وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر79

Sep 29, 2017 | 03:01 PM

شاہد نذیر چودھری

کرسٹوفروہیلن 27جنوری1967ء کو کراچی پہنچ گیا۔بھولو پہلوان نے اپنے پروموٹر کے لیے سنٹرل ہوٹل میں کمرہ بک کرادیا اور ایئرپورٹ پر جاکر اس کا استقبال کیا۔ کرسٹوفر وہیلن کاغذات تیار کرکے آیا تھا۔چند دنوں بعد یعنی 4فروری1967ء کو ہوٹل ہی میں پاکستان کی تاریخ شاہ زوری کا پہلا معاہدہ عمل میں آیا۔ معاہدہ پر دستخط کیا ہوئے بھولو پہلوان کی مراد برآئی۔ اس روز بھولوکو خوشی دیدنی تھی۔اس نے کراچی کی بیشتر درگاہوں اور مساجد میں نذرانے بھجوائے۔غریبوں میں کھانا تقسیم کیا اور خود خدا کے حضور سجدہ ریز ہو گیا۔
مقابلے مئی کے آخری ہفتے میں تھے۔ ابھی تین ماہ کا عرصہ تھا۔ بھولو پہلوان کے تو کاغذات مکمل تھے مگر برادران میں سے کچھ کے انٹرنیشنل پاسپورٹ کی میعاد ختم ہو چکی تھی۔ کاغذات کی تیاری کے لیے دوڑ شرو ع ہو گئی۔ اسی دوران مسٹر وہیلن کے چند خطوط آئے کہ انگلینڈ میں مقیم پاکستانی بھولو برادران کا بے چینی سے انتظار کررہے ہیں۔
اپریل کامہینہ شروع ہو چکا تھا۔ بھولو پہلوان اپنے زوروں میں مشغول تھا مگر ساتھ ہی فہمی کاغذات کی تیاری کے لیے مصروف عمل رکھا۔ اتفاق سے انہی دنوں مسٹروہیلن غیر متوقع پر طور پر کراچی آگیا۔ بھولو پہلوان اس کی آمد سے تشویش میں مبتلا ہو گیا اور پوچھا۔’’جناب خیر تو ہے ناں؟‘‘

