قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 77

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 77
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 77

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جگر صاحب کی ایک اور عادت تھی کہ فلاش بہت کھیلتے تھے۔ وہ رات رات بھر خود بھی جاگتے رہتے تھے اور دوسروں کو بھی جگاتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے پیسے لگا تے تھے۔ بچوں کی طرح کھیلتے تھے اور کھیل کے دوران نو عمر بچوں کی طرح ساتھ والوں کے ساتھ ہیر پھیر بھی کرتے تھے۔ یہ نہیں کہ یہ ہیر پھیر پیسوں کی وجہ سے کرتے تھے بلکہ مزا لیتے تھے۔ کبھی کسی کے چار آنے مار لیتے اور کبھی پتے تبدیل کر لیتے ۔ پھر اس سارے کھیل کے دوران شعر کا ذکر نہیں ہوتا تھا۔ اگر کوئی شعر کی بات کرتا تو وہ بڑی ملائمت سے ٹال دیتے۔
میں یہاں لاہور میں ایک بار ان کا تماشا دیکھنے کیلئے اس کھیل کے دوران موجود رہا۔ کیونکہ مجھے اس کے علاوہ جوئے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ کیونکہ میں تو جوئے پیرس میں رہنے کے باوجود اسے ناپسند کرتا تھا اور اس معاملے میں آپ مجھے چیچو کی ملیاں کا رہنے والا سمجھ لیجئے ۔ میں جوئے کے بارے میں یہ بات اپنے والد صاحب کے حوالے سے کہہ رہا ہوں اور سچ بھی یہی ہے کہ مجھے تاش کے پتوں کے بارے میں بھی کچھ علم نہیں۔ چنانچہ تاش کھیلنا اور اس دوران بچوں کی طرح ہیرا پھیری کرنا جگر صاحب کی تیسری عادت تھی۔

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 76  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس سلسلے میں یہ بتا دوں کہ ہم جب کہیں کسی مشاعرے میں جاتے تھے توہمارے مستقل تاش کھیلنے والوں میں جناب احمد ندیم قاسمی اور حبیب جالب ہمیشہ سرفہرست ہوتے تھے۔ اگر احمد فراز ہوتے تو وہ بھی شریک ہوتے تھے۔ پھر جب یہ لوگ تاش کھیلتے تو مجھے بھی کہتے کہ آؤ ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھیلو۔ مگر میں نہیں کھیلتا تھا کیونکہ مجھے تاش کھیلنا آتا ہی نہیں تھا۔
ایک بار ہم ٹرین میں جا رہے تھے ۔ ٹرین میں مجھے نیند بہت آتی ہے کیونکہ جب ٹرین کا پہیہ چلتا ہے تو اس کے شور کے Rhythm سے مجھے فوراً ہی نیند آنے لگتی ہے ۔ چنانچہ اس روز بھی جب ہم ٹرین کے ذریعے سفر پر روانہ ہوئے تو گاڑی چلنے کے تھوڑی دیر کے بعد ہی میں اوپر برتھ پر چڑھ کر سونے کیلئے لیٹ گیا مگر ان کااصرار تھا کہ تم بھی نیچے آؤ اور ہمارے ساتھ بیٹھ کر تاش کھیلو۔ اس سے پہلے بھی ایک دوبار ایسا ہوا تھا کہ ان کے اصرار پر میں ان کے پاس بیٹھ کر کھیلتا رہا اور جب مجھے اپنی دانست میں پتا چلا کہ مجھے یہ کھیل آگیا ہے تو میں ان کے ساتھ بیٹھ جاتاتھا اور سودوسو روپے ہار کر پھر اوپر جا کر سوجاتا تھا۔ ظاہر ہے کہ جس کھیل میں شوق ہی نہ ہواس میں جیت کیا ہے۔ اس طرح میں ان سے تنگ آگیا تھا۔
