گورنر پنجاب کادورۂ جرمنی !
پنجاب کے گورنر چودھری محمد سرور سکاٹ لینڈ(یو کے) کے ریفرنڈم کے سلسلے میں ایشیائی (خاص کر پاکستانی اور جن ووٹروں) اور انگریز باشندوں کو آمادہ کر رہے تھے۔ گورنر صاحب کی یہ کوششیں کامیاب ہوئیں اور سکاٹ لینڈ میں 18ستمبر 2014ء کو NOووٹ 10% سے زائد ووٹوں سے جیت گیا ،جس سے برطانیہ کا یہ اہم صوبہ 307 سال بعد بھی تاج برطانیہ ہی کا حصہ رہ گیا،جس کو برطانیہ کی تمام اہم سیاسی جماعتوں نے سراہاہے، جس کے نتیجے میں یورپ میں علیحدگی پسندوں کی خاص طور پر بلجیم اور سپین کی علیحدگی کی تحریکوں کو وقتی طور پر دھچکا تو ضرور محسوس ہوا ہو گا۔ گورنرپنجاب کی دس دن تک سکاٹ لینڈ میں موجودگی اور یو کے والوں کی حمایت پاکستان اور تاج برطانیہ کے درمیان ایک اچھے ماحول اور خوشگوار تعلقات کو مزید بڑھاوا دینے کا سبب بنے گی۔بقول چودھری محمد سرور، جن لوگوں اور تاج برطانیہ کی وجہ سے انہیں عزت ،دولت اور شہرت ملی ، وہ اپنے ان محسنوں کو کیسے بھلا سکتے ہیں۔گورنر صاحب نے فرمایا کہ وہ برطانیہ ایک تو سکاٹ لینڈ کی کمپین کے لئے اور دوسرا سیلاب زدگان کی امداد کے لئے فنڈ ریزنگ کمپین کرنے آئے تھے، جس میں انہیں بہت کامیابی نصیب ہوئی۔
18ستمبر2014ء کو جب گورنر پنجاب سکاٹ لیند کے کامیاب ریفرنڈم سے فارغ ہوئے تو جرمنی میں پاکستانی ایمبسیڈرسید حسن جاوید ،جنہیں میں ہمیشہ عوام دوست سفیر کہتا ہوں، کیونکہ ان کا رویہ بڑا عوامی ہے اور بڑے محنتی قونصل جنرل ڈاکٹر امتیاز قاضی جو کہ پاکستانی کمیونٹی سے بہت قریبی تعلق رکھنا پسند کرتے ہیں نے ،یعنی ان دونوں صاحبان نے سکاٹ لینڈ میں گورنر پنجاب سے رابطہ کیا اور انہیں 20 ستمبر 2014ء کو فرینکفرٹ جرمنی بلانے کی بھرپور کوشش کی ،تاکہ گورنر پنجاب کی موجودگی میں وہ پاکستانی کمیونٹی کے سیلاب زدگان کی مالی امداد حاصل کر سکیں۔ ایمبیسڈر اور قونصل جنرل کے علاوہ جرمنی میں مقیم سوشل ورکر اور بزنس مین سید خرم شاہ جو کہ گورنر پنجاب کے دیرینہ دوست ہیں، ان کی انتھک محنت نے بھی گورنر پنجاب کی جرمنی آمد کو سہل بنایا ۔
19-18ستمبر، یعنی دو دنوں میں قونصل جنرل پاکستان ڈاکٹر امتیاز قاضی اور سید خرم شاہ نے خاصی محنت کرکے کافی تعداد میں پاکستانی کمیونٹی کے لوگوں کو ایک ہال میں مدعو کیا۔گورنر پنجاب نے پاکستانی ہم وطنوں سے بڑے کھلے انداز میں خطاب کیا، جس کو پاکستانی کمیونٹی نے بہت پسند کیا اور گورنر صاحب کو خوب داد دی۔گورنر صاحب نے فرمایا کہ مَیں آج جو کچھ ہوں، وہ سکاٹ لینڈ کی وجہ سے ہوں، اگر آج مَیں گورنر پنجاب ہوں تو صرف اپنے اللہ کی رحمت اور اپنے محسنوں کی وجہ سے ہوں۔ مَیں اپنے سکاٹ لینڈ کے محسنوں کو کبھی بھی نہیں بھلا سکوں گا۔انہوں نے فرمایا کہ اگر مَیں 40سال قبل سکاٹ لینڈ میں نہ آتا، وہاں پر ممبر آف پارلیمنٹ نہ بنتا تو آج پاکستان میں پنجاب کا گورنر تو کیا ایک وارڈ کونسلر بھی نہ بن سکتا۔یہ سب میرٹ ہی کی کارستانی ہے جو ہمارے ملک عزیز میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ مَیں جاہتا ہوں کہ پاکستان میں ہر لیول پر میرٹ کو بنیاد بنایا جائے۔