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر78  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مسٹروہیلن نے اپنی آمد کی وضاحت کی۔’’میں دارا سنگھ سے معاہدہ کرنے بمبئی جارہا تھا۔ میں نے سوچا دو دن آپ لوگوں میں گزاروں۔‘‘
’’تودارا سنگھ راضی ہو ہی گیا ہے۔‘‘بھولو نے کہا۔’’میں تو چاہتا ہوں وہ بے شک دس ہزار پونڈ لے لے مگر ایک بار میرے مقابل آجائے۔‘‘
’’میں کوشش کروں گا کہ وہ مان جائے۔‘‘مسٹروہیلن نے کہا۔
مسٹر وہیلن بمبئی روانہ ہوا اور دو دن بعد ہی واپس آگیا۔اس نے بتایا کہ دارا سنگھ نے ان مقابلوں میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ واپسی سے قبل مسٹروہیلن نے بتایا۔
’’میں نے آپ لوگوں کی ٹکٹوں کے لیے سیرین عرب ائرلائن سے رابطہ کیا ہے۔امید ہے چند دنوں بعد ٹکٹ لندن سے یہاں پہنچ جائیں گے۔‘‘
بھولو نے یہ سنا تو کہا۔’’کیا یہ ضروری ہے کہ ہم عرب ائیر لائن سے رخصت ہوں۔میں تو اپنے ملک کی فضائی کمپنی پی آئی اے کو ترجیح دوں گا۔‘‘
مسٹروہیلن نے کہا۔’’یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہے۔ آپ کی خواہش کے مطابق ہی فضائی کمپنی کا انتخاب کرلیتے ہیں۔‘‘
بہرحال پی آئی اے کی سیٹیں ریزرو کرادی گئیں۔24مئی1967ء بروز بدھ بھولوپہلوان، اسلم، اعظم، اکرم،گوگا، مسٹر ادریس صدیقی (سیکرٹری)،عبدالحمید معالج اور فہیم الدین فہمی پر مشتمل یہ گروہ انگلینڈ کے لیے پرواز کر گیا۔سفر بڑا خوشگوار رہا۔ یہ طیارہ تہران،بیروت، استنبول، ،جنیوا پر مختصر قیام کے بعد لندن کے لیے روانہ ہوا۔
لندن کا موسم ابرآلود تھا۔ ہر طرف گہری دھند چھائی تھی۔لندن کی فلک بوس عمارتوں سے روشنیاں دھند کا سینہ چیر کر قوس قزح کے رنگ پیدا کررہی تھیں۔ بھولو برادران طیارے سے اترے تو ا یک ہجوم بیکراں ان کے استقبال کے لیے موجود تھا۔ صحافی اور فوٹو گرافروں کے جتھے اور ٹیلی ویژن ٹیمیں پاکستانی شاہ زوروں کی رپورٹنگ کرنے کے لیے بے چین کھڑی تھیں۔ ائیرپورٹ کی فضا بھولو برادران کے نعروں سے گونج رہی تھی۔ استقبال کرنے والوں میں پاکستانیوں کے علاوہ بھارتی شائقین کشتی کی ایک بڑی تعداد بھی کھڑی تھی۔ تعصب کی دبیز عینک توڑ کر وہ پاکستانی شاہ زوروں کی جے جے کار کے نعرے لگا رہے تھے۔
بھولو پہلوان کو اخباری نمائندوں نے گھیر لیا تھا اور طرح طرح کے سوالات کیے۔ بھولو پہلوان کے سیکرٹری نے مترجم کے فرائض ادا کئے اور سوالوں کے جواب بڑی خود اعتمادی سے دیئے۔ بھولو برادران کو ایک پاکستانی ہوٹل سنی دیو میں ٹھہرایا گیا۔ 25مئی کو ان کی ایک پریس کانفرنس ہوئی اور انگلینڈ کے اخبارات نے بھولو برادران کے انٹرویو شائع کیے۔اسی روز شاہ زور جب لندن کی سیرو سیاحت کے لیے نکلے تو موسم حسب معمول خوشگوار تھا۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔بھولو برادران کی گاڑیاں آہستہ روی سے سڑکوں اور پارکوں کے نظارے کررہی تھیں۔ اسی اثناء میں ایک خاتون نے بیچ سڑک میں کھڑے ہو کر ان کی گاڑی روک لی۔
وہ خاتون بھولو پہلوان کی گاڑی کے پاس پہنچی اور عجزوانکساری سے گویا ہوئی۔
’’میں بھی پاکستانی ہوں۔ اگر ناگوار نہ گزرے تو براہ کرم مجھے اپنی خدمت کا موقع دیں۔ کچھ کھا پی کر جائیں۔ میری عزت افزائی ہو گی۔‘‘
بھولو پہلوان سے قبل فہمی بول اٹھا۔’’خاتون محترمہ اس وقت تو نہیں البتہ پھر کسی دن آپ کو خدمت کا موقع دیں گے۔۔۔کیونکہ ہمارے کھانے کا مکمل انتظام ہوٹل میں ہے۔‘‘
