شوریٰ ہمدردمیں پاک بھارت تعلقات پر اظہارِ خیال

شوریٰ ہمدردمیں پاک بھارت تعلقات پر اظہارِ خیال

  

                                                    گزشتہ دنوں شوریٰ ہمدرد کے اجلاس کا موضوع ”خطے میں پائیدار امن اور بھارت کا جارحانہ رویہ“تھا....مقررین میں محترمہ بشریٰ رحمن، ڈاکٹر رفیق احمد، جنرل (ر) راحت لطیف، محترم ابصار عبدالعلی، ڈاکٹر ابراہیم مغل، محترم احمد اویس، محترم ثمر جمیل خان، محترم جمیل ناز، جسٹس (ر) ڈاکٹر منیر احمد مغل، رانا امیر احمد خان، محترم ادیب جاودانی، میجر (ر) صدیق ریحان، محترم کامران نذیر، محترمہ شائستہ ایس حسن، محترمہ فرح دیبا و دیگر شامل تھے۔ ماہر قانون محترم ایس ایم ظفر کی مصروفیت کے پیش نظر سپیکر کے فرائض محترمہ بشریٰ رحمن نے نبھائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان خطے میں اپنی اہمیت رکھتا ہے جو پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات کا خواہش مند ہے، لیکن اپنا وقار قائم رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو بھارت کا کردار اعتماد و اعتبار کے لحاظ سے ایک سوالیہ نشان ہے۔ ہم نے ایٹم بم پٹھو گول گرم کھیلنے کے لئے نہیں، بلکہ خطے میں پائیدار امن کے قیام اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے بنایا۔ ہمیں ایسی تجارت کی ہر گز ضرورت نہیں جو ہمارا حق، یعنی پانی روک کر ہمارے ساتھ کی جائے۔

جنرل (ر) راحت لطیف نے کہا کہ امن کی آشا سے ہمیں ہمیشہ نقصان دہ تحائف ملے ہیں۔ اس کی اہم وجہ بھارت کا منافقانہ رویہ ہے۔ ماضی کی طرح بھارت کا مزاج آج بھی تبدیل نہیں ہُوا، اس لئے ہمیں بھی اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔ انہوں نے کارگل جنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس نقصان سے سبق سیکھنا چاہئے۔ محترم ابصار عبدالعلی نے کہا کہ بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول کی حالیہ پے در پے خلاف ورزیوں کو ہمیں تین بنیادی باتوں کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ پہلی بات تو یہ کہ اپریل2014ءمیں بھارتی عام انتخابات ہونے والے ہیں، جسے بھارتیہ جنتا پارٹی پاکستان مخالف ماحول کو ہوا دے کر جیتنا چاہتی ہے۔ انڈین کانگریس اس کے مقابلے میں دو قدم آگے بڑھ کر میدان مارنا چاہتی ہے، لہٰذا پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لئے کانگریس سرکار خود لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کر کے اُلٹا پاکستان پر جھوٹے الزامات عائد کر رہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پچھلے دنوں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی پاکستان آمد سے پہلے بھارت نے پاک بھارت سرحد پر فائرنگ کر کے پاکستان پر الزام لگایا تاکہ اقوام متحدہ میں 65 سال سے عمل درآمد کی منتظر کشمیر میں حق خود ارادیت کی قرار داد کے مسئلے سے توجہ ہٹائی جائے۔

 تیسری بات یہ کہ کاشغر سے گوادر تک تجارتی راہداری اور چین، پاکستان کے بڑھتے ہوئے اقتصادی تعاون کے دوسرے منصوبوں کی تعمیر میں رخنے ڈالے جائیں۔ بھارت نے اپنے عوام کی امن کی آشا اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی دوستی کی کوششوں کو اپنی روایتی پاکستان دشمنی کے قدموں تلے انتہائی پھوہڑ پن سے روند ڈالا ہے، جس کی تازہ مثال بھارتی ہائی کمشنر کی سرتاج عزیز سے خیر سگالی ملاقات ہے، جس میں بھارتی ہائی کمشنرنے تمام سفارتی آداب و قرینے بالائے طاق رکھتے ہوئے شکایت کی کہ پاکستان کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ہمیں یہ اُمید رکھنی چاہئے کہ بھارت کی نئی حکومت پاکستان کے ساتھ کشمیر اور پانی کے بنیادی مسائل پر بات چیت میں پیش رفت ضرور کرے گی۔

خطے میں پائیدار امن کی خاطر اسے پاکستان جیسے امن پسند پڑوسی کے ساتھ جیو اور جینے دو کی پالیسی پر آخر کار عمل کرنا ہی ہوگا۔ اس میں دونوں ملکوں کے عوام کا فائدہ ہے۔ محترم ڈاکٹر ابراہیم مغل نے کہا کہ فاٹا، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور ملک کے دیگر حِصّوں میں دہشت گردی کے پیچھے بھارت ہی کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ہمارے ہمسایہ دوست کا حالیہ کارنامہ یہ ہے کہ اُس نے پاکستان کا 27 فیصد پانی صرف نیلم جہلم کا روک لیا ہے۔ محترم احمد اویس نے کہا کہ ہمیں جذبے کے ساتھ ہوش اور عقل کی بھی ضرورت ہے۔ ہماری لیڈر شب نے کبھی مسائل کے حل کے لئے دماغ استعمال نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ خوشنودی تلاش کی ہے۔ پاکستان کی خود مختاری پر ہونے والے ہر حملے کو نا اہل حکمرانوں نے طالبان کا نام لگا کر اپنی جان چھڑائی جبکہ ہر حملے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس انڈیا میں چھوٹا سا حادثہ بھی ہو جائے تو بغیر تحقیق کئے پاکستان پر ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان نے ہمیشہ ہمیں دھوکہ دیا ہے۔ ہمیں ہوش مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ سید جماعت علی شاہ نے کہا کہ حکومتی نمائندے فائیو سٹار ہوٹلوں میں بیٹھ کر امن کی آشا کی بات کرتے ہیں۔ پہلے تو ہمیں مزاج پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ اگر بھارت کا جارحانہ رویہ ہے تو اس کی بنیاد ہماری ہی غلطیاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جتنی بھی ڈیموں پر کرپشن ہوئی ہے، اُن سب کے کیس سپریم کورٹ میں کھلنے چاہئیں۔

محترم جمیل ناز نے کہا کہ بھارتی ثقافتی یلغار ہماری نسلوں کے لئے ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے جو بھارت کا سب سے بڑا حملہ ہے۔ ڈاکٹر رفیق احمد نے کہا کہ بھارت کا پاکستان سے ہمیشہ یہی رویہ رہا کہ بغل میں چھری منہ میں رام رام ہمارے پاس ستاروں پر کمند ڈالنے والا نظریہ موجود ہے۔ اس مضبوط بنیاد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں بھارت سے برابری کی سطح پر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی چاہئے۔ معاہدہ کر کے مُکر جانا بھارت کی عادت ہے۔ بھارت کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ ہم نے ایٹم بم خطہ میں پائیدار امن کے قیام اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے بنایا۔ بھارت پر بالادستی کا جنون سوار ہے وہ اپنے مستقبل سے بے نیاز ہو کر خود کش حرکتیں کر رہا ہے۔ قائداعظمؒ کی سب سے پہلی تقریر مسلمانوں کو برابری کی سطح پر تعلیم دینے پر تھی۔ قائداعظمؒ نے خلوص نیت کے ساتھ بھارت سے امن کی بات پر زور دیا تو کشمیر پر جارحانہ رویہ دیکھتے ہوئے قائداعظمؒ نے یہ بھی کہا کہ یہ باتوں سے نہیں، بلکہ لاتوں سے مانیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے مزید کہا کہ لیاقت علی خان نے مُکا لہرا کر پورے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا۔    ٭

مزید :

کالم -