بھارتی سرحدی خلاف ورزیاں ،پاکستان کو تیسرے فریق کی تلاش
نیو یارک سے تجزیہ :عثمان شامی
اتوار کے روز اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی سائیڈ لائنز پر وزیراعظم کی دو اہم ترین ملاقاتیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اور امریکی سٹیٹ سیکرٹری جان کیری سے تھیں۔ دونوں ملاقاتوں میں وزیراعظم نواز شریف نے بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیوں کا مسئلہ اٹھایا۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ صرف اگست کے مہینے میں 90 مرتبہ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی خلاف ورزی کی گئی جن کی وجہ سے 20 پاکستانی شہید ہوئے۔ یہ معاملہ ایسا ہے کہ پاکستان بھارت کو ذمہ دار قرار دیتا ہے تو دوسری طرف بھارت تواتر سے پاکستان پر الزام تراشی کرتا آرہا ہے۔ اس مسئلے کا ایک ہی منطقی حل نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ کوئی تیسرا غیر جانبدار فریق صورتحال کا جائزہ لے کر فیصلہ سنادے۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر پاکستان کو اس تیسرے فریق کی تلاش ہے۔ وزیراعظم نے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے مطالبہ کیا کہ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے ملٹری ’آبزرور گروپ‘ کو فعال بنایا جائے لیکن بظاہر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ بان کی مون نے پاکستان اور بھارت کو تنازعات حل کرنے کا مشورہ تو دیا ہے لیکن کوئی ٹھوس یقین دہانی کرانے سے گریز کیا۔ پاکستانی سیکرٹری خارجہ کے مطابق سیکرٹری جنرل نے تنازعات کے حل کیلئے اپنی تنظیم کی جانب سے ہر ممکن کردار اداکرنے کی یقین دہانی کرائی، لیکن اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی پریس ریلیز محض خواہشات تک ہی محدود ہے۔امریکی سیکرٹری خارجہ نے بھی اس حوالے سے کوئی کردار ادا کرنے کا وعدہ نہیں کیا۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں کی تعریف اور قربانیوں کا اعتراف کیا اور سانحہ بڈھ بیر پر افسوس کا ااظہار بھی کیا لیکن ساتھ ہی حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کردیا۔ اس خبر کو بھارتی میڈیا نے خوب اچھالا، پاکستانی سیکرٹری خارجہ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا پاکستان حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ سمیت تمام دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کررہا ہے۔ اس معاملے میں شائد پاکستانی موقف میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ ان ملاقاتوں کا تاہم یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ بھارت اور افغانستان کے بارے میں پاکستان نے اپنا موقف واضح انداز میں پیش کردیا ہے اور وزیراعظم جنرل اسمبلی سے خطاب کے موقع پر ایک مرتبہ پھر اسے دہرائیں گے۔نیویارک روانگی سے چند روز قبل وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے بھرپور انداز میں اعلان کیا تھا کہ وہ دورے کے دوران پاکستان میں بھارتی دراندازی کے حوالے سے ایک حقائق نامہ اقوام متحدہ میں پیش کریں گے جس میں تمام ثبوت بھی شامل ہوں گے۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ اس دستاویز کا معاملہ پراسرار ہوتا جارہا ہے۔ پاکستانی صحافی اس کی تلاش میں مارے مارے پھررہے ہیں اور سیکرٹری خارجہ کی بریفنگ میں بلاناغہ یہ سوال پوچھا جاتا ہے۔ اس پر ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ یہ جلد سامنے لایا جائے گا۔ اس تحریر کے لکھے جانے تک ایسی کوئی دستاویز سامنے نہیں آئی، نہ ہی یہ واضح ہوسکا کہ یہ کسے پیش کی جائے گی۔ اگر پاکستان نے ایسی کوئی دستاویز تیار کررکھی ہے تو بہتر ہوتا اگر وزیراعظم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور امریکی سیکرٹری خارجہ سے ملاقاتوں میں اسے پیش کردیتے۔ اب دیکھنا ہے پاکستان اس حوالے سے کیا حکمت عملی اپناتا ہے۔وزیراعظم نے اتوار کے روز چند مقامی لیگی رہنماؤں سے ملاقات کی جسے سرکاری میڈیا نے پاکستانی کمیونٹی سے ملاقات قرار دے دیا تاہم اس ’سازش‘ کو یہاں مقیم پاکستانی صحافیوں نے ’بے نقاب‘ کردیا۔ سیکرٹری خارجہ کو بھی اعتراف کرنا پڑگیا کہ یہ کمیونٹی سے ملاقات نہ تھی۔ اگلے ماہ وزیراعظم دوبارہ امریکہ کے دورے پر تشریف لائیں گے، یہ دورہ صدر اوباما کی دعوت پر کیا جائے گا اور دونوں سربراہان کے درمیان ملاقات 22 اکتوبر کو طے ہے۔ سیکرٹری خارجہ نے وعدہ کیا کہ اگلے ماہ دورے کے دوران امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دورے کے دوران توجہ اقوام متحدہ کے اجلاس پر مرکوز ہے۔ دوسری جانب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کیلیفورنیا کے ’ایس اے پی سینٹر‘ میں ایک تقریب سے طویل خطاب کیا، میڈیا کے مطابق اس تقریب میں 18 ہزار سے زائد بھارتیوں نے شرکت کی۔ دلچسپ اتفاق ہے کہ بھارتی وزیراعظم بھی اقوام متحدہ کے اجلاس کے سلسلے میں امریکہ میں موجود ہیں۔