’’میں آپ کی مجبوری سے آگاہ ہوں۔ اگر آپ چند منٹ عنایت کر دیں تو بڑی مشکور ہوں گی۔‘‘خاتون شستہ لہجے میں اردو بول رہی تھی۔
بھولو پہلوان نے کہا۔’’ہم آپ کی دل شکنی نہیں کرنا چاہتے۔چلئے ہم تیار ہیں۔‘‘
’’بھولو جی کیا کرتے ہیں۔‘‘فہمی نے تشویش بھری نظروں سے دیکھا۔’’دو دن بعد کشتی ہے خدانخواستہ کھانے میں کچھ گڑ بڑ ہوئی تو مصیبت پڑ جائے گی۔‘‘
’’اللہ مالک ہے یار! میں اس خاتون کا دل نہیں توڑنا چاہتا۔‘‘بھولو پہلوان نے کا۔
وہ خاتون انہیں اپنے گھر لے گئی اور کبابوں اور چپاتیوں سے پہلوانوں کی تواضح کی۔پہلوانوں نے سیر ہو کر کھایا اور واپس ہو لئے۔ بھولو پہلوان کو ایسے ہی پاکستانیوں کی محبت و چاہت کا خزانہ بے بہا ملا۔ جتنے دن ان کا قیام رہا رواانہ دعوتیں ملتیں مگر اب وہ قبول نہ کرتے تھے۔
بالآخر27مئی کو بریڈ فورڈ میں پہلا کانٹے دار دنگل جم گیا۔ یہ کشتی اعظم پہلوان اور امریکہ کے ہیوی ویٹ چیمپئن رون ریڈ کے درمیان تھی۔ اس سے قبل رون ریڈ نے بھولو کا چیلنج قبول کیا تھا مگر اب کسی مصلحت کے تحت وہ اعظم سے کشتی کرنا چاہتا تھا۔
27مئی 1967ء بروز ہفتہ بریڈ فورڈ کا سٹی پال اسٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ موسم آج بھی موسلادھار تھا۔کشتی کے شائقین موسم کو خاطر میں لائے بغیر کشتی دیکھنے کے لیے موجود تھے۔ ٹھیک نو بجے اعظم اور رون ریڈ کا فری اسٹائل مقابلہ شروع ہوا۔ اعظم نے پانچویں راؤنڈ میں بوسٹن کریپ داؤ لگا کر رون ریڈ کو نڈھال کر دیا اور فتح یاب ہوا۔ اعظم کی جیت سے بھولو کے حوصلے بڑھ گئے۔ پانچ ہزار پونڈ کا انعام بچ گیا تھا اور یہ ان کے حق میں نیک شگون تھا۔
بھولو کا ایک حریف اعظم عرف راجہ کے ہاتھوں چت ہو گیا تھا اور اب دوسرا حریف کینیڈا کا چیمپئن جارج گارڈینکو بھولو کے مقابلہ سے تائب ہو کر اکی پہلوان سے کشتی پر بضد ہو گیا تھا۔ یہ مقابلہ28مئی کو برمنگھم بنگلے ہال میں ہوا۔ یہ مقابلہ اکی پہلوان نے دوسرے ہی راؤنڈ میں جیت لیا اوربھولو پہلوان کے عزم و استقلال میں اضافے کا باعث بنا۔ دستور کے مطابق اب بھولو پہلوان کا مقابلہ ہنری پیری کے ساتھ ہونا تھا جو لندن میں طے پایا تھا۔
29مئی 1967ء کے دن ستاون برس بعد دمبلے پول سٹیڈیم میں ایک بار پھر عالمی رستم کے خطاب کا معرکہ سر ہونے والا تھا۔1910ء میں ایک ایسا ہی معرکہ بھولو کے تایا اور سسر گاماں پہلوان نے سر کیا تھا اور رستم زماں بن کردنیا بھر میں حکمرانی کی۔ یہ گاماں پہلوان کے فن کی معراج کو تسلیم کرنے والی بات تھی کہ انگریز شاہ زور اس کے بھتیجوں سے کشتیاں لڑنے سے کتراتے تھے۔ گاماں پہلوان نے400انگریز پہلوانوں کو ستاون برس قبل جو عبرتناک شکستیں دی تھیں ان کے زخم ابھی تک تازہ تھے اور کسی کی جرات نہیں ہو رہی تھی کہ وہ گاماں کے جانشینوں سے معرکہ آرا ہو کر اپنی ہزیمت کی تلافی کر سکتے۔ مگر اب بھولو کو گوہر مراد ملا تھا تو انیس برس کی تگ و دو کے بعد۔
بھولو پہلوان گاماں پہلوان کی حیات میں رستم زماں کی کشتی نہیں لڑنا چاہتا تھا اور شاید حالات بھی ایسے نہ تھے کہ دنیا کی کسی نکڑ میں رستم زماں کے لیے کوئی مقابلہ منعقد ہوا ہو۔(جاری ہے )

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر80 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں