں کمی لانے کے لیے درکار ہے۔ یہ کچھ اہم صنعتوں، جیسا کہ ٹیکسٹائل، خوراک، مشروبات، سیمنٹ، ادویہ سازی اور آٹو موبائل کی پیداوار ی شرح میں کمی رہی۔
ایک اور اہم پیش رفت ہے انٹر بنک میں 23-10-2022 کو 240 کو چھونے کے بعدڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کم و بیش دس فیصد بہترٍی آئی اور یہ 11-10-2017 کو 217 ء میں ٹریڈ ہونے لگا۔ اس کے بعد سے روپے کی قدر ایک بار پھر گراوٹ کا شکار ہے لیکن یہ ڈالر کے مقابلے میں 220 کے آس پاس ہے۔ یہاں ایک مرتبہ پھر یہ دیکھنا مشکل ہے کہ آگے چل کر شرح مبادلہ کیا چال چلتی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کی طرف سے 1.5 بلین ڈالر کی منظوری کے بعد ایشین انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ بنک کی طرف سے 500 ملین ڈالر بھی ملیں گے۔ اس کے بعد دوسرے نصف ورلڈ بنک کی طرف سے بھی رقم ملے گی۔ یہ رقوم روپے کی قدر کو مستحکم کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا باعث بنیں گی۔
وزیر خزانہ کے واشنگٹن کے دورے نے حکومت کی اقتصادی پالیسیوں اور مستقبل کے منصوبوں کے لیے امکانات کی ایک کھڑکی کھول دی ہے اُنھوں نے چار اہم اعلانات کیے: (i) حکومت باقی رہنے والے جائزوں کے لیے فنڈ سے مزید کوئی رعایت نہیں مانگے گی، (ii) پاکستان پیرس کلب کے قرضوں کو ری شیڈول کرنے کا نہیں کہے گا، (iii) پاکستان اپنے ایک بلین ڈالر کے سکوک بانڈ پر سرمایہ کاروں کو رقوم کی ادائیگی کرے گا، اور (iv) پاکستان چین اور دیگر دوست ممالک سے دوطرفہ قرض پر کچھ ریلیف کی درخواست کرے گا۔
یہ پیغامات یہاں اور بیرون ملک دونوں بازاروں کے لیے سکون کا ذریعہ ہونے چاہئیں، ان سے حکومت کی آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ اصلاحات پر قائم رہنے کے عزم کا اظہار ہوتا ہے اسے ان آوازوں کو خاموش کرنے میں بھی مدد ملنی چاہیے جو مسلسل پاکستان کے ڈیفالٹ کی پیش گوئی کرتی ہیں۔
اشیا کے نرخ بدستور دباؤ میں ہیں 15 ستمبر کے ہفتے سے جب اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے اشاریہ میں سال کی ہفتہ وار مہنگائی 41 فیصد تھی، انڈیکس 20 فیصد کی اعتدال کی بلند ترین سطح پر آ گیا ہے، اور 20-10-2022 کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران 27 فیصد مہنگائی ریکارڈ کی گئی۔ یاد رہے کہ قیمتوں میں بہت زیادہ کمی حکومت کے 300 کے ڈبلیو ایچ کے صارفین کے لیے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کو معاف کرنے کے ایک فیصلے کی وجہ سے ہے،اس میں ایک غیر معمولی اضافہ کیا گیا تھا۔
یہ آخر کار صارفین سے کیسے وصول کیا جائے گا معلوم نہیں ہے۔ اوپیک کی جانب سے یومیہ دو ملین بیرل کی پیداوار میں کمی کے فیصلے کے بعد بین الاقوامی تیل کی قیمتوں میں متوقع کمی کا سلسلہ رک گیا، اس لیے اس کی پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی کہ کیا رواں برس مہنگائی قابل اعتبار حد تک گرے گی اور کس حد تک گرے گی۔
پاکستان کے لیے ایک اور اچھی خبر ایف اے ٹی ایف کی ’گرے لسٹ‘ سے نکلنا تھا، یہ واقعی ایک اہم کامیابی ہے جو ملک نے حاصل کی۔ یہ فروری 2018ء تھا جب ایک منظم اقدام میں پاکستان کو نہ صرف گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا بلکہ ایشیا پیسیفک گروپ کے برخلاف اس کی AML/CFT نظام کی تشخیص کے لیے انٹرنیشنل کوآپریشن ریویو گروپ کو بھیجا گیاجو پاکستان کی نگرانی کرتا ہے۔ آئی سی آر جی نے اس سب پر پانی پھیر دیا جو کچھ ہم نے پچھلے آٹھ برسوں میں کیا تھا اور پھر 34 سفارشات کا ایک مشکل اصلاحاتی ایجنڈا ہمارے سامنے رکھ دیا۔
شکر ہے کہ پاکستان نے اس طرح کے اقدام کے پیچھے محرکات کو نظر انداز کیا اور اس کے بجائے اس ایجنڈے کو حاصل کرنے کے لیے پوری لگن سے کام کیا۔ چار سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد ہم نے ان لوگوں کو غلط ثابت کیا جو سوچتے تھے کہ ہم ناکام ہو جائیں گے اور پھر وہ ہمیں ’بلیک لسٹ‘ میں دھکیل دیں گے۔ پاک فوج کی مدد سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس میں اپنا کردار بخوبی ادا کیا۔ اس پر وہ تحسین کی مستحق ہیں۔ قوم ان کی مشکور ہے کہ اسے یہ دن دیکھنا نصیب ہوا۔
