جج کا وکیل بیٹوں سے دفتر کا افتتاح، پاکستان کے بار کے اجلاس کی طلبی اور قرار داد کی منطوری کیلئے مراسلہ

جج کا وکیل بیٹوں سے دفتر کا افتتاح، پاکستان کے بار کے اجلاس کی طلبی اور قرار ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور(نامہ نگارخصوصی )لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کی طرف سے اپنے وکیل بیٹوں کے دفتر کا افتتاح کرنے کے معاملہ پرغور کے لئے پاکستان بار کونسل کے اجلاس کی طلبی اورقرارداد کی منظور ی کے لئے تحریک پیش کردی گئی ہے۔اس سلسلے میں پاکستان بار کونسل کے رکن بیرسٹر راحیل کامران شیخ نے پاکستان بار کونسل کے تمام ارکان کو مراسلہ بھجوا دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک جج کے لئے ضروری ہے کہ سرکاری اور نجی معاملات میں اس کابرتاؤ غیر موزوں نہ ہوتاکہ کوئی اس پر انگلی نہ اٹھا سکے ۔ انہوں نے مراسلہ میں نشاندہی کی ہے کہ گزشتہ جمعہ کو انہیں سپریم کورٹ کے ایک وکیل نے ایس ایم ایس کے ذریعے آگاہ کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک حاضر سروس جج نے اپنے وکیل بیٹوں کے دفتر کا افتتاح کیا ہے اور اب ہمیں وکالت کا پیشہ ترک کردینا چاہیے ۔راحیل کامران شیخ نے مراسلہ میں کہاہے کہ میں نے ایک معتبر اخبار کے صحافی سے اس بارے میں پوچھا تو کنفرم کیا گیا کہ فاضل جج نے سرکاری پروٹوکول اورسکیورٹی کے ساتھ سیف سنٹر فین روڈ پر اپنے بیٹوں کے نئے دفتر کا افتتاح کیا ،افتتاحی تقریب میں کچھ سینئر وکلا بھی موجود تھے ۔اس موقع پر پاکستان بارکونسل کے ایک رکن کی موجودگی کی بھی افواہ ہے ،اگر یہ افواہ درست ہے تو بڑی شرم کی بات ہے۔کسی لا فرم یا وکلاکے دفتر کا افتتاح کرنا حاضر سروس جج کے وقار کے منافی ہے ،جج کا ایسا اقدام اقربا ء پروری کے مترادف ہے ،مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ معروف قانون دان جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کے والد جب ویسٹ پاکستان ہائی کورٹ کے جج بنے تو انہوں نے اپنے والد کا گھر چھوڑ کر کرائے کے گھر میں سکونت اختیارکی تھی ،حتیٰ کہ انہوں نے اپنے والد کی ریٹائرمنٹ تک سپریم کورٹ کے وکیل کے طور پر انرولمنٹ بھی نہیں کرائی ۔بھارتی سپریم کورٹ نے راجہ خان کیس میں ججوں کی اقربا پروری کی مذمت کرتے ہوئے الہٰ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ایسے ججوں کے تبادلہ کا جائزہ لینے کا حکم دیا تھا جو پیشہ وکالت سے وابستہ اپنے رشتہ داروں کی مدد کررہے تھے ۔اس عدالتی فیصلے میں یہ بات افسوس کے ساتھ نوٹ کی گئی ہے کہ کچھ ججوں کے بچے اور رشتہ دار انہی کی عدالتوں میں وکالت کررہے ہیں ،انہیں وکالت کرتے ہوئے چند سال ہوئے اور وہ کروڑ وں روپے ،بھاری بینک بیلنسز ،پرتعیش گاڑیوں اور گھروں کے مالک بن گئے ہیں۔اس عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ وہ بہت مختلف دن ہوا کرتے تھے جب ججوں کے بچے اور رشتہ دار جج سے اپنے رشتے سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے تھے، انہیں بھی دیگر وکلاء کی طرح محنت کرنا پڑتی تھی ۔مراسلہ میں کہا ہے کہ میں پہلے بھی متعدد بار خطوط کے ذریعے بارکونسل کی توجہ اس جانب مبذول کراتا رہاہوں کہ اوسط درجہ کے وکلاء اپنے پیشہ میں اشرافیہ کے ہاتھوں عدم تحفظ کا شکار ہیں ،اشرافیہ سے مراد بار کے لیڈرز ،ججوں کے رشتہ دار اور ججوں کے ساتھ ماضی میں ایک چیمبر میں کام کرنے والے وکلااور میڈیاپر متحرک وکیل شامل ہیں۔یہ اشرافیہ ایک اندازے کے مطابق پیشہ وکالت کے 90فیصد وسائل پر قابض ہے ۔مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ اس بارے میں پاکستان بارکونسل کا اجلاس طلب کرکے مناسب قرارداد منظور کی جائے۔

مزید :

صفحہ آخر -