اس بار ہم کراچی جا رہے تھے اور جب ریل گاڑی کو چلے ہوئے کچھ دیر ہو چکی تھی اور میں اوپر برتھ پر لیٹ چکا تھا۔ تو نیچے سے انہوں نے کہنا شروع کیا کہ قتیل صاحب نیچے آئیے اور آکر ہمارے ساتھ کھیلئے ۔ میں نے اوپر ہی سے پچاس روپے کا نوٹ نیچے پھینکا اور کہا کہ آپ اسے آپس میں بانٹ لیں کیونکہ مجھے پتا ہے کہ آپ مجھے نیچے کیوں بلا رہے ہیں۔ کیونکہ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ اناڑی آدمی ہے اور پیسے ہار جائے گا۔ تو سمجھ لیجئے کہ میں ہار گیا ہوں۔ وہ سب ہنسے اور پچاس روپے رکھ لئے۔ اس کے بعد میں نے کبھی تاش کو ہاتھ نہیں لگایا۔
اپنے مقابلے میں جب جگر صاحب کی طرف دھیان کرتا ہوں تو سمجھ نہیں آتی کہ اتنا وقت کس طرح نکال لیتے تھے اور یہ کھیل کھیلتے رہتے تھے۔ کیونکہ وہ تو ایک بہت بڑے شاعر اور مصروف آدمی تھے۔ میرے خیال میں یہ سب شوق کا معاملہ یہ اور مجھے کبھی اس کا شوق نہیں رہا۔
روشن صدیقی اور اختر رضوانی
روشن صدیقی چھوٹے قد کے اور دبلے پتلے تھے۔ ان کے مجاز صاحب کے ساتھ کچھ لطیفے بھی مشہور ہیں۔ وہ نظمیں کہتے تھے تو ان کو مخاطب کر کے کہتے تھے ۔ وہ عام شاعری سے اٹھ کر سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے تھے ۔ ان کی اپنے قد سے زیادہ گمبھیر آواز تھی اور جب مائیک پر پڑھ رہے ہوتے تھے تو یوں لگتا تھا جیسے کوئی چھ فٹ کا آدمی پڑھ رہا ہو۔ پھر وہ ترنم سے پڑھتے تھے جو خوبصورت تھا۔ اس زمانے میں ان کی کئی چیزیں بہت مشہور بھی ہوئیَ درمیان میں ان کی بیوی فوت ہو گئی تھیں۔
ان کے بارے میں مشہور ہے کہ مجاز صاحب سے کہنے لگے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ اب دوسری شادی کر ہی لوں لیکن عمر کا تقاضا ہے کہ کسی کنواری لڑکی سے شادی نہ کروں کیونکہ یہ غیر مناسب ہو گا۔ بلکہ اگر کسی بیوہ سے شادی کر لوں تو بہتر ہو گا۔ مجاز صاحب بہت زندہ دل تھے کہنے لگے کہ آپ کسی بھی لڑکی سے شادی کرلیں وہ شادی کے بعد خود ہی بیوہ ہو جائے گی۔
اسی طرح انہی کے سامنے آنہوں نے کہا کہ میری شاعری سے آپ لاکھ انکار کریں مگر ایک دن آپ مانیں گے کہ میری شاعری قد آور ہے ۔ مجاز صاحب کہنے لگے کہ یار روشن تمہاری شاعری بھی قد ر آور بن جائے گی پہلے خود تو قد آور بن جاؤ۔ روشن صدیقی اس قسم کی باتوں کا برا نہیں مانتے تھے بلکہ ان سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ وہ دوستوں کے دوست تھے۔ میں یہ پارٹیشن سے کچھ عرصہ کی بات کر رہا ہوں۔
