انتخابات
نواز لیگ بروقت انتخابات کی تیاری بھی اسی شدومد سے کر رہی ہے جس سنجیدگی سے کبھی قبل از وقت انتخابات کی کیا کرتی تھی، لیکن اگر اس وقت قبل از وقت انتخاب کی بات قبل ازوقت لگتی تھی تو اب بروقت انتخابات کی بات بروقت نہیں لگتی ،کہ ابھی تو نگرانوں کا قبل ازوقت انتخاب بھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے ،دیکھیں کب ہوتا ہے، اس دسمبر جنوری میں یا پھر اگلے مارچ اپریل میں!
فی الحال تو نوا ز لیگ نے اگلی حکومت کا بہروپ بھر لیا ہوا ہے اور نواز شریف غیر ملکی سفارت کاروں سے ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ حکومت کو انتباہ بھی کئے جارہے ہیں کہ اگر انتخابات کو موخر کرنے کی کوشش کی گئی تو ایک نئی تحریک جنم لے سکتی ہے ،وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بلوچستان کی بدامنی کو عذر بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، گویا کہ سب کچھ سامنے نظر آنے کے باوجود نواز لیگ کو بے یقینی کے یقین نے جکڑا ہوا ہے کیونکہ بروقت انتخابات کا انحصار حکومت کی مدت پر کم اور صدر زرداری اور ان کے اتحادیوں کی نیت پر زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ نواز لیگ اپنے تئیں عام انتخابات کی تیاری کو آخری شکل دے رہی ہے تو پیپلز پارٹی 30ستمبر کو لاہور میں بلدیاتی کنونشن کا انعقاد کر رہی ہے، گویا کہ ایک عام انتخابات کی چوسنی چوس رہا ہے تودوسرا بلدیاتی انتخابات کا لالی پاپ اورامیدواروں کے منہ میں خالی پانی بھرا ہوا ہے!
تجزیہ کار جناب اشرف ممتاز نے امیدواروں کے حوالے سے ایک جاندار بحث کا آغاز کیا ہے کہ ان دنوں انتخابی امیدوار جس طرح ایک ٹوکرے سے نکل کر دوسرے ٹوکرے میں گھس رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملکی سیاست سے آئیڈیالوجی کا جنازہ نکل گیا ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت کسی مفرور مرغے کو ڈربے میں گھسانے سے قبل اس کی نظریاتی جانچ پڑتا ل کو ضروری نہیں جانتی، ہمیں اشرف ممتاز کے اس تجزیے پر کچھ اعتراض نہیں کیونکہ لگ بھی یہی رہا ہے کہ ان انتخابات میں سیاسی جماعتیں اتنی اہم نہیں رہیں جتنے اہم انتخابی امیدوار ہوتے جا رہے ہیں ،اس کا سبب یہ ہوسکتا ہے کہ ملک میں پہلی مرتبہ دو جماعتی کے بجائے سہہ جماعتی بلکہ کثیر الجماعتی انتخابات سنجیدگی سے ہونے جا رہے ہیں، ان انتخابات کو جیتنے کے لئے جن داﺅ پیچ کا استعمال لاہور میں کیا جائے گا وہ لیہ میں ہرگز کارگر نہ ہوں گے ، اب کسی بھی امیدوار کے لئے یہ بات اہم نہ ہوگی کہ وہ کس قدر مضبوط ہے بلکہ زیادہ اہمیت اس بات کی ہوگی کہ اس کے بقیہ دو مخالفین کتنے موثر ہیں، یعنی یہ بقیوں کا انتخاب ہوگا، اس بار نادان دوست سے ہی نہیں عقل مند دشمن سے بھی نپٹنا ہوگا ،انتخابی پیٹرن تبدیل ہوگیا ہے، اس انتخاب کو ملکی سطح پر نہیں علاقائی سطح پر لڑنا پڑے گا، ہر علاقے کی سٹریٹیجی علیحدہ ہوگی ،لوگوں کے ہاتھ میں تھرڈ آپشن کا گڑ موجود ہے ،ووٹ بے دردی سے تقسیم ہوگا ،یہ تقسیم انتخابی نتائج کو کاٹ پھاڑ دے گی !
لہٰذا آئیڈیالوجی کی بائیالوجی پہلے والی نہیں رہی ، عمران خان کی آئیڈیالوجی کرپشن کا خاتمہ ہے، نواز شریف کی آئیڈیالوجی ترقی کا سفر ہے، آصف زرداری کی آئیڈیالوجی مفاہمت کی سیاست ہے، مذہبی جماعتوں کی آئیڈیالوجی گڈمڈ ہے ، صرف مولانا فضل الرحمٰن کی آئیڈیالوجی مستحکم ہے کہ جہیڑا جتے اوہدے نال!
تسلی بخش بات یہ ہے کہ ان تمام فریقوں کا انتخابات کے انعقاد پر اتفاق ہے ، دیر سویر کی بات علیحدہ ہے ،عوام اس لئے جلدی میں دکھائی نہیں دیتے کہ پاکستان میں انتخابات مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہے ہیں، بلکہ کہئے کہ غیر پیداواری (Unproductivity)صورت حال کا شکار رہے ہیں،سیاست کاروبار ہے، سیاسی جماعتیں پرائیویٹ کمپنیاں اور اسمبلیاں پیسہ چھاپنے کی مشینیں، امیدوار انتخابات میں خرچتے ہیں اور اسمبلیوں میں بیٹھتے ہی ڈبل کرنے کے چکر میں لگ جاتے ہیں، سپریم کورٹ یہ کہہ کہہ کر ہلکان ہو چکی ہے کہ نیب بے ایمان ہو چکی ہے ، رینٹل پاور کے سودوں میں کرپشن پر اس وقت کے وزیر پانی و بجلی کی گرفتاری کے بجائے بددیانت سیاستدانوں اور بزنس مینوں سے لوٹی گئی رقم کے بھاﺅ تاﺅ کر رہی ہے، جناب مخدوم امین فہیم کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ ان کے اکاﺅنٹ میں کروڑوں کس نے جمع کروادیئے ہیں!
اس تمام تر بے یقینی اور بے اعتمادی کی فضا میں اگلے انتخابات کا بنیادی نکتہ تبدیلی ہے ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب تبدیلی چاہتے ہیں اور خود تبدیل نہیں ہونا چاہتے، اسی لئے ہم تبدیلی کو پاکستان کی ضرورت بنانے کی بجائے پاکستان کو تبدیلی کی ضرورت بنا کر اگلا انتخاب لڑ رہے ہیںحالانکہ تبدیلی کی ضرورت پاکستان کو ہے، پاکستان کسی تبدیلی کی ضرورت نہیںہونا چاہئے!
کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان اس بے یقینی کی صورت حال میں کچھ یقین کی صورت پیدا کر سکے گا۔