کپتان قاضی فائز عیسیٰ نے جہاز کا رخ بدل دیا

   کپتان قاضی فائز عیسیٰ نے جہاز کا رخ بدل دیا
   کپتان قاضی فائز عیسیٰ نے جہاز کا رخ بدل دیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کپتان نے کمان چھوڑ دی ہے، لیکن عدلیہ کے بھٹکے ہوئے جہاز کا رخ تبدیل کرکے اسے آئین کے نقشے میں دئے گئے راستے پرلگانے کے بعد۔ اس کپتان کا نام ہے  قاضی فائز عیسیٰ،جس کی سب سے بڑی کامیابی آئین کا بول بالا ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ  اپنا کام کرے گی اور اس کے سربراہ کو اپنی مرضی کے مطابق سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا کسی کے لئے بھی آسان نہیں ہوگا۔ سیاسی حکومتوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کے لئے سپریم کورٹ کے سربراہ کا مٹھی میں ہونا  اسٹبلشمنٹ کے لئے کس قدر  اہمیت کا حامل رہا ہے اس کا اندازہ قاضی فائز عیسیٰ کو  چیف جسٹس  بننے سے روکنے  اور راستے سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش سے لگایا جا سکتا ہے،کیونکہ وہ ایک دیانتدار اور جرأت مند شخص ہیں اور ان کو اپنی مرضی سے چلانا ممکن نہ تھا۔قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس بننے سے روکنے کے لئے ان پر بے بنیاد الزامات  لگائے گئے جن کی بنا پر مقدمات قائم کئے گئے اور انہیں بدنام کرنے کے لئے  پالتو میڈیا کے ذریعے دوسال تک مہم چلائی گئی۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان کی اہلیہ محترمہ کو بھی عدالت میں گھسیٹنے سے دریغ نہیں کیا گیا، اس سے بھی زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ  سپریم کورٹ میں ان کے  بعض ساتھی جج بھی قاضی عیسیٰ کے خلاف اس سازش میں شریک تھے۔ان حالات میں  یہ قاضی کا  ہی حوصلہ تھا کہ  وہ کسی  دباؤ میں نہیں آ ئے اور اس آزمائش میں سرخرو ہو کر نکلے جس کے دوران ثابت قدم رہنے اورہمت بندھانے پر سپریم کورٹ کے ان دیانتداراور قابل ججوں کو بھی سلام، جنہوں نے قاضی فائز عیسیٰ کا ساتھ دیا،بلکہ جسٹس طارق مسعود نے تو اصول پر قاِِئم رہنے کی ایسی مثال قائم کی کہ چیف جسٹس کا عہدہ  بھی قربان کردیا جو قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس نہ بننے پر انہیں حاصل ہوتا۔ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف یہ سازش اس حکومت  کے دور میں تیار ہوئی جسے  فارم 47 کی ہائی برڈ قسم استعمال کرکے 2018 میں اقتدار میں لایا گیا تھا۔  فارم 47 کی یہ  ہائی برڈ قسم اس وقت اسٹبلشمنٹ کے کرتا دھرتاؤں نے جن میں  جنرل باجوہ اور جنرل فیض شامل تھے چیف جسٹسوں سمیت  سپریم کورٹ کے ججوں سے مل کر تیار کی تھی، جس کے ذریعے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آزادانہ اور منصفا نہ انتخابات کے ذریعے برسراقتدار آنے والی ن لیگ کی حکومت کو اقتدار سے محروم کیا  گیا۔ان انتخابات میں ن لیگ  بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی جس کا ایک  قابل ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ ا  پیپلزپارٹی  نے یہ انتخابات اپنی  پانچ سال حکومت کے بعد کروائے تھے، لیکن ان  کے نتیجے میں پنجاب سے پیپلز پارٹی کا صفایا ہوگیا تھا، اس کے باوجود جمہوری روایت کے مطابق  اقتدار کی پرامن منتقلی عمل  میں آئی تھی۔یہی وہ موقع تھا جب ملک میں جمہوری روایات کو پھلتا پھولتا دیکھ کر غیر سیاسی قوتوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی اور انہوں نے اسے ہٹانے کے لئے  فارم 47 کی ہائی برڈ قسم تیار کرنا شروع کردی تھی جن کی تزئین و ترتیب میں علامہ طاہر القادری پرویز الٰہی کے علاوہ کچھ اور جمہوری لیڈر بھی شامل تھے،جو چور دروازے سے اقتدار کے خواب دیکھ رہے تھے۔پیپلز پارٹی نے جنرل مشرف کے بعد اپنے عہد اقتدار میں اٹھارویں ترمیم جیسا زبردست کارنام بھی انجام دیا تھا، جس کے تحت  صدر مملکت کا حکومت تبدیل کرنے کا اختیار ختم کردیا گیا تھا، جس سے اسٹبلشمنٹ کو  صدر کی چابی گھما کر حکومتیں تبدیل کرنے کی سہولت حاصل نہیں رہی تھی۔ چنانچہ اس کے بعد  اسٹبلشمنٹ نے یہ راستہ نکالا کہ  اپنی مرضی کے ججوں اور  چیف جسٹسوں کو آگے لا کر ان سے یہ کام  لینا شروع کر دیا۔ ان   میں  سے سب سے زیادہ نیک نامی  ثاقب نثارنے کمائی۔یہ کٹھ پتلی تماشا قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے تک جاری رہا، جنہوں نے منصب سنبھالتے ہی جب  آئین اور قانون کے مطابق فیصلے دینا شروع کئے تو ہر طرف ہاہا کار مچ گئی خاص طور پر ان حلقوں میں جو ججوں کو اپنے ہاتھ میں  رکھ کر ان  سے اپنی مرضی کے فیصلے کرانے  کے عادی ہوگئے تھے۔ان حلقوں نے جب وہ حکومت میں تھے   اسٹبلشمنٹ سے مل کر قاضی عیسیٰ کو بدنام کرنے کی مہم چلائی تھی اور اب اپنی مرضی کے مطابق فیصلے نہ آنے پر دوبارہ  اسی  کام پر  لگ گئے۔اس معاملے کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ دوسروں کی  مرضی کے مطابق  فیصلے دینے والے وہ  جج  بھی جو فارم  47 کی  ہائی برڈ قسم تیار کرنے میں شریک رہے تھے اور وہ بھی جنہوں نے جنرل فیض سے تعاون کے عوض فیض حاصل کیا تھا اپنی گردن پھنستی دیکھ کر پتلی گلی سے نکل لئے۔یہ صورت حال دیکھ کر ملک میں کرپشن کے بے تاج بادشاہ ٹائی کون جنہوں نے ملک میں ہر طاقتور کو خرید رکھا تھا زندگی میں پہلی مرتبہ دم دبا کر ملک سے ہی  بھاگ نکلے۔ قاضی  فائز عیسیٰ کے خوف سے جہاں بددیانت اور بے کردار افراد پر لرزہ طاری ہوا وہاں ایسے  دیانتدار ستم زدہ افراد کو ان  کا حق بھی ملا، جنہیں اس کی کوئی امید نہ تھی۔ ان میں سے جسٹس شوکت عزیز کے وقار کی بحالی اور نقصانات کے ازالے کا مقدمہ سب سے زیادہ قابل ذکر ہے، جنہیں  سابق جنرل فیض حمید کے دباؤو کو اشکارآ کرنے پرانہی کے  جج ساتھیوں کے ذریعے  عہدے سے ہٹا کر زیر عتاب لایا گیا تھا۔ قاضی عیسیٰ کے دبنگ ہونے کا ثبوت تو اسی وقت سامنے آگیا تھا جب انہوں نے فیض آباد دھرنا کیس میں جنرل فیض حمید کے کردار پر کڑی تنقید کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں دخل نہ دینے کا پروانہ جاری کیا تھا۔ چیف جسٹس بننے کے بعد بھی جب انہوں نے آئین کی بالا دستی قائم رکھتے ہوئے بلالحاظ فیصلے دینا  شروع کئے توہائیکورٹ کے  ان چھ  ججوں نے بھی ہمت پکڑی جو عدالتی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف تھے، لیکن یا تو مصلحتا نہیں بولتے تھے یا منہ کھولنے کی ہمت نہیں تھی بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے ڈآنڈے سپریم کورٹ کے کچھ ہم خیال ججوں سے جاملتے تھے جو اسٹبلشمنت  کے عدلیہ پر حاوی آنے کے سخت  خلاف تھے  اور  ائین کی بالادستی پر یقین رکھتے تھے۔ 

ان ججوں کی اپنی ہمت کا یہ حال تھا جسٹس شوکت عزیز جب اسٹبلشمنٹ کے زیر عتاب آئے تو انہوں نے اپنے ساتھی جج کی حمایت میں چوں بھی نہیں کی تھی۔البتہ جب قاضی فائز عیسیٰ کو سینہ چوڑا کرکے آگے بڑھتے ہوئے دیکھاتوان کی حمایت کرکے انہیں مضبوط بنانے کے بجائے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ان کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلانے کی کوشش کی، لیکن ان  کے اس اقدام میں کیونکہ دور اندیشی شامل نہ تھی اس لئے  ایسا کرتے وقت انہوں نے اس پہلو کو پیش نظر نہ رکھا کہ  اگر وہ اسٹبلشمنٹ کے ایک حلقے کو نیچا دکھانے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو اس کی جگہ جو دوسرا حلقہ لے گا وہ بھی آمرانہ طرزِ حکومت کا ہی  حامی ہے اور آئین کو کسی خاطر میں نہیں لاتا۔ سیاسی بصیرت سے محروم آئین پسند ججوں کے اس گروپ نے اپنے لئے علیحدہ راستہ منتخب کرلیا تو ان کی کوشیش آئین کی سربلندی کے بجائے سیاسی رنگ اختیا کرگئیں جن سے سپریم کورٹ کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا جس کی بحالی کے لئے کوششیں   قاضی فائزعیسیٰ  کے ہمیشہ پیش نظر رہیں اور انہوں نے منصب سنبھالتے ہی اس سلسلے میں سب سے پہلا کام یہ کیا تھا کہ بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کا مقدمہ زیر سماعت لائے تھے۔اس مقدمے کے فیصلے میں انہوں نے یہ بات ریکارڈ پر لا کر کہ بھٹو صاحب کو انصاف فراہم نہیں کیا گیا  عدلیہ کے ماتھے سے ناانصافی کا  وہ داغ دھونے کی کوشش کی تھی، جس کی وجہ عدلیہ پوری دنیا میں بدنام ہوئی تھی۔قاضی فائز عیسیٰ اس لحاظ سے بھی تعریف کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے  خاندان کی اعلی  روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے والد قاضی عیسیٰ کا نام روشن کیا جو قائداعظم کے ذاتی دوست تھے اور لندن سے بیرسٹری کرنے بعد بمبئی میں ان کے ساتھ ہی وکالت کرتے تھے۔ وہ قائداعظم کے کہنے پر ہے بلوچستان آئے تھے جہاں انہوں نے مسلم لیگ کو منظم کرنا شروع کیا تھا اور پاکستان میں شمولیت کے لئے صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) میں ریفرنڈم کے دوران مسلم لیگ کو کامیاب کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -