تحریک انصاف کا رائیونڈ مارچ

تحریک انصاف کا رائیونڈ مارچ
تحریک انصاف کا رائیونڈ مارچ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جب سے بھارت کا مکروہ چہرہ عالمی فورم پر بے نقاب کیاہے تب سے ملکی سالمیت کے خلاف زہر افشانی کا طوفان برپا ہے۔ اس نازک صورتحال میں چاہیے تو یہ تھا کہ سیاسی اختلافات سے قطع نظر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی تمام جماعتیں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ملی یکجہتی کا مظاہرہ کرتیں اور دشمن کو سخت پیغام دیا جاتا، لیکن چند سیاستدان علاقائی اور عالمی جارحیت کا ادراک کئے بغیر وزیراعظم نواز شریف کیخلاف آخری دنگل کے لئے سیاسی اکھاڑے میں اتر چکے ہیں۔
مسلم لیگ (ن)ملک میں سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کے لئے خدمت، دیانت، شرافت، امانت، شفافیت، رواداری اور برداشت کی سیاست کو پروان چڑھارہی ہے لیکن تحریک انصاف کے اخلاقیات سے چیئرمین عمران خان’’اوئے اوئے‘‘، ’’توں توں‘‘،مغلظات کی گردانیں، عدم برداشت و رواداری، نئے نئے الزامات،لگانے کے ریکارڈ قائم کررہے ہیں۔ عمران خان کا میڈیا کے سامنے لاہور میں ایک بیان ہی لے لیجئے، نابلد سیاستدان رائیونڈ مارچ کے حوالے سے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف پر طنز کے نشتر چلاتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں فرماتے ہیں رائے ونڈ کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے۔ حکومتی مشتنڈے ہمارے مارچ کا راستہ نہ روکیں ورنہ انہیں بہت مار پڑے گی، پنجاب حکومت اس بار کوئی حرکت نہ کرے، ہمارے کارکن تیاری کر کے آرہے ہیں۔
میاں نواز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ (ن) نے سیاسی آداب اور جمہوری روایات کی پاسداری کرتے ہوئے اس تاثر کو غیر مناسب قرار دیا کہ تحریک انصاف کے کسی غلط یا غیر جمہوری عمل پر جلسے کے مقام پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جوابی ردعمل کا اظہار کیا جائے گا۔ مسلم لیگی قیادت نے اپنے کارکنوں کو مارچ میں خلل نہ ڈالنے کی سخت تنبیہ کی اور اعلان کیا کہ 30ستمبر کو مارچ کے راستے میں قائم پارٹی دفاتر بند رکھے جائیں گے۔ حکومت پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ عمران خان رائیونڈ آئیں ان کومکمل سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی چیئرمین غیر اخلاقی لغت کے ایک لفظ استعمال کر کے اپنے فین کلب کو اشتعال دلارہے ہیں اور وزیراعظم کی ذاتی اقامت گاہ رائیونڈ پر چڑھائی کے لئے اکسا رہے ہیں۔
30ستمبر 2016کو عمران خان نے وزیراعظم کی ذاتی اقامت گاہ رائیونڈ پر چڑھائی اور لشکر کشی کے لئے لنگوٹ کس لیا ہے۔ اس غیر اخلاقی حرکت کے لئے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو گمراہ کن پراپیگنڈہ کی دعوت دینے لگے جس میں انہیں منہ کی کھانی پڑی ہے۔ کراچی میں خطاب کے دوران عمران خان نے تبدیلی لا کر نیا پاکستان بنانے کے لئے بلاول بھٹو کو پیغام دیا کہ وہ مارچ میں شرکت کریں یہ ان کے لئے بھی اچھا موقع ہے۔ اس پر قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کاکہنا تھا کہ عمران خان کو رائیونڈ مارچ سے کچھ حاصل نہیں ہوگاوہ رائیونڈ جائیں پیپلزپارٹی عوام میں جائے گی، ہم پرتشدد احتجاج کے قائل نہیں، پارلیمنٹ میں رہ کر اپنے مطالبات منوائیں گے۔خورشید شاہ کے اس بیان سے خان صاحب کونامراد ہی لوٹنا پڑا۔
پیپلزپارٹی سے مایوسی کے بعد عمران خان نے مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین سے مدد چاہی لیکن انہوں نے بھی کسی ذاتی رہائش گاہ کے گھیراؤکو غیر اخلاقی کہہ کر حکومت کے خلاف منافقین کا سیاسی سہارا نہ لینے کا مشورہ دے ڈالا۔لیکن عمران خان کو اس وقت شدید دھچکا لگا جبکہ ان کے سیاسی کزن طاہرالقادی نے ان کی غلط پالیسیوں اور عاقبت نا اندیشی کے باعث اپنی راہیں جداکر لیں۔ عمران خان کو سیاسی نابالغ قرار دے کر رائیونڈ مارچ میں عدم شرکت کا اعلان کر دیا۔ راولپنڈی کے جوتشی شیخ رشید کے سیاسی نظریات و عقائدپر عمل پیرا عمران خان کو ایک بار پھر بند گلی میں لا کر کھڑا کیا ہے۔ عمران خان رائیونڈ مارچ کو وزیراعظم کے خلاف آخری موقع سمجھ کر عوام کو دست و گریباں کرنے کے لئے بھرپور کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر 30ستمبر کو پرامن حالات رہے تو انکی سیاست کا جنازہ نکل جائے گا۔وہ ہر صورت تشدد کی آگ بھڑکا کر ملک کو افراتفری اور انار کی سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے وزیراعظم نواز شریف کو وطن عزیز کے 20کروڑ محکوم، مایوس، افلاس کے شکار، بے روز کاری، دہشتگردی کے مارے عوام کی خدمت کے لئے چنا۔ میاں نواز شریف برسراقتدار آتے ہی عوامی خدمت میں لگ گئے۔ جس کو دیکھ کر مخالفین حواس باختہ ہو کر یکسوئی سے کام کرنے والے وزیراعظم کی راہ میں دھاندلی، کرپشن اور پانامہ لیکس جیسی رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیں۔ ثبوتوں کے بغیر وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے لگے۔ اگر محض الزامات پرملک کے سربراہان مستعفی ہونے لگیں تو یہ روایت پڑ جائیگی کہ جس وزیراعظم سے اپوزیشن ناراض ہو اسے معزول کر دیا جائے۔
اگر 2013کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو سڑکوں اور چوراہوں پر دھاندلی کا واویلا کرنے اور احتجاجی سیاست کا پرچار کرنے والی کم عمر سیاسی جماعت تحریک انصاف کو محب وطن عوام نے یکسر مسترد کیا جبکہ عوامی خدمت پر مبنی پالیسیوں کی حامل مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت میں بدرجہا اضافہ ہوا ہے۔ اب تک ملک بھر کے قومی اور صوبائی حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) 20جبکہ پی ٹی آئی صرف 7نشستیں ہی حاصل کر سکی۔ اسلام آباد دھرنا تحریک انصاف کی بڑی کامیابی سمجھاجاتا ہے اگر دھرنے کے بعد ضمنی انتخابات کے اعداد و شمارکو دیکھا جائے تودسمبر 2015سے 27ستمبر 2016تک قومی اور صوبائی کے 10حلقوں میں انتخات ہوئے جن میں سے 6حلقوں میں مسلم لیگ (ن) نے کامیابی سمیٹی ۔ سندھ کے 4حلقوں میں پیپلزپارٹی نے میدان مارا ہے۔طوفان بدتمیزی بپا کرنے والے عمران خان کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پی ٹی آئی کی غیر مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ چیچہ وطنی کی اپنی ہی نشست کو برقرار نہ رکھ سکی۔ چیچہ وطنی میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 162 میں تحریک انصاف کے رائے حسن نواز کو اثاثے چھپانے پر الیکشن ٹربیونل نے نا اہل قرار دیا تھا۔ گذشتہ دنوں ہونے والے ضمنی انتخاب میں ن لیگ کے چودھری محمد طفیل 76580ووٹ لے کر سرخرو ہوئے جبکہ تحریک انصاف کو اس نشست پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ الزام تراشی،غیر جمہوری رویوں اور افراتفری کی سیاست کرنے والوں کے لئے این اے 162 کا نتیجہ نوشتہ دیوار ہے۔
کاش! کوئی وہ ’’چراغ ‘‘ ڈھونڈ کے لائے اور عمران خان کے حوالے کرے تاکہ وہ اس کی روشنی میں وزیراعظم کی قیادت میں ہونے والی معاشی ترقی، خوشحالی، امن اومان کی بہتری اور علاقائی صورتحال کا ادراک کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ا س کی روشنی میں اپنے اردگرد کے لوگوں کی پہچان کرکے مخلص، مفاد پرست اور منافقین کو بھی الگ کر سکیں۔ شکست و ریخت کی شکار تحریک انصاف کے تنظیمی ڈھانچے کو از سر نو تشکیل دے سکیں۔ آج عمران خان کے آس پاس کرپشن سے داغدار جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی اور عمران اسماعیل جیسے مفاد پرست موجود ہیں۔ اسی سیاسی تاریکی کے باعث جاوید ہاشمی جیسے زیرک سیاستدان اور اور جسٹس (ر) وجیہہ الدین جیسے معروف قانون دان کو تحریک انصاف کو خیر آبادکہنا پڑا۔
جمہورت میں پر امن احتجاج ہرذمہ دار شہری کا حق ہے لیکن احتجاج کے نام پر قومی اداروں کی تضحیک، الزام تراشی، لشکر کشی، چڑھائی اور حملے خوفناک عمل ہیں۔ خان صاحب!یہ وقت سیاسی محاذآرائی کا نہیں، قومی یکجہتی اور یگانگت کا ہے، نوشتہ دیوار پڑھیں اور 18ماہ بعد ہونے والے انتخابات میں اپنے ارمان پورے کریں۔

مزید :

کالم -