روشن بات تو سوشلزم کرتے تھے لیکن خود پیر پرست تھے اور دربار گولڑہ سے ان کا تعلق تھا۔ گولڑہ کے علاوہ پیر شاہ نصیر الدین گیلانی کے دادا حضرت بابو جی اس وقت پیر ہوتے تھے۔ ایک بار روش کراچی کے مشاعرے میں شرکت کیلئے آئے تو وہاں سے لاہور آئے اور خاص طور پر گولڑہ میں حاضری دینے کیلئے گئے۔ ہمارے ایک دوست ہیں عارف عبدالمتین لاہور میں ان کے ہاں ٹھہرے۔ ان سے ایک لطیفہ بھی منسوب ہے ۔ عارف صاحب کے ہاں تکلف ہے ۔ وہ جب باتیں بھی کرتے تھے تو وہ گھڑی گھڑائی ہوتی ہیں مثلاً اگر آپ نے سونا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ ذرا چادر تو بچا دیں تو یہ کہیں گے کہ قالین بچھا دوں ۔ یعنی جو آپ نے مانگا ہے اس سے زیادہ کی بات کریں گے ۔ اگر آپ نے ہاتھ کا پنکھا مانگا ہے تو کہیں گے کہ اگرآپ تھوڑا توقف کریں تو میں بجلی کا پنکھا لگوا دوں۔
لائل پور میں ہندو پاک مشاعر ہ تھا۔ پنڈٹ ہری چنداختر صدارت کر رہے تھے۔ اس مشاعرے میں انڈیا سے جو شعراء آئے ہوئے تھے ان میں علامہ انور صابری بھی شریک تھے ۔ شکل صورت ایسی تھی کہ کالے بھجنگ اور بہت موٹے تھے۔ یہ شلوار اور کرتا پہنتے تھے ۔ پیری کا دم بھی بھرتے تھے اور مریدی کا بھی۔ جہاں ضرورت پڑتی تھی پیر بن جاتے تھے اور جہاں ضرورت پڑتی تھی مرید بن جاتے تھے۔ پہلے یہ بتادوں کہ یہ بڑا تکلف کرتے تھے اور ان کے ذہن میں جو طبع زاد چیز آجاتی تھی اسے خود بھی حقیقت سمجھ کر بیان کر جاتے تھے۔ مثال کے طور پر ہندوستان کے وزیراعظم شاستری ایک مشاعرے میں صدارت کر رہے تھے۔ انہیں عادت تھی کہ سٹیج پر اشعار سے پہلے کچھ باتیں کرتے تھے۔ کہنے لگے کہ واہ واہ کیا زمانہ تھا جب ہندوستان چھوڑ دو کی تحریک چل رہی تھی اور پورا ہندوستان بیدار اور جذباتی تھا تو ان دنوں میں اور صاحب صدر الہٰ آباد جیل میں بند تھے۔ پھر وزیراعظم شاستری کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے کیوں شاستری صاحب؟ اب شاستری صاحب نہ ہاں کر سکتے تھے اور نہ ہی نہ کر سکتے تھے۔ سویہ اس طرح کی باتیں کرتے تھے۔
اس طرح ایک بار پنڈت ہری چند اختر ایک مشاعرے کی صدارت کر رہے تھے ۔ یہ ایک نستعلیق قسم کے شاعر تھے اورد ہلی کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے یہ بات ان کی صدارت میں بھی دہرائی تھی اور کہنے لگے کہ واہ واہ کیا وقت تھا‘ تحریک چل رہی تھی تو میں اور صاحب صدر ہری چند اختر کراچی جیل میں بند تھے۔ صاحب صدر نے کہا کہ ذرا ٹھہریئے صاحب! وہاں ہم دونوں تھے لیکن دونوں کے جرموں کی نوعیت الگ الگ تھی۔ اس سے حاضرین مشاعرہ نے بہت قہقہہ لگایا۔
چنانچہ جب یہ لائل پور کے مشاعرے میں سٹیج پر پڑھ رہے تھے تو کوئی فوٹو گرافر تصویر لینے کیلئے آیا تو کہنے لگے کہ نہیں صاحب ہم تصویر نہیں اتروائیں گے۔ ہٹایئے اپنا کیمرہ ۔ اب تصویر تو اس نے لینی ہی تھی ۔ یہ صرف نمایاں ہونے کیلئے یہ سب کچھ کر رہے تھے۔ پنڈت صاحب جو مشاعرے کی صدارت کر رہے تھے کہنے لگے کہ علامہ صاحب تصویر لینے دیجئے۔ یہ اخبار میں چھاپنے کیلئے نہیں ہے بلکہ بچوں کو ڈرانے کے لئے ہے۔ اس پر وہاں بہت قہقہہ پڑا۔(جاری ہے )

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 78 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں