افغانستان میں نیٹو فوجیوں پر حملے

افغانستان میں نیٹو افواج نے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جو جنگ چھیڑ رکھی ہے، اس کے اثرات کا جائزہ لینے کے مختلف طریقے ہیں۔ کئی زاویوں سے اس جنگ کے اثرات کو جانچا اور پرکھا جاتا ہے تاکہ عوامی حمایت برقرار رکھنے کے طریقے سوچے جاسکیں۔ نیٹو افواج کو افغانستان میں دس برسوں کے دوران شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک بڑی مشکل ”اپنوں“ کے حملے بھی ہیں۔ افغان فوج اور پولیس کے بہت سے اہلکار آئے روز نیٹو افواج پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ برس ان حملوں میں 35 افراد مارے گئے تھے، مگر اس سال یہ رجحان مزید پختہ ہوا ہے اور اب تک 45 نیٹو فوجی اور اہلکار مارے جا چکے ہیں۔ 29 اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ 29 اگست کو جنوب وسطی صوبہ ارزگان میں ایک افغان فوجی نے تین آسٹریلوی فوجیوں کو فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
افغانستان میں امریکی اور یورپی فوجیوں پر حملوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پر امریکی صدر بارک اوباما نے بھی شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان حملوں کے بڑھنے کی صورت میں ان کی مقبولیت بھی متاثر ہوئی ہے۔ اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ حملے کیوں کئے جاتے ہیں؟ حقیقی اسباب کا سراغ لگانا ویسے بھی بہت مشکل ہے۔ چند ہی حملہ آور زندہ رہ پاتے ہیں۔ بیشتر جوابی کارروائی میں مارے جاتے ہیں۔ بہت سے واردات کے بعد فرار ہو جاتے ہیں۔ تفتیش کاروں کو نہ تو کوئی تحریر ملتی ہے، نہ انہیں حملہ آوروں سے تفتیش کرنے کا موقع مل پاتا ہے۔ ایسے میں وہ محض اندازوں ہی کی بنیاد پر رپورٹ تیار کر سکتے ہیں۔
طالبان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے افغان فوج اور پولیس میں اپنے کارکن داخل کر دئیے ہیں، جو تربیت حاصل کرنے کے دوران موقع ملتے ہی کام کر جاتے ہیں۔ نیٹو کمانڈروں کا کہنا ہے کہ طالبان کے دعوے میں دم نہیں۔ وہ محض بدگمانی اور بد حواسی پھیلانا چاہتے ہیں۔ نیٹو افواج پر حملہ کرنے والے افغان اہلکاروں کا طالبان یا حقانی نیٹ ورک سے براہ راست تعلق ثابت کرنے کی بیشتر کوششیں ناکام رہی ہیں۔ بیشتر حملے ذاتی حیثیت میں ذاتی وجوہ کی بنیاد پر کئے گئے ہیں۔ اب تک دس میں سے صرف ایک واقعے میں یہ ثابت ہو پایا ہے کہ حملہ کرنے والا دراصل عسکریت پسند گروہ کارکن تھا اور اسے جان بوجھ کر فوج میں بھرتی کرایا گیا تھا۔ بہت سے حملے معاشرتی دباو¿ یا عسکریت پسندوں کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کے زیر اثر کئے گئے۔
اب تک کی تفتیش سے اندازہ ہوتا ہے کہ نیٹو افواج پر افغان فوجیوں یا پولیس اہلکاروں کے حملوں کی مختلف وجوہ ہیں۔ ثقافتی فرق کو نظر انداز کرنے اور کسی نہ کسی حیثیت میں اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش افغان اہلکاروں کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ بعض معاملات میں یہ بھی ہوا کہ نیٹو فوجیوں نے اسلامی تعلیمات کے بارے میں اہانت آمیز الفاظ کہے یا مسلمانوں کو گالیاں دیں تو ان پر حملے ہوئے۔ نیٹو فوجیوں کی جانب سے عام شہریوں کو پست قرار دینے کی کوشش اور حد سے بڑھا ہوا سرکش رویہ بھی ان پر حملوں کا سبب بنا۔
افغان فوجیوں پر تعیناتی کے حوالے سے شدید دباو¿ رہا ہے۔ ایک طرف تو انہیں چھٹیاں نہیں ملتیں، دوسرے انہیں ایسے علاقوں میں طویل مدت تک تعینات رکھا جاتا ہے، جہاں لڑائی شدت اختیار کرتی رہتی ہے۔ ان میں ہلمند کا صوبہ بھی شامل ہے۔ نیٹو افواج کے بارے میں طالبان کا پروپیگنڈا بھی ان پر حملوں میں اضافے کا باعث بنتا رہا ہے۔ پھر سوال صرف غیر ملکیوں پر حملوں کا نہیں ہے۔ افغان اہلکار اپنے ہم وطنوں پر بھی حملے کر کے انہیں ہلاک کرتے رہتے ہیں۔ نسلی، گروہی، قبائلی اور نظریاتی اختلاف بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اس سال اب تک 35 حملوں میں53 افغان بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 22 ہے۔
افغانستان میں مقامی اہلکاروں کے حملوں کی وجہ سے نیٹو افواج کا مورال گرتا رہا ہے۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ نیٹو فوجیوں کے لئے یہ سمجھنا بہت مشکل ہوگیا ہے کہ کس پر بھروسہ کریں اور کس پر نہ کریں۔ حملوں میں اضافے کے باعث وہ ہر افغان فوجی اور زیر تربیت اہلکار کو شک کی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ نیٹو فوجیوں کو یہ بات بھی پسند نہیں کہ ان کی نگرانی کی جائے۔ جب ان کی نگرانی کی جا رہی ہوتی ہے تو انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے ان کی نیت پر شک کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نیٹو افواج پر بڑھتے ہوئے حملوں سے متعلقہ ممالک میں حکومتوں پر دباو¿ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فوجیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتیں عوام کو مجبور کر رہی ہیں کہ وہ حکومت سے فوجیوں کے انخلاءکا مطالبہ کریں۔ امریکہ میں بھی یہ سب کچھ انتخابی مہم پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ ٭