گورنر پنجاب نے فرمایا کہ ہمارا ملک پاکستان دنیا جہاں کی نعمتوں سے مالامال ہے، لیکن کرپٹ لیڈرشپ نے،اس ملک کو دیوالیہ کر دیا ہے۔ ہماری کرپٹ لیڈرشپ کو حسنی مبارک، قذافی، شاہ ایران وغیرہ کے انجام سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ملک میں ہر دوسرے تیسرے سال کبھی سیلاب اور کبھی خشک سالی کی وجہ سے ہم تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ہم نے کبھی نئے ڈیموں کا نہیں سوچا، تاکہ ہم پانی اور بجلی کی قلت سے آزاد ہو سکیں۔ گورنر صاحب نے مزید فرمایا کہ میری جب بھی میاں محمد نوازشریف سے ملاقات ہوتی ہے ،مَیں انہیں دیار غیر میں بسنے والے پاکستانیوں کے مسائل کے حل کی تجاویز دیتا ہوں، کیونکہ ہمارے ملک کا نان نفقہ انہی کے ترسیل زر سے چل رہا ہے اور دوسرا طبقہ جو اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے، وہ کسان ہے۔گورنر پنجاب کہتے ہیں، میری کوشش ہے کہ ان دو طبقات کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں نصیب ہوں تاکہ ملک بہتری کی طرف گامزن ہو سکے۔
گورنر پنجاب نے اپنے خطاب کے دوران ایک سوال کے جواب میں پنجاب پر گزشتہ دنوں میں ون مین رول پر بھی بڑے مثبت انداز میں تنقید کی اور کہا کہ چھوٹی سطح کے انتظامی یونٹوں کے ساتھ گراس روٹ لیول تک جمہوریت کو لے جا کر ہی ہم سرخرو ہو سکتے ہیں۔ملک میں اقلیتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے ،جس کے لئے مَیں بہت محنت کررہا ہوں، کیونکہ ہم بھی تو غیر ممالک میں اقلیتوں میں رہے ہیں۔ جب مَیں بہت زیادہ اقلیتوں کی بات کرتا ہوں تو گورنر ہاؤس میں میرا عملہ کہتا ہے، بلکہ ڈراتا ہے کہ احتیاط سے کام لیں، کیونکہ آپ سے قبل اسی پاداش میں ایک گورنر قتل ہو چکے ہیں، لیکن مَیں کسی ایسی بات کی پروا نہیں کرتا۔جلسے کے اختتام پر گورنر پنجاب نے حاصرین میں موجود پاکستان عوامی تحریک کے ورکروں سے لاہور میں قتل ہونے والے 17جون 2014ء کے سانحہ پر تعزیت اورمعذرت کی۔ گورنر پنجاب نے فرمایا کہ 17جون کا سانحہ حکومت وقت کے لئے عذاب بنا ہوا ہے۔ جلسے کے آخر میں پاکستانی کمیونٹی نے دل کھول کر سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے 30ہزار یورو دیئے اور اتنی ہی رقم ایک ہفتہ میں وزیراعظم کے ریلیف فنڈ میں جمع کرانے کا اعلان کیا۔