ظالمو۔۔ گنڈاپور۔۔ راجہ آ رہا ہے

Oct 29, 2024 | 10:42 PM

سید صداقت علی شاہ

11مئی 2013کے الیکشن ہوئے۔ مسلم لیگ (ن )نے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔

پاکستان تحریک انصاف مرکز میں دوسری جبکہ خیبرپختونخوا میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔الیکشن کے ٹھیک 4 دن بعد 15مئی کو عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے اور الیکشن کمیشن سے قومی اسمبلی کے 6حلقوں میں نادرا سے انگوٹھوں کے نشان کی دوبارہ تصدیق کرانے کا مطالبہ کر دیا۔این اے 57اٹک،این اے 110سیالکوٹ، این اے 122لاہور، این اے 125لاہور، این اے 154لودھراں اور این اے 239کراچی کے حلقے کھولنے کیلئے الیکشن کمیشن کو 3دن کی ڈیڈ لائن دی گئی۔ 
ڈیڈ لائن گزر گئی، حلقے نہ کھلے۔ 22مئی 2013ء کو عمران خان شوکت خانم ہسپتال سے صحت یاب ہو کر لاہور میں اپنے گھر زمان پارک میں منتقل ہو گئے۔ اسی دوران ہی ملک بھر میں مبینہ دھاندلی کیخلاف احتجاج اور دھرنوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے دھرنوں کے شرکاءسے خطاب کرتے تھے۔ پہلے پہل 6حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا گیا، اس کے بعد یہ مطالبہ سکڑ کر 4حلقوں تک محدود ہو گیا اور 25مئی کو عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان سے لاہور، سیالکوٹ اور لودھراں کے 4حلقے کھولنے کا مطالبہ کر دیا۔
جیسے ہی عمران خان چلنے پھرنے کے قابل ہوئے تو ویڈیو لنک سے خطاب کا سلسلہ بند ہوا اور ملک بھر میں جلسے جلوس شروع ہو گئے۔ حلقے پھر بھی نہ کھلے تو عمران خان نے 14مارچ 2014کو لاہور سے اسلام آباد ”آزادی مارچ“ کا اعلان کر دیا۔ اسی دن ہی پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے بھی لاہور سے اسلام آباد ”انقلاب مارچ“ کی تاریخ دے دی۔
اس وقت کے ”سیاسی کزن“ عمران خان اور طاہر القادری ایک ہی دن (14اگست) کو اسلام آباد کیلئے نکلے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ نواز شریف سے استعفا لینے جا رہے ہیں۔ طاہر القادری کا کہنا تھا کہ انقلاب مارچ مظلوم، محکوم اور مجبور عوام کو ان کا آئینی، جمہوری اور قانونی حق دلوائے گا۔
آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے ٹرک مختلف تھے لیکن راستہ ایک تھا۔ دونوں کزنز کا اسلام آباد پہنچنے کا وقت مختلف تھا لیکن منزل ایک تھی۔ اسلام آباد میں پھر اس وقت جو کچھ ہوا،وہ یہاں دوبارہ لکھنے اور دہرانے کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک بات بتانا مقصود ہے اور وہ یہ کہ دونوں ”مارچ“ مل کر بھی ایک لاکھ یا ”خاطر خواہ“ بندے اکٹھے نہ کر سکے۔لہٰذا”نتیجہ“ نہ نکل سکا۔
29اکتوبر 2024ء کو پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ”ذرا بھی ابہام نہیں کہ فیصلہ عدالتوں یا پارلیمنٹ سے ہو گا،فیصلہ سڑکوں پر ہو گا۔8یا 10ہزار لوگ آئیں گے تو 2 ہزار کو تو گرفتار کر لیا جائے گا، باقی ماندہ کو حکومت مار پیٹ کر منتشر کر دے گی۔ روز پوچھا جاتا ہے کہ کال کیوں نہیں دیتے، کال اس وقت دیں گے جب یقین ہو گا کہ 3سے 4لاکھ کا مجمع ہو گا“۔
”اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا“
اس بیان پر تو یہی کہا جا سکتا ہے۔ حضور والا! اتنے بندے تو 2014میں نہیں نکلے تھے۔ نکلے ہوتے تو ”نتیجہ“ کچھ اور ہوتا۔ ہاں آپ، اس وقت تحریک انصاف کا حصہ نہیں تھے۔ پھر بھی یاد تو ہو گا کہ اس وقت بہت ”تیاری“ کے ساتھ سب کچھ کیا گیا۔ اس وقت ”کپتان“ بھی باہر تھا۔ گراؤنڈ کے اندر، باہر اور ہر جگہ سے پوری سپورٹ تھی، پھر بھی کچھ نہ ہو سکا۔لوگوں کو سڑکوں پر نکالنے سے کچھ نہ ہو گا،لیڈروں کو بھی ٹھنڈے اور آرام دہ کمروں سے باہر نکلنا ہو گا۔ 4 اکتوبر کا ”تماشا“ سب نے دیکھ لیا۔ کون آیا، کون نہیں، پارٹی میں سب کو معلوم ہے۔ کارکن تو ڈی چوک پہنچ گئے تھے، لیڈر کہاں تھے؟ کون کے پی ہاؤس چلا گیا؟ کون ”ڈگی“ میں چھپ گیا؟ کون ”ورک فرام ہوم“ کرتا رہا؟ کون بیمار ہو گیا؟ اور کون ”لاپتہ“ ہو گیا؟ یہ سب کو پتہ ہے، صرف ”کپتان“ نہیں جانتا۔
جماعت اسلامی کے سابق مرحوم امیر قاضی حسین احمد حکومتی پالیسیوں کیخلاف احتجاج اور لانگ مارچ کا اعلان کرتے تو ان کے بارے میں ایک نعرہ مشہور ہو گیا تھا۔ کہا جاتا تھا ”ظالمو، قاضی آ رہا ہے“۔قاضی صاحب کے اعلان سے ہی حکومتی صفوں میں کھلبلی اور بے چینی پھیل جاتی تھی۔
تحریک انصاف والوں کو بھی چاہیے کہ تھوڑی دیر کیلئے ذرا قاضی حسین احمد مرحوم کی زندگی، احتجاجی تحریک اور لائحہ عمل سے ہی کچھ سیکھ لے۔ انصافی کارکن کم از کم یہی کہہ لیں، ”ظالمو، گنڈاپور آ رہا ہے“۔کاش کوئی یہ آواز ہی لگا دے”ظالمو، سلمان اکرم راجہ آ رہا ہے“۔ 
تحریک انصاف کو تین یا چار لاکھ لوگ نہیں، صرف تین یا چار چہرے چاہیئیں۔ کام ہو جائے گا۔

نوٹ : ادارے کا کالم نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزیدخبریں